ماسٹر

صابرہ امین

لائبریرین
ماسٹر
قد کے معاملے میں انشاء کے قول کی مثال کہ ٹانگیں زمیں تک پہنچ جائیں اور دیکھنے میں یوسفی کے اس قول کی زندہ تصویر کہ کبھی کسی بڑے آدمی کا سایہ تک نہیں پڑنے پایا۔مگر آدمی بہت خاص۔ یوں سمجھیئے کہ ارسطو ، بقراط اور سقراط جن مضامین میں کمزور تھے یہ حضرت ان میں ید طولی رکھتے تھے۔ ایک بار اک جاہل مطلق کواسکا مطلب سمجھانے بیٹھے تو فرمانے لگے کہ بھائی قانون کے لمبے ہاتھوں والی بات ہی سمجھو۔ اس تشریح پر ہم کافی دیر تک سر دھنتے رہے۔ آخرخود ہی تنگ آ کر کہنے لگے کہ میاں بس کچھ احباب سمجھ رہے ہیں تم لوگوں نے بوٹی پی رکھی ہے۔
پہلی ملاقات میں ہی میں انکا معتقد ہوگیا۔ اور ۶۰ گز پگڑی پیش کر دی۔ فرمانے لگے کہ ہماری غریب قامتی کا اس سے زیادہ مذاق آج تک کسی نے نہیں اڑایا۔ ناراض ہو گئے۔راقم نے اس گستاخی کےازالہ کے لیئے پگڑی واپس لینی چاہی تو باقاعدہ ناراض ہو گئے۔اک دن وجد میں آکر فرمانے لگے میاں تم دنیا کے واحد خوش نصیب آدمی ہو جو پہلی بار میں ہی معتقد ہوئے ورنہ لوگ اس کام میں برسوں لگا دیتے۔
نظریات بہت ہٹے ہوئے۔ اکثر راہ راست سے ۔ اک بار کہنے لگے کہ ہم اس سے ہٹ کر چلتے ہیں جو راستہ عام ہو جائے۔ اور اسکی عملی تصویر یوں پیش کی کہ ہمیں ساتھ لے کر جو اقبال پارک کے لیئے نکلے تو پورا لاہور پھروا دیا۔ واپسی پر اک گستاخ نے اسقدر طویل راستے سے بچنے کے لیئے اک راہگیر سے راستہ پوچھا تو وہ یوں بتانے کھڑا ہو گیا گویا راستہ بتانے کے لیئے ترسا ہوا ہو۔ کہنے لگا بھائی یہاںسامنے سے بس پر بیٹھیئے اور سیدھے جا پہنچیئے۔ہمارا ایمان تو متزلزل نہ ہوا مگر اس حرکت سے اک بنا بنایا مرید جاتا رہا۔ کئی سال بعد جب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو بہت رویااور معافی مانگی۔ ماسٹر نے اسے کھلے دل سےمعاف کر دیا مگر راستوں کے بارے رہنمائی فرمانے سے انکاری ہو گئے۔سنا ہے کہ وہ راہ چلتے چلتے راستہ بھول جاتا تھا۔ واللہ اعلم
دوستوں کی محفل میں بیٹھنے سے گریز کرتے۔ کم مرتبہ لوگ اکثر شان میں گستاخی کر دیتے مگر ماسٹر کی پیشانی پر کبھی بل نہ آیا۔ ہمیشہ کھلے دل سے سب سنا۔ بسا اوقات جب راقم کی محبت جاگتی اور وہ جواب دینےکی کوشش کرتا تو منع کردیتے۔کہتے انکی زبان درازی کی بجائے تمہاری تصریحات تکلیف دیتی ہیں۔ ایسی ہی اک محفل میں اک بار اک گستاخ رانجھے کی قربانیوں کا تذکرہ بڑے زوروشور سے کر رہا تھا۔ کچھ دیر سنتے رہے ۔ آخر کان پھڑکنے لگے اور پھر خود بھی۔ برداشت نہ ہوا اور اسے خوب جھاڑ پلائی۔ فرمانے لگے جھوٹے تھے سب ۔ کام چور تھا رانجھا۔ بھینسیں بھی نہیں چراتا تھا الٹا مالکوں کی ہی لڑکی پر ڈورے ڈالنے لگا۔ انہوں نے نکال دیا تو جوگی بن کر مانگ مانگ کھانے لگا۔ کام پھر نہ کیا۔ مہینوال اتنا کمینہ تھا کہ دریا کنارے بیٹھا رہتا اور کبھی تیر کر ادھر آنے کی ہمت نہ کی۔ سوہنی جب ڈوب کر مر رہی تھی تو دوسرے کنارے بیٹھا دیکھتا رہا۔ اور پھر کسی اور تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اک بخت برگشتہ نے لقمہ دیا کہ اس نے بھی سنا ہے چھلانگ لگا دی تھی تو سیخ پا ہو کر کہنے لگے۔ کہاں چھلانگ لگا دی تھی۔ ڈٹھے کھوہ میں؟ یہ نظارہ چشم فلک نے تو نہیں دیکھا۔ پنوں کو تو ہمیشہ ہی گالیاں دیتے۔ فرماتے تھے کہ وہاںوقت گزاری کے لیئے سسی سے گپیں مار رہا تھا کہ پیچھے گاوں سے یار لوگ آدھمکے اوئے چل یارا واپس۔ نکل کھڑا ہوا کہ ہم تو پردیسی ہیں بھائی۔ مجنوں کا ذکر جن الفاظ میں کرتے راقم الحروف ان کو کسی بھی طرح کے اشاعتی جملے میں بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اور مرزا پر تو خاص شفقت فرماتے۔
بےنیازی اس قدر تھی کہ اکثر نیازی انہیں اپنا دشمن خیال کرتے۔ درویشی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ گماں ہے کہ فرشتے تو ابھی اور کوٹ رہے تھے پر موصوف دنیا میں رونق افروز ہو گئے۔ غائب ہوتے تو کئی کئی دن پتہ نہ ملتا۔ مگر رمز شناس خوب سمجھتے تھے کہ کہاں ملیں گے اور جا دبوچتے تھے۔ گرچہ آپ ایسے موقعوں پر پہچاننے سے انکاری ہو جاتے تھے مگر احباب کا بھی آزمودہ نسخہ تھا کہ چند قطرے عرق لیموں یادداشت واپس لانے کا بہترین حل ہے۔ زمانہ تو اور بھی خرافات پر تہمت نصیب گردانتا ، مگر لوگ کہتے ہیں تو کیا سچ کہتے ہونگے کہ مصداق ہم نے ہمیشہ نظریں پھیر لیں۔ اسی معاشرے کو سدھارنے کے لیئے کچھ عرصہ شعبہ تدریس سے بھی منسلک رہے۔ مگر جلد ہی مایوس ہو گئے ؛ کہنے لگے کہ یہ قوم نہیں ترقی کر سکتی جب تک پڑی لکڑی اٹھانے کی عادت نہیں جاتی۔ اور بات پرنسپل کا سر پھٹنے پر ختم ہوگئی۔ عینی شاہدین کی خرافات گوئی کے باوصف بھی راقم الحروف کی عقیدت میں کوئی کمی نہ آئی۔ اور ثابت قدمی سے شاگردی جاری رکھی۔
شاعری سے بھی شغف تھا۔ مگر عشق مجازی کو بنیاد قرار دیتے تھے۔ مدت گزر جانے پر بھی بنیاد میں ہی مستغرق پا کر حفظ مراتب کو مدنظر رکھ کر جی کڑا کے عرض گزاری کہ قبلہ کچھ بنیاد پر اب تعمیر بھی کیجیئے۔ یہ بنیاد در بنیاد تو اب بلندی میں کے-ٹو کو بھی مات کر رہی۔ تو خلاؤں میں گھورنے لگے۔ پھر سامنے دیکھ کر کہا کہ شیفتہ کی بھی کیا خوب غزل ہے۔ میں نے فورا نگاہوں کے تعاقب میں دیکھاتو عرض کرنا پڑی کہ یہ شیفتہ کی نہیں ، خلاق اعظم کی غزل ہے۔ تو بے اختیار سر دھننے لگے اور فرمایا یہ قافیہ ردیف دنیاوی شاعروں سے ممکن ہی کہاں تھا۔ علم عروض پر کمال دسترس تھی اور وجہ گاؤں کے تمام پٹواریوں سے یارانہ بتاتے تھے۔
منہ کا ذائقہ بدلنے کو ملازمت بھی کرتے تھے۔ مگر سال کا زیادہ حصہ موزوں ملازمت تلاشنے میں گزارتے۔ ۶سال گزرنے پر بھی مبتدی کے عہدے سے آگے نہ بڑھے۔ تو اک زباں دراز نے کہا ابھی تک ابجد خواں؟ اس پر تحمل اور بے نیازی دیکھنے لائق تھی۔ کمال سکون سے فرمانے لگے۔ کہ پہلے اس شعبہ میں رنگروٹ تھے۔ پھر اس شعبہ میں، پھر اس میں۔ اور آج کل اس میں مبتدی ہیں۔ اکثر لوگ جب کچھ عرصہ بعد ملتے تو پوچھتے کہ آجکل کس شعبہ کو مشق ستم بنا رکھا ہے۔ ایسے میں ماسٹر کے آنکھوں میں اک عجیب سی چمک آجاتی۔ اور چہرہ نور پورہ کی مثال پیش کرنے لگتا۔
ماسٹر کی زندگی کو صفحہ قرطاس پر ابھارنے کے لیئے بھی اک زندگی چاہیئے۔ انشاءاللہ اگلے کسی مضموں میں مخطوطات ماسٹر کا احاطہ کیا جائے گا۔
بہت مزیدار تحریر!! ماشا اللہ۔۔ آپ کو تو لکھتے رہنا چاہئیے نیرنگ خیال بھائی۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت محبت احمد بھائی۔۔۔ اب آگیا تبصرہ۔۔۔ تحریر مکمل ہوگئی۔۔۔
❤️ ❤️ ❤️
احمد بھائی۔۔۔ اس بار کوشش کروں گا کہ یکم جنوری والی تحریر تو لازمی لکھوں۔
واہ! زبردست! یہ کمٹمنٹ ہونی چاہیے۔

ان شاء اللہ ! اللہ تعالیٰ سبیل بنا دے گا۔
 
Top