مولانا وحید الزماں (رحمۃ اللہ علیہ) از حافظ مبشر حسین لاہوری

باذوق

محفلین
مولانا وحید الزماں (رحمۃ اللہ علیہ)
{ صحاح ستہ کے اُردو مترجم }​


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صدق دل سے محبت کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا بنیادی تقاضا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہارِ محبت کی اہم ترین صورت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اَقوال و فرمودات ( احادیثِ نبویہ ) سے محبت کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور فرمودات سے محبت کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں خلوصِ دل سے سچا و منزل من اللہ ( یعنی وحی) تسلیم کیا جائے ۔ انکی کامل اتباع و اطاعت کی جائے ، انہیں اپنا اوڑھنا ، بچھونا اور حرزِ جان بنا لیا جائے ، انہیں پڑھا ، لکھا اور یاد کیا جائے اور انہیں دوسرے لوگوں تک ممکنہ ذریعے سے منتقل کیا جائے ۔

مولانا وحید الزماں کا نام ان خوش قسمت لوگوں کی فہرست میں شامل ہے ، جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات سے اظہارِ محبت کرتے ہوئے علم حدیث کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔ اس کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ صحاح ستہ و موطاء کے تراجم جو گزشتہ سو سال سے تاحال ہر دینی و علمی لائبریری کی زینت بنے ہوئے ہیں ، مولانا مرحوم ہی کے فیضانِ قلم کا نتیجہ ہیں اور آج تک ہونے والے دیگر تراجم میں انہی سے بکثرت استفادہ کیا گیا ہے ۔

اس کے علاوہ مرحوم نے “ موضحۃ الفرقان مع تفسیر وحیدی “ کے نام سے قرآن مجید کا اُردو ترجمہ مع مختصر تفسیر بھی تالیف کی ۔ علاوہ ازیں فقہ کی بعض ضخیم کتابوں کے ترجمے بھی آپ نے کیے مثلا طالبِ علمی کے دور میں شرح الوقایہ پڑھنے کے دوران اس کا مکمل ترجمہ بھی کر دیا ۔ عربی سے اردو ترجمہ کرنے میں آپ کو خداداد ملکہ حاصل ہو چکا تھا جیسا کہ حاجی محمد ادریس بھوجیانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
“ کچھ عرصہ بعد ایسا ملکہ حاصل ہو گیا تھا کہ بڑی سے بڑی کتابوں کا ترجمہ بلا تکلف کر لیتے تھے اور کہیں لغت دیکھنے کی حاجت نہیں ہوتی تھی !“ ( اربابِ علم و فضل : ص 141)

آپ محض اُردو تراجم کے شہسوار نہ تھے بلکہ عربی میں گہری مہارت بھی رکھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ موحوم نے بعض عربی کتابوں کی تصحیح و تہذیب میں بھی نمایاں خدمت انجام دیں ۔

بھوجیانی رقمطراز ہیں کہ
“ ہندوستان کے ممتاز محدث حضرت شیخ علاؤ الدین علی متقی ( المتوفی 975ھ ) کی شہرہ آفاق تالیف ، کثیر العمال فی سنن الاقوال و الافعال ، کو جب 1310 ھ میں دائرۃ المعارف انتظامیہ ، حیدر آباد دکن نے طبع کرانا چاہا تو اس کی تصحیح کے لیے اربابِ حل و عقد کی نظر انتخاب جس پر پڑی وہ حضرت مولانا وحید الزمان رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی تھی ۔ چنانچہ یہ اہم کام آپ ہی کے سپرد ہوا ۔ یہ نسخہ نہایت غلط تھا ، لیکن آپ کی محنت شاقہ سے اس کی تصحیح کی اور اس کام کو پوری تن دہی سے پایہٴ تکمیل تک پہنچایا ۔“
( اربابِ علم و فضل : ص 146)

مولانا کو دینی کتب تصنیف و تالیف ، تراجم اور تصحیح و تہذیب کا جتنا شوق تھا ، اس سے کہیں زیادہ کتابوں کو طبع کرانے اور پھر مفت تقسیم کرانے کا شوق تھا۔ حتیٰ کہ اپنی بے شمار کتابوں کے حقوق بھی محفوظ نہ کرائے بلکہ بھوجیانی کے بقول
“ آپ نے فرمایا : میری تالیف کردہ کتاب جو شخص چاہے طبع کروائے ۔ اس طرح مطبع والوں نے آپکی تالیف کردہ کتابوں کو طبع کرکے خوب دولت کمائی۔“
( اربابِ علم و فضل : ص 146،147)‌

مولانا مرحوم 1267ھ میں کانپور میں پیدا ہوئے اور اپنے والد بزرگوار مسیح الزمان اور برادر اکبر حافظ بدیع الزمان کے علاوہ دیگر علمائے کانپور سے دینی علوم حاصل کئے اور چھوٹی ہی عمر میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کر دیا ، یاد رہے کہ مرحوم نے حجاز کے کبار علما ء سے بھی دینی علوم حاصل کئے جبکہ شیخ الکل سید نزیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے سند حدیث حاصل کی ۔
( ملاحظہ ہو : نزہۃ الخواطراز عبدالحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ : 8/514)

موصوف کے مسلک و عقیدہ کے حوالہ سے لوگوں میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ، بعض لوگ آپ کو حنفی و مقلد اور اہلحدیث قرار دیتے ہیں جبکہ بعض نے آپ کو شیعہ ہونے کا بھی گمان ظاہر کیا ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ آپ پہلے حنفی المذہب تھے پھر احادیث کے تراجم کے دوران آپ مسلکاً اہلحدیث ہو گئے ۔
( اربابِ علم و فضل از محمد ادریس بھوجیانی ص 139)

موصوف کی مختلف کتابیں اور تراجم دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کتاب میں تو تقلید کی بھر پور حمایت کرتے اور کہیں دوسری کتاب میں اس سے زیادہ شدت سے تقلید کی تردید کر رہے ہوتے ہیں ۔
بعض اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرحوم شیعہ فکر سے متاثر ہیں جبکہ اکثر و بیشتر مقامات پر موصوف شیعہ حضرات کی تردید و ابطال کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔
اسی طرح کہیں یہ شک پڑتا ہے کہ موصوف حنبلی ہیں یا اہلحدیث ہیں ؟ جبکہ بعض اقوال سے کتاب و سنت کی حدود میں آزادیٴ فکر کے حامل نظر آتے ہیں ۔
گویا ان کے عقیدہ و مسلک نشاندہی کرنا خاصا اُلجھا ہوا مسئلہ ہے۔

علامہ وحید الزمان مرحوم کے مختلف الجہت افکار و خیالات سے ایک یہ الجھن بھی پیدا ہوتی ہے کہ جب ان کی خدمت حدیث اور علم دوستی کو دیکھا جاتا ہے تو ہر مسلک کے لوگ انہیں اپنا ہم مسلک وہم مشرب قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب ان کے تفردات و شنذوذ پر نظر پڑتی ہے تو پھر ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان سے براٴت کر کے دوسرے مسلک کو بدنام کیا جائے اور ان کے تفردات سے بھی اس طرح فائدہ اٹھایا جائے ۔

مرحوم کی “ لغات الحدیث “ نامی کتاب کی روشنی میں ان کے عقیدہ و مسلک پر حتمی روشنی ڈالی جاسکتی ہے کیونکہ یہ ایک ضخیم اور قیمتی کتاب ہے جو موصوف نے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں تالیف کی تھی ۔ جیسا کہ اسی کتاب کے مقدمہ میں مصنف رقم طراز ہیں کہ
“ اب شروع 1324ھ سے باوجود اس کے ، میں کمال نقاہت اور ضعف پیری اور امراض ِ مختلفہ میں گرفتار تھا لیکن اس پر بھی اوقات کو خالی گزارنا مشکل معلوم ہوا اور بالہامِ غیبی یہ حکم ہوا کہ ایک کتاب لغات حدیث میں بزبان اُردو مرتب کر اور اس میں جہاں تک ہو سکے فریقین یعنی اہل سنت اور امامیہ کی حدیثیں جمع کرتا کہ حدیث شریف کے تمام طالبین کو شرح کا کام دے ۔“
( دیکھئے : ج ا / ص 4)

یاد رہے کہ موصوف 1338ھ میں فوت ہوئے جبکہ مذکورہ کتاب کی تالیف 1324ھ میں انہوں نے شروع کی اور ظاہر ہے اتنی ضخیم کتاب کی تیاری میں بھی چند سال لگے ہوں گے ۔
موصوف کے اپنے ہی بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی وفات سے چند سال پہلے اس کی تکمیل کر لی تھی ، البتہ اس کی اشاعت میں موصوف کو مختلف مشکلات کا سامنا رہا جیسا کہ موصوف کے اس دعائیہ جملے سے ظاہر ہوتا ہے :

“ یا اللہ ! تو اس کتاب کو قبول فرما اور اپنے فضل و کرم سے اس کو میری زندگی میں تمام اور شائع کرادے ۔“
( بحوالہ : لغات الحدیث کا مقدمہ از مصنف)

×××××​

ایک مضمون سے کچھ اقتباسات ۔
مضمون نگار : حافظ مبشر حسین لاہوری
بحوالہ : ماہنامہ محدث ، لاہور ۔ (جنوری 2003 ء)

نوٹ : مضمون نگار کے نقطہٴ نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے !
 
Top