میرے نام پر اعتراض کرنے والے اپنے آپ کو کیوں نہیں بدلتے

وشال احمد

محفلین
میرے نام پر اعتراض کرنے والے اپنے آپ کو کیوں نہیں بدلتے
دنیا کے کئی ممالک کے سفر اور وہاں طویل عرصے قیام کے بعد ایک بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر آپ امریکہ یا کینیڈا یا کسی اورملک کے کسی بھی شہری سے پوچھیں کہ وہ کون ہے تو اس کا جواب ہوگا کہ وہ امریکی ہے، یا کینیڈین ہے! شائدآپ کسی سے یہ جواب نہیں سنیں گے کہ وہ نیو یارکر ہے، یا ساؤتھ کی ریاستوں سے تعلق رکھتا ہےاور نہ ہی وہ اپنی لسانی شناخت و نسلی شناخت کے حوالے سے کبھی خود کو انڈین، افریکن یا اسپینش یا عرب کہے گا۔ وہ اپنی دوسری شناخت صرف اس وقت ہی آپ کو بتائے گا جب آپ اس سے استفسار کریں کہ وہ کہاں سے تعلق رکھتا ہےیا اسکی مادری زبان کیا ہے ،اور آپ اپنے استفسار کی معقول وجہ بھی اسے بتایئں۔ اسکے برخلاف ہمارے یہاں پاکستان میں اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ وہ کون ہے تو اس کا جواب عموما یہ ہوتا ہے کہ وہ پنجابی ہے یا پٹھان، بلوچ یا سندھی ہے۔

سندھی اپنے کو سندھی کیوں کہتے ہیں؟ جب وہ پاکستان بننے کے بعداسے اپنے ملک کے طور پر قبول کرچکے ہیں، پاکستانی سرکاری اداروں میں، فوج اور پولیس میں پاکستانی شناختی کارڈ پر نوکریاں حاصل کررہے ہیں تو وہ اپنے آپ کو صرف پاکستانی کیوں نہیں کہتے؟ سندھی کہے بغیر ان کا کام کیوں نہیں چلتا؟
آپ پنجابی کیوں ہیں؟ پاکستانی کیوں نہیں؟ پاکستان بننے کے بعد اپنے آپ کو پنجابی کہنے کا کیا جواز ہے؟پاکستان بننے کے بعد پنجاب مشرق و
مغرب میں تقسیم ہوگیا۔جو لوگ پہلے سے یہاں رہتےتھے وہ بھی اور جو لوگ مشرقی پنجاب سے ترک وطن کرکے پاکستانی پنجاب میں آگئے وہ سب بھی اپنے آپ کو پاکستانی کےساتھ ساتھ پنجابی ضرورکہتے ہیں۔ پنجابی کے لفظ کی جغرافیائی بنیاد بھی اسلئے ختم ہوگئی کہ پانچ میں سے دو دریا ایک طرف اور باقی تین دوسری طرف رہ گئے تو اب پنجابی کا جغرافیائی جواز بھی باقی نہیں رہتا۔ تو آخر وہ پنجابی کا لفظ ترک کیوں نہیں کردیتے اور اپنے آپ کوپنجابی کے بجائے صرف پاکستانی کیوں نہیں کہتے؟
بلوچ بھی پاکستان کے جغرافئے میں رہتے ہیں۔ پاکستانی شناختی کارڈ پر سرکاری نوکریاں حاصل کرتے ہیں، تعلیمی اداروں میں داخلے حاصل کرتے ہیں، پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے آپ کو بلوچ کیوں کہلواتے ہیں؟ صرف پاکستانی کیوں نہیں کہلاتے؟
پٹھان یا پختون بھی فوج، پولیس، کسٹمز اور دیگر سرکاری اداروں میں پاکستان کے ہی شناختی کارڈ پر نوکری کرتے ہیں،پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں، کرکٹ، اسکواش اور دیگر کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستانی کی ہی حیثیت سے حصہ لیتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے آپ کو پاکستانی کے ساتھ ساتھ پٹھان بھی کہتے ہیں۔ آخر کیوں وہ اپنے آپ کو صرف پاکستانی نہیں کہتے؟
اگر اس پر جرح کی جائے کہ وہ اپنے آپ کو پاکستانی کے بجائے پنجابی، پٹھان، بلوچ یا سندھی کے بجائے پاکستانی کیوں نہیں کہتا توبالعموم ان تمام سوالات کا جواب یہ ہوتاہے کہ وہ پہلے پاکستانی ہے، پھرپنجابی سندھی وغیرہ ہے۔ اور یہ کہ یہ نام تو اپنی گروہی یا لسانی یا علاقائی شناخت کیلئے رکھے ہوئے ہیں۔ ٹھیک ہے! قرآن میں جسے پاکستان کی 98 فیصد آبادی اپنا رہنما مانتی اورجانتی ہےواضح طور پربیان کر دیا گیا ہے کہ اللہ نے انسانوں کو مختلف قبائل میں پیدا کیا تاکہ وہ اپنی شناخت رکھ سکیں۔ گویا اپنی شناخت رکھنا کوئی بری بات نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کیئے گئے شعائر میں سےہے جن کا انکار ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا اگر کوئی اپنے وطن کی شناخت کے ساتھ اپنی لسانی، قبائلی، گروہی شناخت بھی استعمال کرتا ہے تو اس پر اعتراض کا کوئی جواز نہیں۔ اب یہ بات غلط نہیں کہ اگر کوئی اپنے آپ کو پنجابی کہتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ پنجاب کے خطے سے تعلق رکھتا ہے، پنجابی زبان بولتا ہے اور پنجاب کی روایات و ثقافت اور رہن سہن کے اندازکو اپنی روزمرہ زندگی میں اپناتا ہے اسلئے اسے اپنے آپ کو پنجابی کہنے کا حق ہے۔ دنیا کے تمام قوانین ہر شخص کو یہ بنیادی حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے لئے کوئی بھی نام پسند کرے۔ اور اسی لئے میں کسی پر یہ اعتراض نہیں
کروں گا کہ وہ اپنی شناخت کیلئے کوئی بھی نام کیوں استعمال کرتا ہے۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے لیکن میری مشکل وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں اپنی گروہی یا لسانی شناخت کے حق پر اصرار کرنے والے مجھے یہ حق دینے سے انکار کردیتے ہیں ۔ میں دیکھتا ہوں کہ پاکستانی معاشرے میں گروہی، لسانی و قبائلی شناخت ہی پہلی شناخت بن گئی ہے اور پاکستانی شناخت طاقتور طبقے کی طرف سے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئےتو استعمال ہورہی ہے لیکن کسی کو جائز حق دینے کیلئے اسے استعمال نہیں کیا جارہا بلکہ اپنے مقدمے میں تو میں یہ طرفہ تماشہ دیکھتا ہوں کہ میری لسانی شناخت کو نفرت کی علامت بنا دیا گیا ہے اور جب میں اپنے انسانی حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو مہاجر کہتا ہوں تو مجھے ایک طرف تو یہ نام ترک کرنے کو کہا جاتا ہے اور دوسری طرف مجھے وہ نام دیئے جاتے ہیں جو حقارت اور ذلت کے ہم معانی ہیں۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ میرا نام جو ایک مقدس لفظ ہے اور اپنے اندر شاندار معانی ومفہوم اور ایک قابل فخر تاریخ رکھتا ہے کیونکر گالی ہو سکتا ہے؟ گالی تو کسی ایسے لفظ کو کہتے ہیں جو فحش اور ناپسندیدہ ہو، جسے سر عام نہ بولا جاسکے یا جو مہذب لوگوں کی محفل میں نہیں بولا جاتا ہو۔
پھر میرے نام کو گالی کیوں کہا جاتا ہے۔ کیا میں فحش اور غیر مہذب ہوں؟ مجھے یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر میں ہندوستانی اور پناہ گیرکیوں سمجھا جاتا ہوں؟ محھے کیڑے مکوڑے جیسا کیوں سمجھا جاتا ہے؟
وہ کہتے ہیں کہ مہاجر تو تمہارے باپ یا دادا تھے، تم کہاں سے مہاجر ہوگئے! اب پاکستان میں ہو تو اپنے آپ کو پاکستانی کہو لیکن جب میں انہیں اپنے آپ کو پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچ کہتے سنتا ہوں تو پھر میرے ذہن میں وہی سوال کلبلانے لگتا ہے کہ میرے نام پر اعتراض کرنے والے اپنے آپ کو کیوں نہیں بدلتے؟ آج پاکستان بننے کے سات دہایئوں بعد تو تم بھی اپنے آپ کو پنجابی کہتے ہو۔ اگرمیں اس پر اعتراض نہیں کرتا، اور میں تمہارے حق کو تسلیم کرتا ہوں تو تم مجھےاپنا کوئی بھی نام رکھنے کے میرے حق سے کیوں محروم کرتے ہو؟ آج اگر تم سب اپنی اپنی صوبائی اسمبلیوں میں اور قومی اسمبلی میں یہ قرار داد منظور کرو کہ آج کے بعد سے پنجابی، سندھی، بلوچ اور پختون کے الفاظ ختم کئے جاتے ہیں اور آیئن میں بھی یہ ترمیم لاؤ کہ آیئندہ پاکستان میں کوئی سندھی، پنجابی، پٹھان یا بلوچ نہیں کہلائے گا اور ان تمام الفاظ کوممنوع قرار دے دیا جائے تو سب سے پہلے اپنے حق سے دستبردار ہونے والا میں ہونگا۔ کیا تم ایسا کرسکتے ہو؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو آؤ مل کر آگے بڑھتے ہیں۔
 
Top