ماضی کے گمنام مزار... قلم کمان …حامد میر

میرے سامنے تاریخ بکھری پڑی تھی۔ میں تاریخ کے ان بکھرے ہوئے اوراق میں سے اپنا ماضی تلاش کرنے کی کوشش میں تھا لیکن افسوس کہ ماضی کے کچھ مزار ایسے بھی تھے جن میں دفن بزرگ گمنام ہو چکے ہیں ۔میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ ایسے خوبصورت مزار دیکھے جو گمنام تھے ۔میرے دل میں ایک نامعلوم درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ ایک قوم کو غلام بنانے کیلئے اسکی تاریخ چھیننے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس قوم نے غلامی سے چھٹکارا تو پالیا لیکن اب یہ مظلوم قوم اپنی تاریخ کو دوبارہ تلاش کر رہی ہے اور میں اس لئے غمزدہ تھا کہ اس تاریخ سے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کا بھی بہت گہرا رشتہ ہے ۔ ازبکستان کے شہر ثمرقند میں صحابی رسول حضرت قسام ابن عباس کے مزار کے ارد گرد ایسے کئی مزار اور قبریں موجود ہیں جن پر روسی، ازبک اور انگریزی زبان میں صرف ”نامعلوم “ لکھا ہوا ہے ۔ حضرت قسام ابن عباس اس علاقے میں ”شاہِ زندہ “کے نام سے مشہور ہیں ۔ آپ  ہمارے پیارے نبی کے چچا حضرت عباس  کے صاحبزادے تھے ۔ آپ  کو یہ سعادت حاصل تھی کہ آپ  نے نبی اکرم کو لحد میں اتارا ۔حضرت قسام ابن عباس عالم شباب میں ثمرقند تشریف لائے اور اسلام کی تعلیم پھیلانے لگے ۔ اسلام کے دشمنوں نے ایک دن دوران نماز آپ کو شہید کر دیا لیکن روایات یہ ہیں کہ شہادت کے بعد آپ کا جسم مبارک غائب ہو گیا ۔ اس واقعے کے بعد سے لوگ آپ کو شاہ زندہ  کہنے لگے ۔میں شاہ زندہ  کے مزار پر جناب عطاء الحق قاسمی صاحب اور برادرم جاوید چودھری کے ہمراہ پہنچا تھا ۔ ان دونوں کے اصرار کے باعث مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ شاہ زندہ  کے مزار کا دروازہ کھولا گیا اور مجھے ان کے قدموں میں بیٹھ کر فاتحہ خوانی کا موقع ملا۔شاہ زندہ  کے مزار کے ارد گرد بکھری ہوئی تاریخ کو سابقہ سوویت یونین نے مٹانے کی پوری کوشش کی ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ازبکستان یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلک ( یو ایس ایس آر )کا حصہ تھا اور سٹالن کے حکم پر مسلمانوں کا ان کے دین کے ساتھ ہر رشتہ ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ازبکستان کے مسلمانوں کو صرف شاہ زندہ  پر نہیں بلکہ امام بخاری، امام ترمذی  اور سلسلہ نقشبندیہ کے بانی حضرت بہاؤالدین نقش بند بخاری  کے علاوہ امیر تیمور پر بھی فخر تھا لیکن سابقہ سوویت یونین کے حکمرانوں نے ان تمام شخصیات کے مزاروں اور تعلیمات کو غائب کرنے کی کوشش کی ۔ تاشقند، ثمرقند، خیوا، بخارا، خوارزم، گلستان اور ترمذ سے مسلمانوں کی تاریخ مٹانے کا آغاز ہوا تو ازبکوں نے کچھ مزار اور کتابیں چھپا دیں۔ ان میں قرآن پاک کا وہ نسخہ بھی شامل تھا جسے پڑھتے ہوئے حضرت عثمان غنی  کو شہید کیا گیا ۔ ہرن کی کھال پر لکھے گئے قرآن مجید کے اس نسخے پر حضرت عثمان غنیکے لہو کا رنگ آج بھی موجود ہے ۔ امیر تیمور نے جب بغداد فتح کیا تو وہ اس نسخے کو تاشقند لے آیا ۔ سوویت انقلاب کے بعد اس نسخے کو بچانے کیلئے ازبک مسلمانوں نے تاشقند میں حضرت ھست امام نام بزرگ کے مزار میں اس قرآن کو چھپا دیا۔ 1991ء میں آزادی کے بعد یہ قرآن مجید منظر عام پر لایا گیا اور اب حضرت ھست امام کے مزار سے ملحقہ میوزیم میں یہ نسخہ زائرین کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے ۔
امام بخاری کے مزار کو بھی غائب کرنے کی پوری کوشش کی گئی ۔ ہم امام بخاری  کے مزار پر پہنچے تو ملحقہ مسجد میں ظہر کی اذان ہو رہی تھی ۔ نماز ادا کرنے کے بعد ہم نے اپنے گائیڈ انور کے ذریعہ کوشش کی کہ امام بخاری  کے مزار کا دروازہ کھل جائے اور ہم ان کے زیر زمین مقبرے پر فاتحہ خوانی کر سکیں ۔ کوشش کامیاب ہوئی اور ہم نے امام بخاری  کی قبر کے سرہانے بیٹھ کر فاتحہ اور دعا کی ۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو انور نے بتایا کہ 1954ء میں انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو سابقہ سوویت یونین کے دورے پر آئے تو انہوں نے امام بخاری  کے مزار پر حاضری کی خواہش کا اظہار کیا ۔ سوئیکارنو کو انکار ممکن نہ تھا کیونکہ اس زمانے میں بہت کم مسلمان حکمران سوویت یونین کے اتحادی تھے ۔ سوویت حکومت کی وزارت خارجہ کو کچھ معلوم نہ تھا کہ امام بخاری  کون تھے اور ان کا مزار کہاں تھا ؟ سوئیکارنو نے سوویت حکام کو تمام معلومات فراہم کیں اور پھر وہ ایک نقشے کی مدد سے ثمرقند آیا ۔ اس نے سوویت حکام کو ثمرقند سے 25کلو میٹر دور ہرتانگ نامی گاؤں میں امام بخاری کا مزار ڈھونڈ کر دیا جسے مقامی مسلمانوں نے روسی فوج کی نظروں سے بچا رکھا تھا ۔ بعدازاں سوئیکارنو کی خواہش پر اس مزار کو پرانی حالت میں واپس لانے کی کوشش کی گئی ۔ ازبکستان کے موجودہ صدر اسلام کریموف نے اس مزار کی تعمیر نو پر خاصی توجہ دی ہے ۔ تاشقند اور ثمرقند میں اس بکھری ہوئی تاریخ سے ملاقات کے دوران میری یہ خواہش تھی کہ بخارا، خوارزم اور ترمذ بھی گھوم آؤں لیکن وقت نہیں تھا ۔ میں قاسمی صاحب اور جاوید چودھری کے ہمراہ جمعہ کو اسلام آباد سے ازبکستان ایئر لائنز کے ذریعہ صرف دو گھنٹے میں تاشقند پہنچا۔ اسلام آباد سے تاشقند کا ہوائی سفر اسلام آباد سے کراچی تک پی آئی اے کے ہوائی سفر سے کہیں سستا ہے۔ ہفتہ کی صبح ہم تاشقند سے ٹرین میں بیٹھ کر ثمرقند پہنچے۔ یہاں ہم حضرت قسام ابن عباس  اور امام بخاری  کے مزاروں پر حاضری کے بعد امیر تیمور کے مزار پر پہنچے تو شام ہو چکی تھی ۔ فیصلہ کیا کہ زندگی رہی تو بخارا اور ترمذ کا سفر پھر کبھی کریں گے ۔ اسی شام واپس تاشقند پہنچے ۔ اگلے دن اتوار کو ہماری واپس پاکستان روانگی تھی لیکن اس روانگی سے قبل تاشقند کے امیر تیمور میوزیم کا دورہ انتہائی معلوماتی تھا۔ اس میوزیم میں موجود تاریخ بتا رہی تھی کہ ہندوستان کا بادشاہ ظہیر الدین بابر دراصل امیر تیمور کی نسل سے تھا۔ وہ تیموری تھا مغل نہیں تھا ۔ میوزیم میں ہمیں بریفنگ دینے والے ایک پی ایچ ڈی پروفیسر صاحب کہہ رہے تھے کہ سوویت حکومت اور مغربی حکومتوں نے مل جل کر ہم سے ہماری تاریخ چھین لی ۔ امیر تیمور مغل نہیں تھا۔ مغل دراصل منگول تھے ۔
امیر تیمور نے منگولوں سے لڑائی کی ۔منگول حکمرانوں کے نام کے ساتھ خان آتا تھا۔ تیموری حکمرانوں کے نام کے ساتھ مرزا یا بیگ آتا تھا ۔ یہاں بابر کا پورا نام ظہیر الدین بابر مرزا لکھا ہوا تھا ۔ اسے ہندوستان کے بادشاہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک بڑے شاعر کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ امیر تیمور میوزیم میں موجود تاریخ کے مطابق ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا تصور غلط ہے ۔ شائد ہندوستان کے انگریز حکمرانوں نے بھی جان بوجھ کر بابر کو مغل بنا دیا تاکہ اس کا رشتہ منگولوں سے جوڑ دیا جائے ۔ انگریزوں نے بابر کا رشتہ امیر تیمور سے اس لئے توڑا کیونکہ وہ حافظ قرآن تھا ۔ تیمور نے بھی کئی مسلمان حکمرانوں کی طرح اپنے ہم عصر مسلمان حکمرانوں کے ساتھ لڑائیاں کیں اور سفاکی بھی دکھائی لیکن بہرحال وہ مسلمان تھا ۔ آج ازبکستان کے مسلمان اپنی گمشدہ تاریخ کو دوبارہ تلاش کر رہے ہیں اور ہمیں بھی اپنی تاریخ کو درست کرنے کی ضرورت ہے جب تک ہم اپنے اصلی ماضی کو تلاش نہیں کریں گے ہمارا حال شناخت کے بحران میں پھنسا رہے گا۔ اپنی آزادی کو محفوظ بنانے کیلئے اپنی تاریخ کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے ۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 
Top