ماں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

ماں




ہو گئے جواں بچے ، بوڑھی ہو رہی ہے ماں
بے چراغ آنکھوں میں خواب بو رہی ہے ماں

روٹی اپنے حصے کی دے کے اپنے بچوں کو
صبر کی ردا اوڑھے بھوکی سو رہی ہے ماں

دیکھ کر بہو کو ، کیا یاد آ گیا اس کو
کن حسین خوابوں میں آج کھو رہی ہے ماں

سانس کی مریضہ ہے پھر بھی ٹھنڈے پانی سے
کتنی سخت سردی میں کپڑے دھو رہی ہے ماں

منتظر نگاہیں ہیں ، لب پہ بس دعائیں ہیں
پل دو پل بھی بچوں سے دور جو رہی ہے ماں

کھیلنے سے جو مجھ کو روکتی تھی مٹی میں
اوڑھ کر وہی مٹی آج سو رہی ہے ماں

غیر کی شکایت پر ، پھر کسی شرارت پر
مار کر مجھے عارف خود بھی رو رہی ہے ماں


(عارف شفیق)


 
Top