موسیقی روح کی غذا ہے ۔۔۔از مظہر علی شاہ روزنامہ اج پشاور

Dilkash

محفلین
موسیقی روح کی غذا ہے
موسیقی کا آغاز کیسے ہوا؟ اس کا منبع کیا ہے؟ اس بارے میں کئی روایتیں ہیں پر برصغیر میں اس حوالے سے جو عام داستان زبان زد خاص و عام ہے وہ یہ ہے کہ تان سین بہت بڑا موسیقار تھا جو مغل اعظم جلال الدین اکبر کا چہیتا تھا ایک دن جب تان سین نہایت ہی خوشگوار موڈ میں تھا تو اکبر نے اس سے پوچھا’’’مجھے ذرا یہ بتاؤ کہ آخر تمہارے ہم آہنگ سروں کے پیچھے راز کیا ہے جو مجھے دماغ کی مسحورکن وادی میں لے جاتاہے میں نے آج تک کسی اور کو ایسا سریلا نہیں پایا‘‘

تان سین مغل اعظم کے سامنے جھکا اور کہا ’’عالی جاہ میں تو اپنے استاد محترم سوامی ہری داس کا ایک ادنیٰ سا شاگرد ہوں میں تو ان کی خاک پاکے برابر بھی نہیں۔ میرے استاد کے پاس جو فن ہے‘ جو اسلوب ہے اس کا رتی بھر بھی میرے پاس نہیں‘‘ ’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو‘‘ بادشاہ نے حیرت سے کہا’’کیا اس دنیا میں تم سے زیادہ اچھا گانے والا بھی کوئی ہے‘‘ تان سین نے کہا ’’یقینا اپنے استاد کے سامنے میں بونا ہوں‘‘ بادشاہ یہ سن بڑا حیران ہوا۔

اس کا دل چاہا کہ وہ ہری داس کو سنے پر مسئلہ یہ تھا کہ ہری داس بادشاہوں اور درباروں سے دور بھاگتا تھا۔ روایت میں لکھا ہے کہ اکبر اور تان سین ہری داس سے ملنے ہمالیہ کی پہاڑیوں کی طرف چل نکلے جہاں ایک آشرم ہری داس کا بسیرا تھا۔ تان سین نے بادشاہ کو پہلے ہی سے بتلا دیا تھا کہ ہری داس کسی کے کہنے پر کبھی بھی نہیں گاتا وہ اپنی مرضی کا مالک ہے جب اس کا من کرے گا وہ راگ اور راگنیاں چھیڑ دے گا وہ کچھ دن اس کے آشرم میں رہے پر ہری داس نے سر نہ چھیڑے پھر ایک دن تان سین نے وہ راگ الاپنے شروع کردیئے جو سوامی ہری داس نے اسے سکھائے تھے اور جان بوجھ کر ایک سر غلط لگادیا

سوامی ہری داس جو کہ ہمہ تن گوش تھا فوراً چونکہ پڑا اور تان سین کو ڈانٹتے ہوئے کہنے لگا ’’یہ تجھے کیا ہوگیا ہے تم جو میرے شاگرد ہو اتنی سنگین غلطی کرو‘‘ اس کے بعد سوامی ہری داس نے وہ راگ خود چھیڑ دیا جو تان سین نے جان بوجھ کر غلط گایا تھا اور وہ اس میں اس قدر ڈوب گیا کہ اس کو دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہ رہی۔

جلال الدین اکبر کے لئے یہ منفرد نوعیت کا تجربہ تھا جب ہری داس نے اپنا گانا مکمل کیا تو اکبر نے تان سین سے مخاطب ہوکر کہا’’ تم کہتے ہو کہ تم نے موسیقی اس درویش سے سیکھی ہے واقعی اس کے گانے میں جو سحر ہے جو دلآویزی ہے وہ تمہاری موسیقی سے کئی گنا زیادہ ہے‘‘ تان سین نے کہا ’’آپ صحیح فرماتے ہیں عالی جاہ پر یہ فرق اس لئے ہے کہ میں آپ کے کہنے پر راگ چھیڑتا ہوں اور اس کے برعکس میرا استاد صرف اس وقت گاتا ہے جب اس کے اندر سے آواز آتی ہے جب اس کا دل چاہتا ہے وہ کسی کے کہنے پر راگ نہیں چھیڑتا‘‘ تان سین کا یہ جواب سن کر اکبراعظم لاجواب ہوگیا۔

اب سوامی ہری داس جیسے موسیقار اور گلوگار چراغ لیکر ڈھونڈوتو تب بھی نہیں ملتے۔ آج کل گلوگار گاتے تھوڑا ہی ہیں وہ محض اداکاری کرتے ہیں۔ برصغیر میں موسیقی کی ایجاد کے بارے میں کئی داستانیں مشہور ہیں ان میں جو زیادہ مقبول ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ ہندو مت کے برہما یا پربھو نے جب دیکھا کہ دنیا میں دریا بھی تھے پہاڑ بھی تھے جنگلات بھی تھے پانی کے جھرنے بھی تھے پھول بھی تھے ہرن بھی تھے اور مور بھی غرض یہ کہ ایک رنگدار دنیا تھی پر وہ اداس رہتاتھا اس کی ہمرکاب سرواستی نے ایک دن اس سے اداسی کی وجہ پوچھی تو برہما نے اسے بتایا یہ ٹھیک ہے کہ دنیا میں یہ سب کچھ ہے پر آخر اس کا کیا فائدہ اس دھرتی پر میرے بچے میرے لوگ اس سے متاثر نہیں ہورہے ہیں وہ اس کو نظر انداز کرتے ہیں۔

سراوستی اس کا مطلب سمجھ گئی اور اس نے برہما سے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اب اپنا کام شروع کروں میں اپنے بچوں میں وہ حسیں پیدا کروں گی کہ وہ ان سب نعمتوں کے حسن کو محسوس کرسکیں اور محسوس کرنے کے بعد مچل مچھل اٹھیں اور یہ کہتے ہوئے فنون لطیفہ کی اس دیوی نے جسے پرانی کتابوں میں MUSEکے نام سے پکارا جاتا ہے موسیقی عطا کی اس امید کے ساتھ کہ وہ وجدانی طور پر دنیا کی نعمتوں کو محسوس کرکے ان کا لطف اٹھا سکیں فنون لطیفہ اور خوش ذوقی کے معاملات میں صائب الرائے مبصر جن کے لئے انگریزی میں لفظ Connosieurs استعمال ہوتا ہے اور جو گہرے جذبات یا مزاج والی راگوں پر مشتمل موسیقی سننے کے خواہش مند ہیں وہ ان کلاسیکل سنگرز اور موسیقاروں سے نالاں ہیں جو سیاست دانوں کی طرح اکثریت کو خوش رکھنے کے چکر میں اپنی روایتی موسیقی پر Compromises کررہے ہیں اور جدیدیت کی آڑمیں پرانے راگوں اور راگنیوں کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں ایک موسیقار نے کیا خوب کہا ہے کہ موسیقی میں جدیدیت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔

کسی زمانے میں اور یہ کوئی زیادہ عرصے کی بات نہیں ریڈیو پاکستان پشاور ہر سال بہار کی آمد پر اپنے سبزہ زار میں جشن بہاراں کے نام سے تین راتوں پر محیط ایک محفل موسیقی منعقد کیا کرتا کہ جس میں ایک رات ہلکی پھلکی موسیقی‘ ایک رات نیم کلاسیکل موسیقی اور ایک شب خالصتاً کلاسیکی موسیقی کے لئے مقرر ہوتی جن میں ملک کے ممتاز موسیقار اور گلوگار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے اور یہ ٹرانسمشن براہ راست نشر کی جاتی ان محافل میں استاد نزاکت علی‘ سلامت علی ‘ استاد فتح علی‘ امانت علی ‘روشن آرا بیگم اور اس پایہ کے کئی موسیقار جلوہ گر ہوتے اب تو ریڈیو پاکستان کی یہ اچھی روایتیں جیسے قصہ پارینہ بن چکیں۔

Dated : 2010-04-02 00:00:00
 
Top