مطالعہ کیسے کیا جائے؟

جاسم محمد

محفلین
محمداحمد بھائی کی تحریر کتاب پڑھنا کیوں ضروری ہے؟ پڑھتے وقت یاد آیا کہ کچھ روز قبل کتاب بینی کے حوالہ سے عاصم بخشی کی یہ شاندار تحریر نظر سے گزری تھی۔ سوچا شریک محفل کیا جائے۔
مطالعہ کیسے کیا جائے؟
24/08/2019 عاصم بخشی


بہاولپور کی تاریخی سنٹرل لائبریری کا ذکر تو قارئین کی اکثریت نے سن ہی رکھا ہو گا۔ یقیناً اس تاریخی کتب خانے سے کئی احباب کی یادیں بھی وابستہ ہوں گی۔ اب شاید پندرہ سولہ سال ہونے کو آئے اور یادوں پر وقت کی گرد پڑ گئی، لیکن بہاولپور میں دو سال قیام کے دوران چونکہ وہاں کافی وقت گزرا لہٰذا پردۂ ذہن پر کئی کتابی نقوش آج تک پختہ ہیں۔ مثال کے طور پر وہیں پہلی دفعہ سارتر کی ایک دو کتابوں کا اردو ترجمہ انگریزی کے متقابل بغور دیکھنے کا موقع ملا تو ہمارے ناپختہ ذہن کا یہ دریچہ کھلا کہ ترجمہ بھی کوئی اہم ادبی صنف ہے۔ اس سے پہلے ہمارا یہ احمقانہ خیال تھا کہ مترجمین بس کوئی ادبی کلرک قسم کے لوگ ہوتے ہیں جولغت کے ذریعے ایک زبان سے دوسری زبان میں مفہوم منتقل کر لیتے ہیں۔ وہیں پہلی دفعہ لائبریری کیٹلاگ میں ڈاکٹر فضل الرحٰمن کی انگریزی (کئی سال بعد لاہور میں پرانی کتابوں کی ایک دکان پر اس کا اردو ترجمہ نظر آیا جو شاید سیدی و مرشدی قبلہ عثمان قاضی صاحب کے کتب خانے پرموجود ہو) کتاب ’’اسلام‘‘ کے کارڈ پر نظر پڑی جو اب اکیسویں صدی میں بھی ’’ممنوعہ‘‘ ہی چلی آ رہی تھی۔ کافی تگ و دو سے اس مقفل الماری تک بھی رسائی ہوئی جہاں یہ ’’ممنوعہ‘‘ کتابیں موجود تھیں۔ نہ جانے آج کیا صورت حال ہے۔

خیالات کی رو بھٹک کر کہیں سے کہیں چلی گئی، فی الوقت جس دلچسپ واقعے کا تذکرہ مقصود تھا وہ ایک نوجوان دوست سے متعلق تھا جو ہمارے دفتری رفیق تھے اور ہم سے روز یہی پوچھتے رہتے تھے کہ ’’مطالعہ کیسے کیا جائے؟‘‘، ’’کیا پڑھا جائے؟‘‘، ’’کوئی اچھی کتاب بتائیے؟‘‘، ’’کوئی ایسی کتاب بتائیے جو ’میں‘ پڑھ سکوں؟‘‘، وغیرہ وغیرہ۔ آخری سوال میں صیغۂ واحد متکلم پر زور دینے سے شاید ان کی مراد یہ تھی کہ ان کے شعور میں جھانک کر بطور ’’مشیرِمطالعہ‘‘ ان کو کوئی کتاب تجویز کی جائے۔ خیر ایک روز جب ہم لائبریری جانےکا پروگرام بنا رہے تھے تو موصوف ساتھ ہو لیے۔ لائبریری میں داخل ہوئے تو ان کے چہرے پر کچھ عجیب ملے جلے سے تاثرات تھے، کبھی ان پر کسی ایسے زاہدِ خشک کا سا گمان ہوتا تھا جیسے مسجد کا جھانسہ دے کر مے خانے کے دروازے پر اتار دیا گیا ہو اور کبھی کسی ایسے بچے کا جس کے ذہن میں موجود طلسم کدہ حقیقت کا براہِ راست سامنا کرتے ہی چکنا چور ہو گیا ہو۔ میں حیران تھا لیکن اب تقریباً یقین سا ہو چلا تھا کہ موصوف پہلی بار کسی لائبریری میں آئے ہیں۔ نہ جانے ان کے ذہن میں کیا تصور تھا کہ آگے کیا منتظر ہو گا۔ مرکزی ہال میں داخل ہوئے تو بے ساختہ میری طرف مڑے اور پوچھنے لگے،’’جی سر، فرمائیے! اب کیا کروں؟‘‘۔اس سے آگے کے واقعات میں اہم بات صرف اتنی ہے کہ موٹر سائیکل میری تھی اور موصوف کو کسی نہ کسی طرح اخبارات کے سہارے چار پانچ گھنٹے گزارنے پڑے۔



یہ واقعہ سنانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جب بھی کتاب خوانی کا ذکر چھڑتا ہے یا کتابوں پر تعارف یا تبصرے کے بات آتی ہے تو کئی سوالوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ سوال اس طرح نہیں ہوتے جیسے رسالوں ڈائجسٹوں وغیرہ میں ’’آپ کے مسائل اور ان کے حل‘‘ والے متعین سوالات ہوتے ہیں۔ ان سوالات کا عمومی ابہام ہی ان کو ایک مشترکہ لڑی میں پروتا ہے جو کسی حد تک تو ایک مخصوص سمت نما کی تلاش اور کسی حد تک خود سمت کی آگہی سے عبارت ہوتی ہے۔ لیکن بہرحال کسی حد تک متنوع ہونے کے باوجود ان تمام سوالوں کا نقطۂ ارتکاز یہی ہوتا ہے کہ مطالعہ کیسے کیا جائے؟ بے لاگ رائے کی اجازت دیجئے تو یہ مبہم سا سوال بیک وقت ا تنا معصوم اور لذیذ ہوتا ہے جیسے کوئی ( منچلا یا معصوم؟) نوجوان پوری سنجیدگی سے کمرہ جماعت میں استاد یا پھر محلے کی مسجد میں کسی مولوی صاحب سے یہ سوال پوچھے کہ حضرت آگاہ کیجئے کہ مباشرت کیسے کی جائے؟ دونوں سوالوں کے درجہ ہائے لذت و معصومیت پر موازنے سے قطع نظر یہاں صرف اس ابہام کی نشاندہی مقصود ہے کہ ہماری رائے میں مطالعہ ہو یا مباشرت ،یقیناً کوئی ایسا اٹل میکانی اصول دریافت نہیں کیا جا سکتا جسے عمومی طور پر لاگو کیا جا سکے۔ گمان یہی ہے کہ قرأتِ متن ہو یا عملِ مباشرت ، یا پھر انسانی مسرت و تسکین سے جڑا کوئی بھی متجسس فعل، وجود و شعور کے سفلی سے لے کر ارفع ترین درجات کے بیچ تنی لامتناہی رسی پرڈولتے ہوئے چلنے کی ایک پرلطف کوشش ہے۔ ایک ایسی رسی جس سے گرتے ہی انسان کی آنکھ کھل جائے وہ سکھ کا سانس لے کہ یہ ایک خواب تھا۔ اگر ایک اٹل اصول کی دریافت لازم ٹھہرے تو پھر یہاں کارفرما اصول تجسس، فہم، تحقیق، آگہی، تلاشِ حق وغیرہ نہیں بلکہ صرف اور صرف مسرت اور تسکین ہے۔

لہٰذا لحظہ دو لحظہ ٹھہریےاور پہلے خود سے یہ سوال پوچھئے کہ مطالعہ کیونکر کیا جائے اور اگر جواب یہ ہو کہ ایک نادیدہ سی تسکین کی خاطر تو پھر سمجھ لیجئے کہ کیسے اورکیا کا سوال اپنی عمومیت میں بس ضمنی لیکن ایک ناگزیر جزوقتی پڑاؤ سے زیادہ کچھ نہیں۔ ظاہر ہے آگے تو بڑھنا ہے اور سامنے کئی راہیں بھی موجود ہیں۔ منطقی بات یہی ہے کہ ہر راہ پر باری باری سفر کیا جائے اور کچھ دور چلا جائے۔ واپس لوٹا جائے یا سفر جاری رکھا جائے۔ کئی راہوں پر مزید چلنے کی خواہش ہی محسوس نہیں ہو گی ۔ کئی پر یہ گمان ہی اداسی پیدا کر دینےوالا ہو گا کہ راہ ختم نہ ہو جائے اور مسرت کا عمل رک نہ جائے۔ کئی راہوں پر چل کر معلوم ہوگا کہ سفر دیکھا بھالا ہے اورکسی دوسرے راستے پر بھی یہی مناظر دیکھنے کو ملے تھے۔ کئی راہیں نئے درسی سوالات کو جنم دیں گی۔ مختلف مقاصد سفر کی مزید خواہشات کو جنم دیں گے۔ بامعنی سوالات خود بخود سامنے آتے چلے جائیں گے۔ ادب کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟ کلاسیکی ادب کو کیسےپڑھا جائے؟ عوامی ادب کو کیوں کر پڑھا جائے؟ انتخاب و ترجیح کیسے ہو؟ سائنسی کتب، تجزیاتی کتب، سماجی علوم، فلسفہ و تاریخ، غرض ہر میدان کے لئے سوالوں میں کچھ نہ کچھ ردوبدل ضرور ہو گا اور ہر میدان میں مطالعے کے گُروعلیحدہ ہوں گے۔ یہ گُرو اس میدان کے اساتذہ بھی ہو سکتے ہیں اور آپ ہی جیسے مزید قاری بھی جو اس مخصوص عجائب گھر میں آپ کی نسبت کچھ زیادہ گھومے ہیں۔



یوں اگر بغور دیکھئے تو ہمارا قائم کردہ اصولِ مسرت یعنی مطالعہ برائے مطالعہ ہی وہ واحد اصول ہے جو دراصل کسی قاری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ خود کو ’’قاری‘‘ کہہ سکے۔ ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں مطالعہ کئی مشاغل میں سے ایک جزوقتی مشغلہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ دھندا ہے۔ یعنی غم ِروزگار کے ساتھ کتاب خوانی بطور ایک متوازی زندگی،ایک مستقل سفر، ایک نہ ختم ہونے والی مسرت، مسلسل تسکین کا ایک لاحاصل لذتیت پسند آدرش۔ کتابوں کے بارے کتابیں تو بہت لکھی گئی ہیں لیکن خود فنِ مطالعہ پر بھی اساتذہ کی کچھ دلچسپ قلم طرازیاں موجود ہیں۔ پہلی مثال دنیا بھر کے قارئین کی پسندیدہ ترین کتاب ’’ایلس ان ونڈر لینڈ‘‘ کے خالق لوئس کیرل کی ہے۔ ان کے چار مشہور اصولوں میں سے مجھے صرف ایک سے تقریباً کلی اتفاق اور باقی تمام سے شدید جزوی اختلاف ہے۔ ان کا پہلا اصول یہ ہے کہ کسی کتاب کو درمیان سے چھان پھٹک کر ذائقہ نہ چکھا جائے بلکہ نیت باندھ کر آغاز ہی سے شروع کیا جائے۔ دوم، آگے نہ بڑھا جائے جب تک فہم کے تقاضے پورے نہ ہو جائیں۔ سوم، کوئی عبارت کم از کم تین بار پڑھنے پر بھی سمجھ نہ آئے تو جان لیجئے کہ آپ کا ذہن تھکا ہوا ہے، سو کچھ آرام کے بعد واپس اسی جگہ لوٹیے۔ چہارم، اپنے فہم کی کمزوریوں اور حماقتوں کا جائزہ لینے کے لئے خود سے یا کسی دوست سے کتاب پر ضرور گفتگو کیجئے۔

ظاہر ہے کہ آخری اصول کے علاوہ باقی تمام اصول عمومی طور پر ہر متن پر لاگو نہیں کئے جا سکتے۔ کیرل کئی دلچسپ راہوں کے مسافر تھے لیکن چونکہ ان کی مرکزی راہ منطق و ریاضی تھی، لہٰذا ان کے یہ اصول واضح طور ایک مصنوعی سے منطقی و ریاضیاتی اٹل پن کا شکا ر ہیں۔ان کے اس نہایت مختصر سے مضمون کا نام ہی ’’ہم کیسے سیکھیں‘‘ (How to Learn) ہے جو یقینا مطالعے کی ایک مخصوص معنوں میں تحدید ہے۔


Lawrence Hall (Now) Quaid-e-Azam-Library-1866

موضوعات کی بہت وسعت کے ساتھ کچھ ایسی ہی تحدید آپ کو کئی ایسی دلچسپ کتابوں مثلاً سی ایس لوئس کی ’’ہم کلاسیکی ادب کیسے پڑھیں‘‘ (How to Read Classics) اور ٹیری ایگلٹن کی ’’ہم ادب کیسے پڑھیں ‘‘ (How to Read Literature) میں بھی ملے گی جو مخصوص نیم تنقیدی اورنیم درسی نکتۂ نگاہ سے لکھی گئی ہیں۔ عنوان ہی سے موضوع کی تحدید یہ واضح کرتی ہے کہ یہ سوال (یعنی مطالعہ کیسے کریں؟)اپنی عمومیت میں کتنا پیچیدہ ہے۔ میرے علم کی حد تک مطالعہ برائے مطالعہ کے موضوع پر مکمل احاطہ کرتی واحد کتاب مورٹیمر ایڈلر کی ’’کتاب کیسے پڑھیں‘‘ (How to Read a Book) ہے۔ کتاب کا مختصر تعارف تو ناممکن ہے لیکن کم از کم اتنا کہا جا سکتا ہے افادیت پسندی کے اصول کی حد تک فنِ مطالعہ کی میکانی حرکیات کا اس سے مکمل تجزیہ ناممکن ہے۔ جو قارئین دلچپسی رکھتے ہوں وہ اس کتاب کانظر ثانی شدہ ایڈیشن (۱۹۷۲) ہی حاصل کریں۔

ہمارا نتیجہ یہ ہے کہ واطسیانا کے کاما استھانوں کی طرح فنِ مطالعہ کے کتنے ہی گُر ضبطِ تحریر میں کیوں نہ لے آئے جائیں، اگر آپ واقعی ’’قاری‘‘ ہیں تو اپنے وسعتِ مطالعہ کی تمام تر عاجزی کے ساتھ بھی اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر خود کو اساتذہ سے کسی نہ کسی حد تک اختلاف پر مجبور پائیں گے۔ یہ اختلاف ہی یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ مطالعہ برائے مطالعہ کا اصول اپنے اطلاق میں کس حد تک مشکل ہے اور یہی بعید از امکان کیفیت اس میں ایک ایسی طلسمی سی لاحاصل لامتناہیت پیدا کرتی ہے۔ آخر ان گنت راہوں پر نا ختم ہونے والے سفر کی نیت باندھنا کیوں کر ممکن ہے؟ یہاں تو ہر مسافر ایک نیا مسافر ہے اور راہوں کی ترجیح و انتخاب سے اپنا جہان خود تخلیق کرنے کے لئے آزاد ہے۔

میں اساتذہ کی اجازت سے اس سلسلے میں قارئین کےچار طبقات وضع کرنے کی جسارت کروں گا: 1) قاری استمراری (Perpetual Reader)؛ 2) قاری استقراری (Happy Reader)؛ 3) قاری لاچاری (Forced Reader)؛ اور 4) قاری انکاری (Non-Reader)۔



کچھ وضاحتیں اب ناگزیر ہیں جن میں سے اول اور اہم ترین یہ کہ قارئین کی یہ زمرہ بندی صرف اور صرف مذکورہ بالا اصولِ مسرت یا لذت و تسکین کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے۔

دوم، آخری دو طبقات کلی طور پر جبلی ہیں اور پہلے دونوں سراسر آدرشوں کی ترجیحات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی قاری لاچاری اور قاری انکاری پیدائشی طور پر معذورہیں اور کوئی بھی کوشش یا حادثہ انہیں استقراری یا استمراری زمرے میں نہیں لا سکتا۔ دوسرے لفظوں میں بالفرض اگر آپ جبلی طور پر لاچاری یا انکاری ہیں تو چاہے آپ صحافی ہوں، ٹی وی اینکر ہوں یا پھر کسی دارالکتب میں لائبریرین ہی کیوں نہ ہوں، جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی تشخیصی علامت خود آپ پر آپ کی طبقاتی اصلیت کھول دے گی۔ اس کے برعکس استقراری اور استمراری قارئین وقتی ترجیحات کی بنیاد پر اپنے زمرے تبدیل بھی کرتے رہتے ہیں گو یہ عمل زندگی میں بہت زیادہ بار نہیں ہوتا۔

سوم، پہلے دونوں طبقات میں ایک واضح فرق متن کے ذہنی و جسمانی لمس کے لئے حرص کی کیفیت کا ہے۔ دونوں حرصِ متن کے ہاتھوں مجبور ہیں لیکن اول الذکر حرص کی شدت کے ہاتھوں کوئی بھی قیمت چکانے کے لئے خود کو کم از کم نظری طورپر تیار پاتا ہے۔ یہ لطیف سا فرق گیان و دھیان سے ہی ہاتھ آ سکتا ہے۔

چہارم، اس زمرہ بندی کا تعلق متن کی زمرہ بندی سے ہرگز نہیں ہے۔ انکاری اور لاچاری تو خیر مجبور و معذورِ محض ہیں لیکن استمراری و استقراری نت نئے میدانوں کی وسعت ماپنے کے لئے ہر لمحہ کمر بستہ رہتے ہیں۔



موضوع میں حوالہ بنائے گئے سوال کی طرف واپس لوٹا جائے تو اپنا اپنا طبقہ منتخب کرتے ہوئے باآسانی اس سوال کی مزید تراش خراش بلکہ اس کا حتمی جواب تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یہ فیصلہ کر لینے کے بعد کہ آپ قارئین کی آخری دو قسموں میں سے ہیں، یہ سوال کہ مطالعہ کیسے کریں آپ کی دلچپسی سے خود بخود خارج ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی ٹھوس اور تجرباتی تشخیصی علامت درکار ہو تو خود سے پوچھئے کہ زندگی میں کتنی دفعہ کسی کتاب میں دلچپسی کی وجہ سے آپ کی نیند اڑ گئی یا آپ کوئی اہم کام بالکل بھول گئے یا پھر جب نیند نے آپ کو مغلوب کر دیا اور گھڑی دو گھڑی بعد ہی آپ کی آنکھ کھلی تو آپ نے کروٹ بدل کر سونے کو ترجیح دی یا لذت و حرص کے ہاتھوں مجبور ہو کر، جیسے کسی حیوانی جبلت کے جبر کے زیرِ اثر متن نے آپ کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا؟ اگر اب تک ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا بلکہ آپ کو اس قسم کے سوالوں کی غیرمعقولیت پر دبی دبی ہنسی آ رہی ہے تو آپ لاچاری یا انکاری زمرے میں ہیں۔ اصولِ لذت کو ہرگز فراموش نہ کیجئے۔ عین ممکن ہے کہ آپ بہت شوق سے کسی خاص موضوع پر کتابیں پڑھتے اور ان سے حظ اٹھاتے ہوں لیکن یہاں درپیش معاملہ مطالعہ برائے مطالعہ کا ہے۔ ہماری رائے میں مطالعہ برائے مشغلہ یا مطالعہ برائے تفریح بھی لاچاری ہی کی ایک ذرا سی بھلی صورت ہے۔ اس صورت میں’’ مطالعہ کیسے کریں‘‘ کی جگہ مناسب سوال یہ ہے کہ اس موسمِ سرما میں فارغ وقت ملنے کی صورت میں کون سی ایک دو کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔

اگر آپ قاری استقراری ہیں تو ہماری مراد یہ ہے کہ آپ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح حالت استقرار میں مطالعے سے جڑے اصولِ لذت کے اطلاق پر مائل ہیں۔ ہماری رائے میں فنِ مطالعہ کے موضوع پر مذکورہ بالا ایک دو اہم کتابوں اورموضوعات کے اعتبار سے ان جیسی کچھ دوسری کتابوں کے مطالعے سے آپ بحالتِ استقرار ہی اپنی لذت و تسکین میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ قاری استمراری کو نظری طور پر سمجھنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے برعکس قاری استمراری متن سے جڑی لذتیت پسندی کو ایک آدرش کے طورپر اس طرح اپنائے ہوئے ہے کہ اس کی زندگی اسی آدرش کے گرد گھومتی ہے۔ کرکٹ یا فٹ بال جیسے کھیلوں سے اس کا دور دور کا بھی جسمانی واسطہ نہیں۔ شطرنج کھیلنا جانتا ہو گا، کالج اسکول کے زمانے میں کیرم بھی کھیلی ہو گی ، یقیناً زندگی کے ایک دو سال ہر ہفتے ایک دو دن برِج پر بھی قربان کئے ہوں گے، لیکن اب وہ ان سرگرمیوں پر اصولِ لذت کا اطلاق کرنے سے قاصر ہے۔

یوں سمجھ لیجئے کہ مطالعہ برائے مطالعہ دیوانگی کی سرحدوں پر ایک باشعور سرگرمی ہے۔ میں کم و بیش پچھلی ڈیڑھ دہائی سے قاری استمراری ہوتے ہوئے اقرار کرتا ہوں کہ اس کا مطلب حتمی طورپر اُس مخصوص لذتیت پسندی کے آدرش کو قبول کرنا ہے۔ نہ صرف مجازی بلکہ کافی حد تک حقیقی معنوں میں بھی یہ ایک ’’فاسٹین سودا ‘‘ ہے۔ مجازی اس لئے کہ اس میں بدی کا عنصر مبہم ہے اور حقیقی اس لئے کہ کسی بھی شیطانی سودے کی طرح ایک بار انتخاب کے بعد واپسی بہت مشکل ہے۔ لیکن اس کی جسمانی، روحانی اور نفسیاتی قیمت چکانا لازم ہے۔ نشے کے عادی کسی بھی شخص کی طرح یہاں لذت و ندامت کا ملاجلا پیچیدہ سا غیر ملفوظ احساس ہمیشہ کارفرما رہتا ہے۔ کتاب کا لمس میرے لئے اہم ترین ہے لیکن میری یہ قدامت پسندی برقی اسکرین کی مصنوعیت سے دور نہیں کرتی۔ اہم چیز بہرحال متن تک رسائی ہے۔ میرے لئے متن کی مقدار بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی اس کی معیاری یا اقداری حیثیت۔ زندگی متناہی ہے اور متن لا محدود۔ ایک کتاب میرے لئے ایک اجنبی منطقے کا سفر، ایک خوبصورت پڑاؤ، ایک نیا رنگ، ایک نئی خوشبو، ایک نیا منظر ہے۔



اپنے نیم میکانی استمراری معمول کے مطابق میں ان دنوں بھی کئی کتابیں ایک ساتھ پڑھ رہا ہوں۔ دنوں مہینوں سالوں کی قید کچھ خاص معنی نہیں رکھتی لیکن حرص مجھے ہر لمحہ ماپ تول کی جانب مائل رکھتی ہے۔ کیا روز ایک کتاب؟ ہفتے میں دو، تین یا چار؟ چلو یہ سہ ماہی ہر ہفتے ایک دو بھی ہو جائیں تو کافی ہیں۔ موسمِ گرما میں گھرگرہستی سے فراغت ہو گی تو کسر نکال لوں گا۔ کتابوں کی الماری کے سامنے کھڑا سوچتا ہوں کہ اب کیا پڑھوں۔ ضخامت جانچتا ہوں۔ کیا یہ (’’مردم دیدہ‘‘ از چراغ حسن حسرت) ابھی ایک نشست میں ختم ہو جائے گی؟ اٹھا لیتا ہوں۔۔۔کیا ضرورت ہے ابھی ختم کرنے کی۔ ۔۔ یہ ہلکا پھلکا متن تو گاڑی میں رکھ چھوڑتا ہوں۔ یونیورسٹی کے سفر میں ٹریفک بلاک ہوا تو ایک دو خاکے ختم کر لوں گا۔ ابھی یکسوئی میسر ہے۔ شام کی چائے کے ساتھ یہ ناٹک (’’کرسیاں’’ (The Chairs) از یوجین آئیونیسکو) پڑھ لیتا ہوں۔ دو سال سے خرید رکھا ہے۔ شکر ہے اس کی باری بھی آ ہی گئی۔ رات کے لئے دو کتابیں سرہانے میز پر علیحدہ رکھی ہیں۔ قاری استمراری کے لئے کسی متن کی عرصے بعد یا کسی وجہ سے فوراً دہرائی بھی کسی لطف سے کم نہیں۔ یوں اگر آج شب موڈ کی مناسبت سے پہلے پڑھے ہوئے کامیو کے مضامین (The Myth of Sisyphus and Other Essays) اٹھا ئے ہیں تو کل شب ہاسر آرنلڈ کی چار جلدوں پر مشتمل ’’سوشل ہسٹری آف آرٹ‘‘ کی پہلی جلد کی باری آ جائے گی۔ خالص آرٹ کی راہ پر ہمیشہ سست رفتاری سے ہی سفر کیا ہے سو چھ ماہ میں چاروں جلدیں ختم کرنے کا ارادہ ہے۔ دو روز قبل شام کو برادرم جمشید اقبال نے پیغام بھیجا کہ فوراً ڈیوڈ بوہم کو پڑھ ڈالوں۔ اسی شام آرڈر کر دیا۔ کل صبح ہی کتاب (On Dialogue) آن پہنچی۔ کل شام یونیورسٹی میں طلباء کا پرچہ تھا سو کلاس میں ربع اول ختم ہوا، آج دفتری اوقات میں کچھ فراغت کی ساعتیں ہاتھ آئیں تو نصفِ اول تمام ہوا۔ رات کسی وقت آنکھ کھل گئی اور نیند نہ آئی تو دو چار صفحات مزید پڑھ لئے جائیں گے۔

بغور دیکھئے تو قاری استمراری کی تمام تر زندگی سلسلۂ زمان کے بیچ میں موجود خلا تلاش کرنے اور اگر موجود نہ ہوں تو انہیں تخلیق کرنے سے عبارت ہے۔ رہ گیا انٹرنیٹ کے جہانِ برق میں موجود متن پر ہاتھ صاف کرنے کا معاملہ تو وہ حسبِ توفیق ہے۔ فون پر کسی مختصر مضمون کے لئے اے ٹی ایم مشین کی قطار تو کسی طویل عبارت خوانی کے لئے کوئی سڑک پر بند اشارہ، ختم نہ ہوا تو محفوظ کر چھوڑئیے کہ رفع حاجت کے اوقات تو قطعی ہیں، علاوہ اس کے وہ خوش قسمت ساعتیں ظنی ہیں جب بیگم کی دن بھر کی روداد پر ہوں ہاں کرتے ہوئے اچانک ان کے میکے سے فون آ جائے۔ اور ہاں اب تو سردیاں ہیں، گرم پانی بھی گیزر سے نل تک تقریباً پانچ منٹ میں سفر کرتا ہے سو وہ پانچ منٹ نہایت قیمتی ہیں کہ نئی کتابوں پر ایک دو تبصراتی بلاگ تو تیزی سے پڑھے جا ہی سکتے ہیں۔



قاری استقراری منزل کا تصور باندھے بغیر سفر شروع نہیں کرتا۔ یہاں راہ کا انتخاب منزل کے تصور کے بعد اگلا منطقی مرحلہ ہے۔ قاری استمراری کے منطقی انجام کے بارے کچھ بھی کہنا بے معنی ہے۔ منزل کا امکانی تصور بھی اس کے مسلسل سفر کے لئے موت کی خبر ہے۔ ادب برائے ادب، ادب برائے اصلاح، فلاں نظریہ بمقابلہ فلاں تصور، یہ سب بحثیں صریح مطالعاتی تناظر میں حتمیت سے آزاد ہو جاتی ہیں، یعنی خود بخود ضمنی ٹھہرتی ہیں کیوں کہ کسی نہ کسی طرح لذت کو متناہی گردانتی ہیں۔ استمرار راہوں میں تعدد و تنوع کا تقاضا کرتا ہے، ہر نئی راہ پر کئی منظر منتظر ہیں، ہر منظر مختلف تناظر سے اپنے رنگ بدلتا ہے۔ راہِ ادب ہے تو ہر کرداراپنا ایک تناظر رکھتا ہے، ناول کسی پہاڑ کی طرح ہے، افسانہ تیز بہتی چھوٹی سی ندی، غزل کانوں میں رس گھولتا مدھر جھرنا اور نظم کسی سرنگ میں دورسے قریب ہوتی کوئی ننھی سی روشنی۔ فلسفہ، سماجیات، سائنس، تاریخ ، غرض ہر راہ پر سفر کے اپنے تقاضے ہیں اور گو ہر مسافر ہر راہ پر لمبے سفر کے لئے زادِ راہ نہیں رکھتا لیکن اپنے اندر سفر کی شدید خواہش ضرور پاتاہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ فلاں متن کو چھوئے گا، محسوس کرے گا، اور آگے بڑھ جائے گا، کوئی متن اس کے قدم جکڑ لے گا تو کوئی اسے پاس پھٹکنے بھی نہیں دے گا۔

استمرار صرف اور صرف مسرت، لذت اور تسکین ہے۔ یہاں یاسیت، حسرت، ندامت اور دکھ کی کوئی جگہ نہیں۔ منٹو اور شرلاک ہومز کی ساری کہانیاں نہیں پڑھیں تو کیا ہوا، حتی الوسع دونوں جہانوں کی سیر تو کی ہے۔ کیا ہوا جو پرؤسٹ اور موبی ڈِک ایک دہائی سے الماری میں منتظر ہیں، ان کوچُھوا تو ہے، ورق گردانی تو کی ہے، ان کے بارے میں طویل مضامین تو پڑھ رکھے ہیں۔ کیا ہوا کہ جو ’’تنقیدِ عقلِ محض‘‘، ’’داس کیپٹل‘‘ اور ہیگل کی مظہریات کا مطالعہ اب تک نہ کر سکے، کم از کم نظریات کے مرتبان میں ہاتھ ڈال کر انگلیاں تو چاٹی ہیں۔ استقرار محبت و الفت ہے، متن کے قریب ہونے کے آرزو ہے، لاحاصل کی حسرت، کبھی نہ پا سکنے کی یاسیت و ندامت ہے۔ لاچاری و انکاری جبلی کمزوری ہے، ان جان زمینوں کا خوف ہے، چندھیائی آنکھوں کو بند کر لینے کی مجبوری ہے، متن کو محبوب مان کر آغوش میں لینے کی بجائے طاقت ور حریف مان کر پنجہ آزمائی سے فرار ہے۔

تو صاحبو سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ یہاں قاری متن کو نہیں بلکہ متن قاری کو چنُتا ہے، گھات لگائے اس لمحے کے انتظار میں رہتا ہے جب وہ قاری پر نظرِ التفات ڈالے گا اوراسے فوراً اپنی جانب کھینچ لے گا۔ مطالعے کا سوال بہت پیچیدہ ہے۔ جواب محض اس پیچیدگی کا اظہار۔ فیصلہ آپ پر ہے۔ ہم پر اپنے کُتب خواں قبیلے کا قرض تھا جو آج اتار دیا۔

 

محمداحمد

لائبریرین
آج پڑھی یہ تحریر!

شروع شروع میں تو ایسا لگا کہ مصنف سے یہ مضمون لکھنے کی فرمائش کی گئی ہے اور وہ خود پر جبر کرکے یہ تحریر لکھ رہے ہیں اور بار بار اپنے موضوع کو چھوڑ کر ادھر اُدھر بھٹکنے لگتے ہیں۔

پھر جب وہ موضوع پر آئے تو ایسا لگا کہ جیسا کہ معروف نفسیات دان جناب فرائیڈ نے اُن سے قرطاس و قلم تھام کر اُنہیں سائیڈ پر بٹھا دیا اور اپنے خیالات کے مطابق موضوع سے انصاف کرنے لگے۔

گو کہ کتابوں کے بارے میں کافی باتیں ہوئی اور معروف مصنفین اور تصانیف کا ذکر بھی کافی کشادہ دلی سے کیا گیا لیکن مصنف نے عنوان میں موجود سوال کا جواب نہیں دیا۔ اگر جنا ب مذکورہ سوال کا جواب نہیں دینا چاہ رہے تھے یا خود کو جواب دینے کا اہل نہیں سمجھتے تھے تو اُنہیں چاہیے تھا کہ اس تحریر کا عنوان کچھ اور رکھتے۔
 
Top