ناصر کاظمی ::::: نشاطِ خواب ::::: Nasir Kazmi

طارق شاہ

محفلین


نشاطِ خواب
ناصؔر کاظمی


ہر کُوچہ اِک طلِسم تھا، ہر شکل موہنی
قصّہ ہے اُس کے شہر کا یارو شُنیدنی

تھا اِک عجیب شہر درختوں کے اوٹ میں
اب تک ہے یاد اُس کی جگا جوت روشنی

سچ مُچ کا اِک مکان، پرستاں کہیں جسے
رہتی تھی اُس میں ایک پری زاد پدمنی

اُونچی فصِیلیں، فصِیلوں پہ بُرجیاں
دِیواریں رنگِ سُرخ کی، دروازے چندنی

جھل جھل جَھلک رہے تھے پسِ چادرِ غُبار
خیمے شفق سے لال، چتر تخت کندنی

فوّارے چُھوٹتے ہُوئے مر مر کے صحن میں
پھیلی تھی جس کے گرد گِل بانس کی بنی

جُھرمٹ کبوتروں کے اُترتے تھے رنگ رنگ
نیلے، اُجال، جوگئے، گلدار، کاسنی

پٹ بیجنا سی انکھڑیاں، گل چاندنی سے تاج
چونچوں میں خس کی تیلیاں، پنجوں میں پینجنی

سارنگیاں سی بجتی تھیں جب کھولتے تھے پر
یکبار گونج اُٹھتی تھی سُنسان کنگنی

اِستادہ اصطبل میں سُبک سیر گھوڑیاں
ٹاپوں میں جن کی گَرد ہو گردونِ گردنی

رہتی تھی اُس نواح میں ایسی بھی ایک خلق
پوشاک جس کی دُھوپ تھی، خوراک چاندنی

کل رات اُس پری کی عروسی کا جشن تھا
دیکھی تھی میں نے دُور سے بس اُس کی روشنی

ہر مُلک، ہر دیار کے خوش وضع میہماں
بیٹھے تھے زیب تن کِیے ملبُوس درشنی

جلنے لگِیں درختوں میں خوشبُو کی بتّیاں
پھر چھیڑ دی ہوائے نیستاں نے سمدنی

ہاتھوں میں رنگترے لِیے، سر پر صُراحیاں
کچّی نکور باندیاں نِکلیں بنی ٹھنی

کِشمش، چُھوارے، کاغذی بادام، چار مغز
رکھتے تھے رنگ رنگ کے میوے چشیدنی

مُرغابیاں تَلی ہُوئیں، تیتر بُھنے ہُوئے
خستہ کباب سیخ کے اور نان روغنی

صندل، کنول، سہاگ پُڑا، سہرا، عطر پُھول
لائی سجا کے تھال میں اِک شوخ کامنی

شیشے اُچھال اُچھال کے گاتے تھے مُغبچے
بیٹھی تھی شہ نشین پہ اِک دُختِ اَرمنی

رقّاصِ رنگ ناچتے پھرتے تھے صف بہ صف
دُولھا بنا گُلال، بسنتی دُلھن بنی

سازوں کی گت پلٹ گئی، طبلے ٹھٹک گئے
پی کر شراب ناچ رہی تھی وہ کنچنی

انگارہ سا بدن جو دَمکتا تھا بار بار
گُل مُنہ پہ ڈال لیتے تھے کِرنوں کی اوڑھنی

ہر دانگ باجنے لگے باجے نشاط کے
مردنگ، ڈھول، تان پُرا، سنکھ سنکھنی

آکاش سے برس پڑے رنگوں کے آبشار
نیلے، سیہ ، سفید ، ہرے ، لال ، جامنی

اِتنے میں، ایک کِفر سراپا نظر پڑا
پھرتی تھی ساتھ ساتھ لگی جس کے چاندنی

ماتھے پہ چاند، کانوں میں نیلم کی بالیاں
ہاتھوں میں سُرخ چوڑیاں، شانوں پہ سوزنی

پلکیں دراز خطِ شعاعی سے تیز تر
پُتلی ہر ایک آنکھ کی ہیرے کی تھی کنی

ٹھوڑی وہ آئنہ سی، کہ بس دیکھتے رہیں
جوبن کے گھاٹ پر وہ کنول دو شگفتنی

گردن، بھڑکتی لو سی کہ، جی چاہے جل مریں
کالے سیاہ بال کہ بدمست ناگنی

وہ اُنگلیاں شفق سی کہ ترشے ہُوئے قلم
اُجلے روپہلے گال کہ ورقے نوشتنی

کُندن سا رُوپ، دُھوپ سا چہرہ، پَون سی چال
دامن کشیدنی، لب و عارض چشیدنی

صُورت نظرنواز، طبیعت ادا شناس
سَو حُسن ظاہری تو کئی وصف باطنی

پردے اُٹھا دیے تھے نگاہوں نے سب، مگر
دِل کو رہا ہے شکوۂ کوتاہِ دامنی

اُڑ اُڑ کے راج ہنسوں نے جنگل جگا دِیا
گھوڑوں کی رَتھ میں بیٹھ گئے جب بنا بنی

مُنہ دیکھتے ہی رہ گئےسب ایک ایک کا
مُنہ پھیر کر گُزرگئی وہ راج ہنسنی

منظر مجھے ہَوس نے دِکھائے بہت، مگر
ٹھہرا نہ دِل میں حُسن کا رنگِ شکستنی

تارا سَحر کا نِکلا تو ٹھنڈی ہَوا چلی
نیند آگئی مجھے کہ وہاں چھاؤں تھی گھنی

ناصؔر کاظمی

 

طارق شاہ

محفلین




نشاطِ خواب
ناصؔر کاظمی

ہر کُوچہ اِک طلِسم تھا، ہر شکل موہنی
قصّہ ہے اُس کے شہر کا یارو شُنیدنی

تھا اِک عجیب شہر درختوں کے اوٹ میں
اب تک ہے یاد اُس کی جگا جوت روشنی

سچ مُچ کا اِک مکان، پرستاں کہیں جسے
رہتی تھی اُس میں ایک پری زاد پدمنی

اُونچی فصِیلیں، فصِیلوں پہ بُرجیاں
دِیواریں رنگِ سُرخ کی، دروازے چندنی

جھل جھل جَھلک رہے تھے پسِ چادرِ غُبار
خیمے شفق سے لال، چتر تخت کندنی

فوّارے چُھوٹتے ہُوئے مر مر کے صحن میں
پھیلی تھی جس کے گرد گِل بانس کی بنی


ہر بوستاں کے پُھول تھے اُس عیش گاہ میں
ہر دیس کے پرندوں نے چھائی تھی چھاؤنی

جُھرمٹ کبوتروں کے اُترتے تھے رنگ رنگ
نیلے، اُجال، جوگئے، گلدار، کاسنی

پٹ بیجنا سی انکھڑیاں، گل چاندنی سے تاج
چونچوں میں خس کی تیلیاں، پنجوں میں پینجنی

سارنگیاں سی بجتی تھیں جب کھولتے تھے پر
یکبار گونج اُٹھتی تھی سُنسان کنگنی

اِستادہ اصطبل میں سُبک سیر گھوڑیاں
ٹاپوں میں جن کی گَرد ہو گردونِ گردنی

رہتی تھی اُس نواح میں ایسی بھی ایک خلق
پوشاک جس کی دُھوپ تھی، خوراک چاندنی

کل رات اُس پری کی عروسی کا جشن تھا
دیکھی تھی میں نے دُور سے بس اُس کی روشنی

ہر مُلک، ہر دیار کے خوش وضع میہماں
بیٹھے تھے زیب تن کِیے ملبُوس درشنی

جلنے لگِیں درختوں میں خوشبُو کی بتّیاں
پھر چھیڑ دی ہوائے نیستاں نے سمدنی

ہاتھوں میں رنگترے لِیے، سر پر صُراحیاں
کچّی نکور باندیاں نِکلیں بنی ٹھنی

کِشمش، چُھوارے، کاغذی بادام، چار مغز
رکھتے تھے رنگ رنگ کے میوے چشیدنی

مُرغابیاں تَلی ہُوئیں، تیتر بُھنے ہُوئے
خستہ کباب سیخ کے اور نان روغنی

صندل، کنول، سہاگ پُڑا، سہرا، عطر پُھول
لائی سجا کے تھال میں اِک شوخ کامنی

شیشے اُچھال اُچھال کے گاتے تھے مُغبچے
بیٹھی تھی شہ نشین پہ اِک دُختِ اَرمنی

رقّاصِ رنگ ناچتے پھرتے تھے صف بہ صف
دُولھا بنا گُلال، بسنتی دُلھن بنی

سازوں کی گت پلٹ گئی، طبلے ٹھٹک گئے
پی کر شراب ناچ رہی تھی وہ کنچنی

انگارہ سا بدن جو دَمکتا تھا بار بار
گُل مُنہ پہ ڈال لیتے تھے کِرنوں کی اوڑھنی

ہر دانگ باجنے لگے باجے نشاط کے
مردنگ، ڈھول، تان پُرا، سنکھ سنکھنی

آکاش سے برس پڑے رنگوں کے آبشار
نیلے، سیہ ، سفید ، ہرے ، لال ، جامنی

اِتنے میں، ایک کِفر سراپا نظر پڑا
پھرتی تھی ساتھ ساتھ لگی جس کے چاندنی

ماتھے پہ چاند، کانوں میں نیلم کی بالیاں
ہاتھوں میں سُرخ چوڑیاں، شانوں پہ سوزنی

پلکیں دراز خطِ شعاعی سے تیز تر
پُتلی ہر ایک آنکھ کی ہیرے کی تھی کنی

ٹھوڑی وہ آئنہ سی، کہ بس دیکھتے رہیں
جوبن کے گھاٹ پر وہ کنول دو شگفتنی

گردن، بھڑکتی لو سی کہ، جی چاہے جل مریں
کالے سیاہ بال کہ بدمست ناگنی

وہ اُنگلیاں شفق سی کہ ترشے ہُوئے قلم
اُجلے روپہلے گال کہ ورقے نوشتنی

کُندن سا رُوپ، دُھوپ سا چہرہ، پَون سی چال
دامن کشیدنی، لب و عارض چشیدنی

صُورت نظرنواز، طبیعت ادا شناس
سَو حُسن ظاہری تو کئی وصف باطنی

پردے اُٹھا دیے تھے نگاہوں نے سب، مگر
دِل کو رہا ہے شکوۂ کوتاہِ دامنی

اُڑ اُڑ کے راج ہنسوں نے جنگل جگا دِیا
گھوڑوں کی رَتھ میں بیٹھ گئے جب بنا بنی

مُنہ دیکھتے ہی رہ گئےسب ایک ایک کا
مُنہ پھیر کر گُزرگئی وہ راج ہنسنی

منظر مجھے ہَوس نے دِکھائے بہت، مگر
ٹھہرا نہ دِل میں حُسن کا رنگِ شکستنی

تارا سَحر کا نِکلا تو ٹھنڈی ہَوا چلی
نیند آگئی مجھے کہ وہاں چھاؤں تھی گھنی

ناصؔر کاظمی
()
 
Top