امین شارق

محفلین
محترم اساتذہ کرام جناب الف عین،
سید عاطف علی
محمد خلیل الرحمٰن
محمد احسن سمیع: راحل
ایسے تمہاری یاد کے جالے نہیں جاتے
جیسے قمر کو چھوڑکر ہالے نہیں جاتے

دل سے تیری یادوں کے اجالے نہیں جاتے
ماضی کے یہ غم مجھ سے سنبھالے نہیں جاتے

کیا دور چل رہا ہے کہ اخلاص ہی نہیں
اولاد سے ماں باپ بھی پالے نہیں جاتے

چاہوں تو دل کے راز سارے کھول کے رکھ دوں
لیکن زبان پہ لگے تالے نہیں جاتے

تو کہدے اگر چاند تارے توڑ کے لاؤں
مجھ سے تمہارے کام اب ٹالے نہیں جاتے

دل میں تمہاری یاد اور آنکھوں میں تصور
ایسے ہیں جاگزیں کہ نکالے نہیں جاتے

ہوتی نہیں قبول میری ایک بھی دعا
کیوں آسمان تک میرے نالے نہیں جاتے

شارؔق یہ یاد رکھنا کبھی بھولنا نہیں
دل سے کبھی بھی چاہنے والے نہیں جاتے​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اس میں دو بحور کا خلط ہو گیا ہے، ارکان اور بحر کی تفصیل کی بجائے یہ بتا دوں کہ غالب کی ان دو غزلوں کی بحور
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
اور
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
'نہیں جاتے' ردیف تو صرف دوسری بحر میں فٹ ہوتی ہے
 
Top