میری پسندیدہ غزلوں میں سے ایک

غزل
اگر ہے عشق، اشاروں سے بات کیا کرنا
جو پیاس ہے تو کناروں سے بات کیا کرنا
رکھو کسی کا بھی نہ آسرا کہ دل ٹوٹے
ہو خود میں دم تو سہاروں سے بات کیا کرنا
ہے راہِ عشق وہ جس پر سجے ہر اک موسم
خزاں بھی ہو تو بہاروں سے بات کیا کرنا
اکیلی زندگی کتنوں کے ساتھ بیتے گی
ہو سچا ایک، ہزاروں سے بات کیا کرنا
جنہیں ہنر ہے نظر سے کلام کرنے کا
انہیں خموش نظاروں سے بات کیا کرنا
مریں کسی پہ جو دراصل وہ ہی زندہ ہیں
مسیحا! عشق کے ماروں سے بات کیا کرنا
جسے پسند ہو گل، اس کو خار بھی محبوب
اے رشک! بھنوروں کو خاروں سے بات کیا کرنا
رشک
 
Top