ملکاں ناں کھنہار

گلزیب انجم

محفلین
سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس (یاداں)
ملکاں ناں کھنہار
تحریر :- گل زیب انجم زیب
کاش یادیں بھی پانیوں کی طرح کی ہوتی کہ ان کا بھی کوئی ساحل کوئی کنارہ ہوتا ۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا ان کے آگے بندش کا کوئی سلسلہ نہ ہو سکا ۔ دسمبر کی ٹھرٹھراتی راتیں جتنی ٹھنڈی ہوتی ہیں اتنی ہی طویل ہوتی ہیں ۔ اور ایسی راتوں کی یادیں ٹھنڈی لمبی ملی جلی کیفیت کے ساتھ اور لا محدود ہو جاتی ہیں ۔ جب ایسی لاامتناعی یادوں سے پالا پڑتا ہے تو ایک ہوک کے ساتھ یہ خواہش بھی جنم لیتی ہے کہ کاش یادوں کی بھی کوئی سرحد ہوتی۔

نالا بان کے پانیوں کے رنگ ہوں سیری کے زرخیز کھیتوں کی ہریالی ہو یا پھر کچے مکانوں کی چھتوں سے اڑتی بھیگی مٹی کی خوشبوئیں سب کچھ ہی تو ماضی کو سامنے لا کر رکھ دینے کے لیے کافی ہیں ۔ کچے انگنوں میں بارشوں کے کھڑے پانی میں کاپی کے ورق سے کشتیاں بنا کر چھوڑنا بھی ایک کھیل ہوتا تھا ۔ آنگن میں ایک ایک قدم کے وقفے پر پتھر یا دو اینٹیں جوڑ کر رستہ بنانا پھر اس سے گزرتے ہوئے پاوں کا پھسل کر چھڑاپ سے پانی میں گرنا ، بڑے خود تو اس گرنے کو پتھروں کی ناہمواری کا نام دیتے لیکن کوئی چھوٹا گرتا تو اس کو ایک دو دھموکے چھوڑ کر کہا جاتا تھا توہی نہی پتہ بٹا تلکنا اے۔ سردیوں میں نہ صرف دن ہی چھوٹے ہوتے ہیں بلکہ چنگے بھلے لمبے مرد بھی سکڑ کر چھوٹے ہو جاتے تو سائنس کا مقولہ یاد آ جاتا کہ سردی سے چیزیں سکڑتی اور حرارت سے پھیلتی ہیں ۔ مکان تو وہی ہوتے تھے جہاں گرمیوں میں مرد جھک کر اندر آتے تھے لیکن سردیوں میں معلوم ہوتا دروازے اونچے ہو گے ہیں ۔ سکڑنے کا بھی عجیب انداز ہوتا کے کندھے کانوں سے اونچے ہو جاتے۔
جامع مسجد سیری کے محراب کی طرف آج کل جو کھنہار (کھنڈر) دکھتے ہیں کبھی یہاں ایسے ہی مکان ہوتے جن کی چھتیں نیچی اور مرد اونچے ہوتے تھے ۔ یہاں اعوان قبیلے کے بڑے لمبے تڑنگے لوگ رہا کرتے تھے ۔ جن کے پانچ چھ گھر ایک ہی لائن میں ہوتے تھے ساتواں گھر ملک پیراں دتہ جی کا تھا جو اس قطار سے باہر تھا ۔ ایک قطار میں بڑے دو بابے ملک حسن دین اور ملک محمد دین پھر آگے ان کے بیٹے رہا کرتے تھے بلکہ مسجد کی طرف پہلا گھر ملک فرزند عرف پھندو جو کہ ملک حسن دین کے داماد بھی تھے ان کا تھا۔ ملک حسن دین بڑے تگڑے مرد تھے وہ نہ صرف خود مضبوط ترین تھے بلکہ ان کے ہاتھ اور پیروں کے ناخن بھی بڑے موٹے اور سخت ہوا کرتے تھے۔ نیل کٹر تو تب ہوتے نہیں تھے، ہوتے بھی تو کیا کر لیتے وہاں نیرنا بھی کام نہیں کرتا تھا جو اس زمانے کا مشہور ترین اوزار سمجھا جاتا تھا ۔ ہم نے کہیں بار ملک جی کو دیکھا ناخن کھردرے پتھر سے رگڑتے ہوئے ۔ بابا حسن دین بڑے جفاکش آدمی تھے۔ یوریا اور نائٹریٹ کا وہ دور نہیں تھا اس لیے گوبر کی کھاد ہی زمینوں میں ڈالی جاتی۔ بابا حسن دین ایک بڑا سا ٹوکرا سر کے بجائے دو شانوں کے درمیان اٹھاتے اور گھر سے باڑی جاتے ہوئے راستے میں پڑا جتنا بھی گوبر ملتا اٹھا کر ٹوکرے میں ڈالتے رہتے بھلے وہ باڑی تک دو من کا ہو جاتا لیکن وہ لے جاتے ۔ اسی طرح واپسی پر گھاس لاتے تو وہ بھی دو مردوں کے برابر بوجھ کا۔ اولادیں جوان ہوئی جگہ کم پڑی تو بابے محمد دین کے دو بیٹے عبداللطیف اور عبدالمجید مانکشاہ چلے گے اور مقبول سیری ہی رہ گیا ۔ اسی طرح بابے حسن دین کے دو بیٹوں میں سے رفیق پڑاٹی چلا گیا اور حنیف سیری رہ گیا ۔
ملک حسن دین صاحب کا بیٹا حنیف جو سیری رہا اسے حنیف کہتے صرف دو " حسین " ایک نسواری والے اور ایک چودھری حسین ہوراں سے سنا باقی جس کو بلاتے دیکھا اسی نے حنیفا ہی کہا ۔ پرانے لوگ پرانیاں گلاں پرانے رسم و رواج تھے شادی ہوتی تو گاوں کے کسی بندے کو جسے سیپی یا نائی بھی کہتے تھے اس کو ایک لسٹ تھما دی جاتی کہ ان لوگوں کو ہماری طرف سے صدا(دعوت نامہ) دینا ۔ اب صدا دینے والا جہاں بھی جاتا یونہی کہتا ملک حنیفے ہوراں ناں صدا اے جی ۔ یعنی یہ یوں ہی حنیفا مشہور ہوئے کے کوئی ادب سے بھی بلاتا تو حنیفا ہی کہتا ساتھ ماموں چچا یا بھائی لالہ لگا کر ۔ ہم نے ملک حنیفے کو جب سے اور جب تک دیکھا جوان ہی دیکھا ۔ وہ ایسے کے جب ہم نے ہوش سنبھالا وہ جوان تھا ہم اسی کے ہاتھوں میں بوڑھے ہو گے وہ تب تک جوان تھا۔ اور مزے کی بات کہ سوچیں باتیں اور مشاغل سب جوانی والے ہی تھے۔ سیری میں ایک اور حنیف بھی تھا لیکن اس کو بٹ حنیف کہا جاتا تھا ۔ یہ دونوں ہم سے اتنے ہی بڑے تھے جتنے ہم ان سے چھوٹے۔ ہمارا کہیں بھی جانا ہوتا مثلا لکڑیاں لانے جنگل جس کو ہم ٹاھاکا کہتے تھے اکٹھے جاتے ۔ مال ڈنگر کو پانی پلانے جاتے تو ایک ساتھ ہمیں ان کے ساتھ کا یہ فائدہ ہوتا تھا کہ ہمارے ساتھ کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کرتا تھا ۔ لیکن ان دونوں کے کام ہمیں ہی( ہم چھوٹوں کو) کرنے پڑتے تھے۔ کہیں بار ہم چھوٹوں نے یہ سوچا بھی کہ لڑائی جھگڑا تو کسی سے کبھی کبھار ہی ہوتا یہ کیا مصیبت اپنے سر لے لی لیکن اب کوئی چارا نہ تھا ۔
حنیفا ملک ہر محفل میں شامل ہو جاتا تھا بڑوں کی محفل میں ہوتا تو ڈنگروں کی باتیں بڑی مہارت سے کرتا ۔ یہ دور بیلوں کی دوڑ کا ہوا کرتا تھا ۔ اور ایسے دوڑنے والے بیل اس وقت سیری گیائیں میں سے صرف ملک حسین نسواری والوں کے پاس ہوا کرتے تھے۔ اور اس وقت نسوار کی دکان سیری اڈے میں حبیب بینک کے سامنے نانگا فرم کے ہوٹل کے ساتھ والی ہوا کرتی تھی ۔ بازاروں میں آج جیسا رش بھی نہ تھا اور گرمی بھی ایسی نہ ہوتی تھی شام کے وقت اکثر چھوٹی چھوٹی محفلیں لگتی تھی ۔ لوگوں کی یہ محفلیں دیہاتوں کی رونق ہوا کرتیں تھیں ۔ ان محفلوں کی قدر آج کسی سے کوئی پوچھے ۔" یہ محفلوں کا ذکر کرتے ہوئے چودھری جمروز کٹیا والوں کا ایک قصہ یاد آیا کہ وہ ایک بار انگلینڈ گے۔ کچھ انگلینڈ ٹھنڈا تھا کچھ چودھری ہور ٹھنڈی طبیعت والے تھے۔ دو تین ہفتے ان کو وہاں ہو گئے تھے وہاں ہر کسی کی اپنی اپنی مصروفیت تھی کہیں سنڈے وغیرے پر کسی کو تھوڑا ٹائم ملتا تو ملنے چلا آتا اور پھر نیکسٹ سنڈے کا کہہ کر چلا جاتا۔ ایسی ہی سنڈے کی ایک ملاقات تھی کسی نے باتیں کرتے کرتے پوچھ لیا سناو جی انگلینڈ کہہ کج تکیا اے ۔ آپ نے پہلی دو انگلیوں کے درمیان رکھے سگریٹ کا حقے والا کش لیا اور بڑی اہم بات کہی کہ یرا ایہا تکیا کہ بہوں پوکھا(بھوکا) ملک اے ۔ پوچھنے والا حیران ہو گیا کہ چودھری ہور کہہ آخنے ۔ یہ وہ انگلینڈ ہے جہاں لوگ کوٹھے باڑی بیچ کر آتے ہیں اگر یہ ملک بھوکا ہے تو پھر لوگ کیوں آتے ہیں ۔ ابھی وہ اپنے ہی سوال جواب میں غلطاں تھا کہ پاس بیٹھے کسی دوسرے نے پوچھ لیا او کسطرح جی۔ آپ کہنے لگے یہاں جس کو بھی دیکھا بھاگتے ہی دیکھا ۔ ایک گھر میں چار لوگ ہیں تو چاروں ہی کام میں مصروف ہیں دیہاڑ رات ہی نسو نس لگے ہوئے ہیں ۔ اس سے بہتر تو ہمارا ملک ہے کہ ایک کام کرتا ہے دس کھانے والے ہیں ۔ اور سارے شام کو کھانا کھا کر ہی سوتے ہیں ۔ آج تک کسی کو بھوکے سوتے نہیں سنا یا دیکھا ۔ یہ کہہ کر کہنے لگے فیر بڈی گل اے کہ ملنے جلنے ناں قحط وی کوئی نہیں ۔ یعنی ہماری محفلیں بھی ہوتی ہیں لوگ ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے بھی ہیں دکھ درد بانٹتے بھی ہیں ۔ آپ کی بات سن کر سب نے اعتراف کیا کہ چودھری ہور صحیح آخنے ہن" ۔ ہر کسی کا اپنا اپنا شوق تھا اب بی بی سی سننے والے صوفی فقیر محمد ہوراں کی دکان پر یا صوفی عبدالرزاق سہر والوں کی دکان پر ہوتے ۔ رات کا خبر نامہ خالد حمید کی موٹی بھاری آواز میں ہوتا تو صبح آٹھ بجے کی خبریں مہ پارہ صفدر کی آواز میں ہوتی جو اتنی خوبصورتی سے کہتی ہوتی تھی مہ پارہ صفدر سے خبریں سنیے، یہی الفاظ سن کر ہم یہ کہتے ہوئے اسکول کی طرف دوڑ لگا دیتے تھے کہ آٹھ ہوئی گے نی اوے۔ گاڑیوں ٹرکوں اور فروٹس کے شوقین رفیق بھٹو کی دکان پر ہوتے جہاں ایک نیشنل ٹیپ ہوا کرتی اور پنجابی گانوں کی کیسٹ ایسے ہی سجا کر رکھی ہوتی جیسے سامنے والے کریٹ میں آم سجا کر رکھا کرتا ۔ یہ پنجابی گانوں کی کیسٹیں تب تک رہی جب تک عطا اللہ اور سائیں صدیق گائیکی کے میدان میں نہیں آئے تھے جب یہ آ گے تو پھر عطا اللہ کے بڑے بالوں اور قلفی کے منہ والی فوٹو والی ساری کیسٹیں بس یہاں ہی نظر آتی تھی بھلے یہ سبزی فروٹ کی دکان تھی۔ یہاں سے کون سی گاڑی کسی ماڈل کی اس کی نمبر پلیٹ کا نمبر وغیرہ کی باتیں اور فروٹس سبزی کے بھاو۔ ساتھ ہی بھٹو نے فالودہ بھی رکھا ہوا تھا جس کی برف کوٹلی سے ویگن نمبر گیارہ زیرو سات پر آتی اس نمبر کو بھٹو یاراں ست کہتا ہوتا تھا ۔ اسی کے سامنے نانگا فرم کا ہوٹل تھا جس پر بیرا گیری سلو گلو کرتا تھا ۔ مزے کی بات کے اس ہوٹل کی چائے زیادہ فالودے والی دکان پر ہی منگوائی جاتی تھی جہاں گاہک ٹھنڈے فالودے کی فرمائش کر رہے ہوتے تھے۔ اب بیلوں کی دوڑ ان کے سائز رنگ بھینس کے سینگ تھن اور چمڑے کی باتیں کرنے والے حسین نسواری والوں کی دکان پر ہوتے۔ بیلوں کی دوڑ میں کارگردگی سے لے کر بالے شیخ ہوراں نی کھوتی اور حنیفے ملک کی کھوتی تک کی باتیں ہوتی ۔ اب ان سب لوگوں پر جو یہاں بیٹھے ہوتے حنیفا ملک آپنی مہارت کا سکہ جما دیتا ۔ سردیاں ہوں یا گرمیاں حنیفے نے نہ بٹن باندھے اور کبھی چادر اتاری ۔ بس بٹنوں سے آزاد آستینیں اور گریبان ہوتے چادر یوں رکھی ہوتی کہ بائیں کندھے کے اوپر سے اور دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر پھر بائیں کندھے پر پھینکی ہوتی ۔ اور سبز نسوار کا موٹا سا چٹکا ڈالتے ہوئے کہتا کھلے پہاپا میں دسنا آں ۔ پھر دسنا کیا ہوتا کہ بڑے بڑے بیلوں کو مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے بچھا اور بوڑھی بھینس کو چوٹہی کہتا ان دنوں میں چودھری حسین صاحب کے پاس گھوڑی ہوتی تھی جس کو وہ بیشیری کہتا ۔ اپنی لمبی لمبی مونچھوں پر ہاتھ پھیر کر بھینس کے چمڑے کی بات کرتے ہوئے بال سے تشبیہی دیتا۔ جانوروں کے متعلق بھرپور جانکاری کی بنا پر میدان مار لیتا سارے بندے بڑی خاموشی سے باتیں سن رہے ہوتے لیکن سب کی توجہ اس وقت تھوڑی دیر کے لیے منقطع ہوتی جب ملک حسین نسوار کی پڑی پر دھاگہ پھیرتے ہوئے ایک گھٹنے کے بل ہو کر ہاتھ آگے کر کے کہتے ایں شاوا ہس اے۔
رواج کوئی بھی ہو حنیفے ملک کا رواج وہی رہا بس کھلے پونچوں والی شلوار اور بڑے کالر والی قمیص ۔ پارلی سڑک اب جو پارلہ راہ ہے وہاں کانچے ( بلور) کھلتے ہوئے جب بھی دھالپ مارتا تو ہمیشہ اس کا پونچہ پھنس جاتا ۔ پھر ایک ہاتھ سے اس کو اوپر چڑھا کر کہتا ہن تے چوٹ نہی کھنجن لغی ۔ حنیف بٹ رفیق بھٹو حنیفا ملک تابو بٹ اور کالا کیڈا بلور کھلتے اور ہم ایسے ہی تماش بین ہوتے جیسے آجکل کرکٹ کھیلنے والوں کے ہوتے ہیں بلکہ ہم کھتی کے پاس ہو کر بیٹھا کرتے تھے ۔ اور جب سردی زیادہ ہوتی تو یہ ہمیں کہتے ایویں جات بشائی تے کہہ تکنے او کدروں کھا(گھاس) چکی آنو تے اگ بالو ۔ ہم گھاس لاتے آگ جلاتے اور ہمارے پلیئر وارم اپ ہوتے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب تابو کو چھوڑ کر باقی سب شادی شدہ تھے۔
سردیوں کے دن تھے ہم کہیں ہفتے میں ایک دن ہی نہایا کرتے تھے وہ بھی جمعہ کے دن ۔ ان دنوں سکول بھی چھٹی جمعہ کو ہوا کرتی تھی اس لیے گھر والے ہمیں نہلانا فرض سمجھتے تھے ۔ وہ ہمیں ڈھونڈتے ہوئے سیدھے پارلی سڑک آ جاتے ۔ وہاں سے پکڑتے گھر لے جاتے ۔ سردیوں میں ایسا معلوم ہوتا کہ جمعہ کے روز ہی سردی کا زور ہے لیکن کیا کرتے آخر نہانا ہی پڑتا ۔ لیکن کیا فائدہ نہا کر بھی وہی گرد و غبار والے ہی کھیل رہتے، کھیلنے والے جب دیکھتے کے بلور کھتی میں نہیں پڑتے تو ہمیں کہتے یرا پھوک(پھونک) ماریں ہس نا ۔ ہم بھی حکم کے یکے ثابت ہوتے بس انہوں نے کہا تو ہم نے پھونک شروع کر دی بقول شخصے یہ بھی نہ دیکھا آج ہی بدلے ہیں کپڑے آج ہی نہائے ہوئے ہیں ۔ ہر کھیل میں ہمارے کپتان یہ حنیف اور حنیفا ہی ہوتے تھے ۔
حنیفے ملک کے بچے بھی جوان ہو گے لیکن حنیفا بدلا نہ اس کے شوق بدلے۔ بس اچھی سے اچھی بھینس کی جستجو میں رہتا جہاں سنتا بھینس اچھی پے وہی پہنچ جاتا ۔ جب مکان پھاٹہ بنائے تو پھر کوشش ہوتی کہ کم از کم دو بھینسیں تو کھونڈے پر ہونی چاہیے ۔ ہم نے ساری زندگی حنیفے کے بالوں میں کنگھی ہوئی نہیں دیکھی اور نہ ہی اس کے بال کنگھی والے تھے لیکن کبھی بھینس یا بانڈ ( بھینس باندھنے والی جگہ) گندے نہیں دیکھے ۔ وہ انسانوں سے بڑھ کر جانوروں سے پیار کرتا پھر جورو بھی اتنی ایکسپرٹ تھی کے جو کمی حنیفے سے رہ جاتی اپنی عقل کے مطابق وہ نکال دیتی ۔ دونوں میاں بیوی کا ہم خیال ہونا ہی گھر کی خوشحالی کا ضامن تھا ۔
دنیا کی دیکھا دیکھی حنیفا ملک بھی گھر اور بال بچے ماں کے سپرد کر کے سعودیہ چلا گیا۔ خوب محنت کی خوب پیسہ کمایا جب بھی چھٹی آتا کہیں کوئی اچھی بھینس دیکھتا تو خرید کر کلے باندھ جاتا۔ شاید ہی کوئی ایسا دن ہوا ہو جب ان کے گھر دودھ دینے والی بھینس نہ ہو۔ جب بھی بھینس لاتا بیوی سے کہتا آلا تہار کڈو آں ۔ جب وہ دودھ دھو لیتی تو بھری ہوئی بالٹی ماں کے پاس لا کر کہتا بے جی تکو آں اتنا دودھ بہوں اے نا۔ وہ ہنستے ہوئے کہتیں اللہ نصیب کرے بہوں اے ۔ حنیفے ملک کی یہ عادت تھی کہ وہ جو بھی کام کرتا پہلے نہ سہی پھر بھی بعد میں ماں سے ضرور بات کرتا ۔ حالانکہ وہ عمر رسیدہ خاتون تھیں بس چارپائی پر اکثر ٹائم گزار رہی تھیں لیکن حنیفے کی فرمانبر داری قابل دید تھی ۔
تقدیر اور تدبیر دو الگ چیزیں ہیں لیکن دونوں میں ایک مماثلت برابر کی پائی جاتی ہے کہ الٹ جائیں یا پلٹ جائیں تو پھر کچھ بس نہیں چلتا ۔ بس ایسا ہی ایک بار حنیفے سے ہوا کہ وہ چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا کہ بےجی بیمار پڑ گئی۔ دونوں میاں بیوی بےجی کی خاطر مدارت کے علاوہ تمام انگریزی دیسی علاج معالجہ بھی کروا رہے تھے لیکن دوائیں تھی کہ اثر ہی نہیں کر رہی تھی ۔ دو تین ماہ کے بعد بے جی کو کچھ افاقہ ہوا تو حنیفا واپس سعودیہ جانے لگا تو بےجی کہنے لگی ابھی نہ جاو ۔ یہ حکم سن کر حنیفا رک گیا ۔ مہینے کے آخر پر پھر اجازت چاہی لیکن نہ ملی یوں ہی حنیفا اجازت لیتا اور آگے سے نہ کا جواب پا کر چپ یو جاتا سوال بھی نہ کرتا کہ کہیں دل شکنی نہ ہو جائے۔ اب تو چھٹا مہینہ بھی ختم ہونے کو تھا لیکن اجازت کا کوئی امکان نہ تھا ۔ چھٹی اور ویزے کی باتیں آہستہ آہستہ گردش کرنے لگیں تو پڑوسن بووئ فاطمہ نے ایک دن باتوں ہی باتوں میں بےجی سے پوچھ لیا آلا دسو حنیفے ہوراں کی کیاں نو اجازت دینے جے او مڑی تے جان ۔ یہ سن کر بےجی کہنے لگی میں آخنی آں اپنے ہتھیی مٹی بائی جائے ۔ یہ سن کر بووئ آخنے لغے اللہ تساں کی لمبی حیاتی دے ۔ تے اے گل وی نصیباں نی ہونی اے۔ تساں حنیفے ہوراں کی اجازت دیو تے جے کوئی ایہہ جئیا مسئلہ ہویا تے مڑی اچھسی نا۔ تب بےجی نے اجازت بخشی اور حنیفا جی سویرے جانے کی تیاری کرنے لگے۔ چھ ماہ میں سے بس ایک دن ہی کم تھا کہ حنیفا جی بےجی سے یہ کہہ کر ملنے لگا کہ فکر نہ کرے میں بہلہ(جلدی) مڑی اچھساں بےجی یہ سن کر سوکھا ہوا ہاتھ گھڑی کے الٹے رخ گھماتے ہوئے بھربھرائی سی آواز میں کہنے لگیں کہہ پتہ ۔ حنیفے نے بھی مشکل سے ضبط کرتے ہوئے چہرہ دوسری طرف گھما کر بیوی سے کہا اے خاں خدمت وچ کوئی کسر نہ چھوڑے ۔
حنیفا جی دنیا کی عظیم ہستی کی آخری زیارت کر کے ویگن میں بیٹھ گے اسلام آباد ایرپورٹ تک سبھی سے یہی سنتے رہے پہنچی تے جلدی فون کرے ۔ وہ بھی جلدی کرنے کے اقرار کرتا رہا ۔ حنیفا اور سی آف کرنے والے برابر ہی اپنی منزل پر پہنچے تو حنیفا جی نے پہلا کام ہی فون کر نے والا کیا لیکن یہ کیا کوئی بھی کال ریسو نہیں کر رہا ایک نمبر دوسرا تیسرا نمبر سب ہی نو رئپلائی آخر کسی چوتھے نمبر پر کال اٹینڈ ہو گئی پہلا لفظ ہی یہی تھا بےجی ناں کہہ حال اے ۔ کال سننے والا استفہامیہ نظروں سے دوسروں کو دیکھ رہا تھا کہ کیا جواب دوں ۔ آخر حنیفے نے خود ہی پوچھ لیا یہ رونے کی آوازیں کیوں آ رہی ہیں سوال ہی ایسا تھا اور ایسے وقت پر تھا کہ سچ کے بغیر کوئی دوسرا جواب ہی نہ تھا ۔ آخر بتا دیا کہ جن کا تم حال پوچھ رہے ہو وہ تمام حال احوال سے آزاد ہو گئی ہیں ۔
اب تقدیر تدبیر کو مات دے گئی تھی اور نہایت ہی فرمانبردار بیٹا بقول پرانے لوگوں کے سات سمندر پار تھا اور بےجی اپنے حقیقی گھر سدھار چکی تھیں ۔ ایسا دکھ تھا جس کا صدمہ نہ صرف ان دونوں کو رہا ہو گا بلکہ ان سب کو تھا جو اس دکھ سے آشنا تھے۔
حنیفا جی نے دو تین بیٹوں کو سعودیہ بلا لیا تھا جب وہ روزگار لگ گے تو خود گھر آ گے لیکن اب کہاں وہ پہلے سی رونقیں ۔ دنیا کی ہر آسائش ہو کارپیٹڈ روم ہوں باغ باغیچے ہوں لاکھوں سائے ہوں لیکن وہ سایہ نہ ہو جو ایک ماں کے وجود سے ہوتا تو سب ہیچ ہے۔ یہی کچھ حنیفے ملک کے ساتھ ہو چکا تھا ۔ اب تو اپنے پرآئے سبھی حاجی حنیف کہہ رہے تھے لیکن کانوں میں کہاں وہ رس گھلتا تھا جو بےجی کی موجودگی والے نام میں تھا ۔ اندر باہر سب کچھ ہی تو بےجی کی یادیں دلاتا تھا آخر ان سب یادوں کو سمٹتے ہوتے ایک فیصلہ کر لیا کے اگر بےجی نہیں رہے تو اس گھر میں مجھے بھی نہیں رہنا ۔ بس انہی سوچوں کے تحت حنیفے نے مکان چھوڑ کر پھاٹے میں کوٹھی بنا لی لیکن دل کب ایسی باتوں سے بھولتا ہے ۔
زخم زخم ہی رہے تو علاج ہزاروں اگر زخم روگ بن جائے تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے ، بس ایسا ہی کچھ روگ لگ چکا تھا جس کا کچھ مداوا نہ تھا ۔ ہر وقت ہنستا کھیلتا حنیفا بھی غمگین ہو گا شاید ہی کسی نے سوچا ہو لیکن حقیقت یہی تھی کہ ایک تناور درخت کو دیمک لگ چکی تھی جو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہی تھی ۔ دیمک کا اثر تب ظاہر ہوا جب حاجی حنیف اور حاجی رزاق عرف عازق قربانی کا بیل خریدنے ٹھل کی طرف گے۔ کیا اتفاق تھا کہ جو وہم و گماں بھی نہ تھا وہ ہوئے جا رہا تھا، گھر سے صرف نو دس میل کی مسافت پر، اور حنیفا جی راہ کنارے جان جان آفریں کے سپرد کر رہے تھے۔ یوں چل کر جانے والے حنیفا جی واپسی کا سفر رفقاء کے شانوں پر کر رہے تھے ۔
باوا محمد دین کے صاحبزادے مقبول ملک گوجر انوالہ چلے گے تھے ملک فرزند عرف پھندو جی کی فرزندان آر سے سڑک کے پار چلے گے تو حنیفا ملک جی اور ملک کالا جی پھاٹہ چلے گے یوں مسجد کے قریب نیچی چھت والے مکان ملکاں ناں کھنہار بن گے۔
 
Top