اقتباسات محبت

محمّد

محفلین
۔۔۔۔۔ جاننے اور سمجھنے کی بات صرف یہ ہے کہ محبت ہے کیا، اور ہے تو کتنی بدقسمت شے ہے کہ آج تک کسی کی سمجھ میں نہ آ سکی۔ کوئی اس کو روحانی اور وجدانی گردانتا ہے تو کوئی اس کو محض جسم سے جسم کے رابطے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔کچھ لوگ اس کو پاک سمجھ کر خدا سے سے قریب تر درجہ دیتے ہیں مگر کچھ اس کو کارزیاں گردانتے ہیں۔الغرض 'محبت' ذات خود کتنی دُکھی ہے کہ سب کے اندر موجود ہوتے ہوئے بھی اکثر پر ظاہر نہیں ہوتی۔ ہر انسان میں اس کا ظہور ہے پر یہ خود کسی پر ظاہر نہیں۔ ہر کوئی اس کے نام 'الفت' سے واقف ہے پر اس پر کسی کا نام ثبت نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ خدا کی دنیا میں خدا سے زیادہ متنازعہ اگر کوئی چیز ہے تو وہ محبت۔۔۔۔۔۔!

اہل تجربہ کا کہنا ہے کہ محبت جوانوں کے لیے شراب طہورہ کا جام اور جوانی کے لیے آب حیات ہے۔امنگوں کا گہوارہ اور ان دیکھے مستقبل کا سہانا خواب ہے۔یہی، انگڑائی کی بنا اور وجہ بے چینی ہے۔ رات کی نیند اڑتی ہے تو 'محبت' کے لیے اور دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے تو صرف نظر ملانے کے لیے۔ چہرہ عارض پر رنگ آتا ہے تو اس کی آمد کی خبر پر، ساون میں ماتھے عرق ریز ہوتے ہیں تو اس کو خوش آمدید کہنے کی تیاری میں، جھولوں کی پینگیں افق تک جاتی ہیں تو صرف ایک لمحہ اس کو دیکھنے کے لیے۔

محبت نوجوانی میں روح رواں کا اظہار ہے، جسم کا لطیف درد اور ہونٹوں پر تیکھی مسکڑاہٹ ہے۔ ٹیس بھی اسی کو کہتے ہیں اور کسک بھی اسی کا نام سمجھا جاتا ہے۔محبت پکی عمر والوں کے لیے 'زندگی بھر' کا رونا، جوانی کی کم آگاہی کا خمیازہ اور گستاخ ماحول کا اثر ہے۔ محبت آمدن کی تقسیم کا ایک بے بہا نسخہ اور پھٹکری ملا گرم دودھ "جو نہ نگلنے کا اور نہ اگلنے کا" نام ہے۔ یہ اجڑے دیار اور بخار سے تپے ہوئے جسم کی مانند ہے۔ادھیڑ عمر میں محبت کی حامی بھرنے والے دو وقت کی روٹی ساتھ بیٹھ کر مگر منہ ٹیڑھا اور دل سخت کر کے ضرور کھاتے ہیں۔

بڑی بوڑھیاں فرماتی ہیں کہ محبت پرانے شادی کے کپڑوں کی بار بار زیارت اور سابقہ زندگی کی بھول بھلیوں کے گمراہ کن پرتو ہیں۔ اس میں ٹھنڈی سانسیں عام، اور دوپٹہ یا رومال کا قرب بڑھ جاتا ہے، آہ! کاش! تلخی، بدمزگی اور پچھتاوا، پرانی سہیلیوں کا سا روپ دھار لیتے ہیں!

محبت تجربہ کاروں کے لیے لاٹھی کی ٹک ٹک، کھانسی کی کھنک، نزلہ کی سوں سوں اور بخار کی کڑاہٹ ہے۔ رعشہ سے ہلتے ہوئے ہاتھ اور چارپائی کی چرچراہٹ، گزشتہ محبت کی پختگی کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ موت جیسی خلوت کو فرحت انگیز جلوہ میں بدل دیتی ہے اور خون سے ستے ہوئے چہروں کو انکا گلابی رنگ اور وقت کے کھائے ہوئے جسموں کو الہڑ پن یاد دلاتی ہے۔

محبت ایک مضبوط لاٹھی اور نائیلوں کی ڈوری ہے، جس سے اس کے نام لیوا ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں وہ رات میں ایک دوسرے کے لیے دن کی روشنی اور دن میں رات کی ٹھنڈک کا مظہر ہیں۔

محبت، بڑھاپے میں جوانی کے وعدوں اور یادوں کا گلشن ہے جس میں بےچارےصبح و شام گھومتے پھرتے ہیں۔ مگر یہ بھی سب کے لیے کہاں......کچھ تو اس کو پیار کی جہنم اور اس کے فرشتے کو شیطان سمجھ کر لاحول سے نوازتے ہیں۔

محبت کی حقیقت تلاش کرنے والے فرماتے ہیں کہ کسی کو کسی سے کسی وقت بھی ہو سکتی ہے اور اگر ذرا غور کریں تو یہ ہوتی بھی نہیں! اکثر، جوان کو مالدار مگر 'موت سے قریب' خوب صورت سے ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اہل ثروت 'عمر کے پورے' کو "کھیلتی اور مچلتی" الہڑ دوشیزہ سے، شاعروں کو شاعری، ادیبوں کو ادب اور مولویوں کو اپنی آواز سے ہو جاتی ہے۔ کوئی صرف اپنے آپ سے محبت کرتا ہے تو پرانا آئینہ عاشق کی جگہ لے لیتا ہے اور اگر کوئی ان دیکھے سے محبت کرتا ہے تو تصور کی باریک بینی اور لطیف نظری، معشوق کے خدوخال کی جگہ لے لیتی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ 'آگ' ہے برابر لگی ہوئی، حالانکہ بیچارے 'برقعہ پوش' کے اچھوں کو پتا نہیں چلتا کہ ماجرا کیا ہے۔

کچھ شوقین محبت کی خاطر اشتہاری خودکشی کرتے ہیں، تو کچھ قربانی کے دنبے بن جانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ کچھ لوگ محبت کے مزار پر بےغرضی کی چادر اور بے لوثی کے پھول چڑھاتے ہیں تو کچھ دل جلے، اس کو خود غرض جان کر لعن و طعن کرتے ہیں۔

لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ محبت ماؤں کو بچوں سے آئندہ ہونے والی آمدن کے سبب اور بچوں کو حال کی آسائشوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ محبت انسان کو خدا سے دوزخ کے ڈر اور جنت کی لالچ میں ہوتی ہے اور یہی محبت انسان کو شیطان کا ہم مجلس اور ہم شکل بنا دیتی ہے۔ سنا ہے، کہ محبت پاک ہوتی ہے، جس میں کوئی لوث و لالچ نہیں ہوتا، مگر ہم نے آج تک ایسی محبت نہیں دیکھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ محبت ناپاک ہوتی ہے۔ جسم سے جسم والی۔ کمزور کو کمزور اور طاقتور کو مزید قوت عطا کرنے والی۔ کچھ کے تجربہ میں محبت ابدی اور زیادہ کے لیے عارضی ہوتی ہے۔ہاں! ہم نے بھی یہی دیکھا ہے۔ محبت، عموماً انسانوں کو انسانوں اور جانوروں کو جانوروں سے ہوتی ہے، مگر ضروری نہیں، اکثر زبان والوں کو بے زبانوں سے ہوتی ہے مگر کم کم، شکاری کو شکار، قصائی کو گوشت اور قصائی نما کو ٹھنڈے گوشت سے ہو جاتی ہے۔

محبت پہلی نظر میں ہو سکتی ہے، کمبخت کیسی طوفانی نظر ہوتی ہو گی؟ ...... اور کبھی برسوں ساتھ رہنے کے باوجود انگڑائی نہیں آتی۔ محبت عام طور پر وقت کی مصلحت، محفل کی شمع، اور شمع کے 'پروانے' جیسا وقت اور ماحول دیکھا محبت نے ویسی شکل اختیار کر لی۔

محبت، "محبت" حاصل ہو جانے کے بعد دوسروں کی 'محبتوں' سے ہو جاتی ہے۔اکثر اپنے قلمی آم کھٹے اور دوسروں کے کاٹھے آم قلمی بن جاتے ہیں اور ہاں! کبھی حقیقتاً دوسروں کے آم قلمی اور اپنے کاٹھے ہوتے ہیں۔ مگر ہوتے بھی اتنے کہ ختم ہو نہیں پاتے!!!

محبت کے اظہار کے طریقے اتنے مختلف ہیں جتنے کہ محبت کے انداز۔ کوئی گھر میں کنکر پھینک کر اظہار کرتا ہے تو کوئی معصوم بچے کے ہاتھ رقعہ دے کر،شیریں آواز و خوش الحان، گنگنانے کو اس کے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں تو کچھ آنسوؤں سے مدد لیتے ہیں۔ کسی کے چہرے پر سرخی آ جاتی ہے اور کچھ انکھیوں میں سرخ ڈورے سرخ تر ہو جاتے ہیں، اور سر محبت کے بوجھ سے جھک جاتا ہے۔ کہیں چودھویں کا چاند بن کر محبوب کو خاموشی کا سبب جاننے کے لیے اکساتا ہے۔ اور ہاں! کوئی بے دھڑک آتش عشق میں کود کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ کچھ لوگ تو اس کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے...... اسی طرح کچھ پردہ نہیں ہائے اللّہ! کہہ کر دل اور دروازہ دونوں ہی کھول دیتے ہیں!

محبت انسان کو جنوں سے ہم کنار کرتی ہے۔باالفاظ دگر، لوگ محبت میں دیوانے 'بن' جاتے ہیں۔چہرہ پر ابٹن، جسم کی مالش، بالوں میں رنگ کی آویزش، چال میں بانک پن، باتوں میں ٹھہراؤ اور لباس میں تبدیلی آ جاتی ہے۔اگر آدمی 'بدوں بال' ہے تو مجبوری، ورنہ اکثر سر میخانہ سایہ کیے نظر آتے ہیں۔ کچھ کی قمیص کا اوپر کا بٹن کھل جاتا ہے تو کہیں شیروانی کے بٹن لگ جاتے ہیں۔ ہاں!......اگر عمر کچھ نکلتی ہو تو انگریزی سوٹ مناسب لگتے ہیں یا اگر جوانی کی آمد آمد ہے تو سیگریٹ انگلیوں کے درمیان دبانے میں لطف آتا ہے۔ اگر بے چارہ 'محبت کا مارا' رنگ کا کالا اور حالات کا کھایا ہوا ہے تو لذت محبت کی خاطر، چہرہ پر پاوڈر کی کونچی اور جسم پر روئی کی بنڈی استعمال کرتا ہے، اگر اسے ثروت کے قرب نے " اہل پیٹ" میں سے کر دیا ہے تو پھر کمر پٹی (Corsett) کی ضرورت پڑتی ہےبھئی محبت بھی کیا شے ہے؟ مرض ایک مگر ہر مریض کا نسخہ و ترکیب استعمال جدا......زندگی کے رنگ اور نتائج بھی جدا جدا! اور اس کے مقاصد مختلف مگر بچوں سے الفت و مامتا سچی اور حقیقی!

مریض محبت از سرفراز حسین صدیقی (پیراہن خیال)
 
Top