فراز من و تُو ۔ احمد فراز

فرخ منظور

لائبریرین
من و تُو
( احمد فراز)

معاف کر مری مستی خدائے عز و جل
کہ میرے ہاتھ میں ساغر ہے میرے لب پہ غزل
کریم ہے تو مری لغزشوں کو پیار سے دیکھ
رحیم ہے تو سزا و جزا کی حد سے نکل
ہے دوستی تو مجھے اذنِ میزبانی دے
تو آسماں سے اتر اور مری زمین پہ چل
بہت عزیز ہے مجھ کو یہ خاکداں میرا
یہ کوہسار یہ قلزم یہ دشت یہ دلدل
مرے جہاں میں زمان و مکان و لیل و نہار
ترے جہاں میں ازل ہے ابد ہے نہ آج نہ کل
تو اپنے عرش پہ شاداں ہے سو خوشی تیری
میں اپنے فرش پہ نازاں ہوں اے نگارِ ازل
مجھے نہ جنت گم گشتہ کی بشارت دے
کہ مجھ کو یاد ابھی تک ہے ہجرت ِاوّل
ترے کرم سے یہاں بھی مجھے میسر ہے
جو زاہدوں کی عبادت میں ڈالتا ہے خلل
وہ تو کہ عقدہ کشا و مسب اللاسباب
یہ میں کہ آپ معمہ ہوں آپ اپنا ہی حل
میں آپ اپنا ہی ہابیل اپنا ہی قابیل
مری ہی ذات ہے مقتول و قاتل و مقتل
برس برس کی طرح تھا نفس نفس میرا
صدی صدی کی طرح کاٹتا رہا پل پل
ترا وجود ہے لاریب اشرف و اعلیٰ
جو سچ کہوں تو نہیں میں بھی ارذل و اسفل
یہ واقعہ ہے کہ شاعر وہ دیکھ سکتا ہے
رہے جو تیرے فرشتوں کی آنکھ سے اوجھل
یہی قلم ہے جو دکھ کی رتوں میں بخشتا ہے
دلوں کو پیار کا مرہم سکون کا صندل
یہی قلم ہے کہ جس کے ہنر سے نکلے ہیں
رہِ حیات کے خم ہوں کہ زلفِ یار کے بل
یہی قلم ہے کہ جس کی عطا سے مجھ کو ملے
یہ چاہتوں کے شگوفے محبتوں کے کنول
تمام سینہ فگاروں کو یاد میرے سخن
ہر ایک غیرتِ مریم کے لب پہ میری غزل
اسی نے سہل کئے مجھ پہ زندگی کے عذاب
وہ عہد سنگ زنی تھا کہ دورِ تیغِ اجل
اسی نے مجھ کو سجھائی ہے راہ اہلِ صفا
اسی نے مجھ سے کہا ہے پل صراط پہ چل
اسی نے مجھ کو چٹانوں کے حوصلے بخشے
وہ کربلائے فنا تھی کہ کار گاہِ جدل
اسی نے مجھ سے کہا اسمِ اہلِ صدقِ امر
اسی نے مجھ سے کہا سچ کا فیصلہ ہے اٹل
اسی کے فیض سے آتش کدے ہوئے گلزار
اسی کے لطف سے ہر زشت بن گیا اجمل
اسی نے مجھ سے کہا جو ملا بہت کچھ ہے
اسی نے مجھ سے کہا جو نہیں ہے ہاتھ نہ مل
اسی نے مجھ کو قناعت کا بوریا بخشا
اسی کے ہاتھ سے دستِ درازِ طمع ہے شل
اسی نے مجھ سے کہا بیعتِ یزید نہ کر
اسی نے مجھ سے کہا مسلکِ حسین پہ چل
اسی نے مجھ سے کہا زہر کا پیالہ اٹھا
اسی نے مجھ سے کہا، جو کہا ہے اس سے نہ ٹل
اسی نے مجھ سے کہا عاجزی سے مات نہ کھا
اسی نے مجھ سے کہا مصلحت کی چال نہ چل
اسی نے مجھ سے کہا غیرتِ سخن کو نہ بیچ
کہ خونِ دل کے شرف کو نہ اشرفی سے بدل
اسی نے مجھ کو عنایت کیا یدِ بیضا
اسی نے مجھ سے کہا سحرِ سامری سے نکل
اذیتوں میں بھی بخشی مجھے وہ نعمتِ صبر
کہ میرے دل میں گرہ ہے نہ ماتھے پہ بل
تری عطا کے سبب یا مری انا کے سبب
کسی دعا کا ہے موقع نہ التجا کا محل
کچھ اور دیر ابھی حسرتِ وصال میں رہ
کچھ اور دیر آتشِ فراق میں جل
سو تجھ سا ہے کوئی خالق نہ مجھ سی ہے مخلوق
نہ کوئی تیرا ہی ثانی نہ میرا کوئی بدل
فراز تو بھی جنوں میں کدھر گیا ہے نکل
ترا دیارِ محبت تری نگارِ غزل
 
Top