اقتباسات ماسی گل بانو احمد ندیم قاسمی

سیما علی

لائبریرین
اس کے قدموں کی آواز بالکل غیر متوازن تھی، مگر اس کے عدم توازن میں بھی بڑا توازن تھا۔ آخر بے آہنگی کا تسلسل بھی تو ایک آہنگ رکھتا ہے۔ سو، اس کے قدموں کی چاپ ہی سے سب سمجھ جاتے تھے کہ ماسی گل بانو آ رہی ہے۔ گل بانو ایک پاؤں سے ذرا لنگڑی تھی۔ وہ جب شمال کی جانب جا رہی ہوتی تو اس کے بائیں پاؤں کا رخ تو شمال ہی کی طرف ہوتا مگر دائیں پاؤں کا پنجہ ٹھیک مشرق کی سمت رہتا تھا۔ یوں اس کے دونوں پاؤں زاویہ قائمہ سا بنائے رکھتے تھے اور سب زاویوں میں یہی ایک زاویہ ایسا ہے جس میں ایک توازن، ایک آہنگ، ایک راستی ہے۔ سو گُل بانو کا لنگڑا پن کجی میں راستی کا ایک چلتا پھرتا ثبوت تھا۔

گُل بانو جب چلتی تھی تو دائیں پاؤں کو اٹھاتی اور بائیں کو گھسیٹتی تھی۔ اس بے ربطی سے وہ ربط پیدا ہوتا تھا جس کی وجہ سے لوگ گُل بانو کو دیکھے بغیر پہچان لیتے تھے۔ عورتیں اندر کوٹھے میں بیٹھی ہوتیں اور صحن میں قدموں کی یہ منفرد چاپ سنائی دیتی تو کوئی پکارتی، ادھر آ جا ماسی گُل بانو، ہم سب یہاں اندر بیٹھے ہیں۔ اور ماسی کا یہ معمول سا تھا کہ وہ دہلیز پر نمودار ہو کر اپنی ٹیڑھی میڑھی لاٹھی کو دائیں سے بائیں ہاتھ میں منتقل کر کے دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت سے اپنی ناک کو دہرا کرتے ہوئے کہتی، ہائے تو نے کیسے بھانپ لیا کہ میں آئی ہوں۔ سبھی بھانپ لیتے ہیں۔ سبھی سے پوچھتی ہوں پر کوئی بتاتا نہیں۔ جانے میں تم لوگوں کو اتنی موٹی موٹی دیواروں کے پار بھی کیسے نظر آجاتی ہوں۔ بس ماسی، چل جاتا ہے پتہ۔ پکارنے والی عورت کہتی، تم سے پہلے تمہاری خوشبو پہنچ جاتی ہے۔ اور گُل بانو مسکرانے لگتی۔
آج تک گُل بانو کو سچی بات بتانے کا حوصلہ کسی نے نہیں کیا تھا۔ دراصل اس سے سب ڈرتے تھے اور اس کے بارے میں عجیب عجیب باتیں مدتوں سے مشہور تھیں۔ ادھیڑ عمر کسان بتاتے تھے کہ انہوں نے ماسی گُل بانو کو ہمیشہ اسی حالت میں دیکھا ہے کہ ہاتھ میں ٹیڑھی میڑھی لاٹھی ہے اور وہ ایک پاؤں اٹھاتی اور دوسرا گھسیٹتی دیواروں کے ساتھ لگی لگی چل رہی ہے۔ مگر گاؤں کے بعض بوڑھوں کو یاد تھا کہ گُل بانو جوان ہو رہی تھی تو اس کی ماں مر گئی تھی، باپ کھیت مزدور تھا۔ بیوی کی زندگی میں تو تین تین مہینے تک دور دراز کے گاؤں میں بھٹک سکتا تھا مگر اب جوان بیٹی کو اکیلا چھوڑ کر کیسے جاتا۔ پھر جب وہ کماتا تھا تو جب بھی ایک وقت کا کھانا کھا کر اور دوسرے وقت پانی پی کر زندہ تھا مگر اب کیا کرتا۔ کٹائی کے موسم کو تو جبڑا بند کر کے گزار گیا مگر جب دیکھا کہ فاقوں سے گُل بانو نچڑی جا رہی ہے تو اگلے موسم میں وہ گُل بانو کو ساتھ لے کر دور کے ایک گاؤں میں فصلوں کی کٹائی کرنے چلا گیا۔
وہیں کا ذکر ہے کہ ایک دن اس نے زمیندار کے ایک نوجوان مزارعے بیگ کو کھلیان پر کٹی ہوئی فصل کی اوٹ میں گُل بانو کی طرف بازو پھیلائے ہوئے دیکھا۔ اس گاؤں میں اسے ابھی چند روز ہوئے تھے۔ اس وقت اس کے ہاتھ میں درانتی تھی، اس کی نوک بیگ کے پیٹ پر رکھ دی اور کہا کہ میں تیری انتڑیاں نکال کر تیری گردن پر ڈال دوں گا۔ پھر گُل بانو نے باپ کے درانتی والے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا اور کہا، ”بابا! یہ تو مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں تجھ سے شادی کروں گا اور میں کہہ رہی تھی کہ پھر مجھے پیار بھی شادی کے بعد کرنا۔ اس سے پہلے کرو گے تو خدا خفا ہو جائے گا۔‘‘

اقتباس از
ماسی گل بانو احمد ندیم قاسمی
 
آخری تدوین:
Top