احمد ندیم قاسمی قطعات

Umair Maqsood

محفلین
ماحول کے خول سے نکل کر
یہ نکتہ سمجھتے کاش! ہم لوگ
ہر فرد کے اَن گِنت خُدا ہیں

اب تک ہیں صَنم تراش، ہم لوگ
 
آخری تدوین:

Umair Maqsood

محفلین
میرے ماضی کے لمحے لمحے کا
جتنا پھیلاؤ تھا، سمٹنے لگا
حرف ڈوُبے ہُوئے، اُبھرنے لگے
وقت جاتا ہُوا، پلٹنے لگا
 

Umair Maqsood

محفلین
ذرۂِ خاک میں ادراک کی حدت بھر کر
اپنی تخلیق کے شُعلوں میں نہ جَل جاؤں کہیں
روشنی ہی سہی اس دور کی تہذیب کا اُوج
موم کی طرح چمک کر نہ پگھل جاؤں کہیں
 

Umair Maqsood

محفلین
تو میرا شعور میرا وجدان
تو میرا یقین میرا ایمان
میں تیری سپردگی کا معیار

تو میری پرستشوں کی پہچان
 

Umair Maqsood

محفلین
آدمی جو ہَوا سے بھی نِکل جائیں گے
چاند پر عَظمتِ آدم کا عَلم لہرانے
قابلِ داد ہے یہ جراءتِ پرواز مگر

چاندنی کو بھی کہیں بانٹ نہ لیں دیوانے
 

Umair Maqsood

محفلین
چاند نکلا ہے سرِ بام لبِ بام آؤ
دل میں اندیشۂ انجام نہ آنے پائے
کچھ اس انداز سے اُترو میری تنہائی میں

کھوج میں گردشِ ایام نہ آنے پائے
 

Umair Maqsood

محفلین
یوں مرے ذہن میں لرزاں ہے ترا عکسِ جمیل
دلِ مایوس میں یوں گاہے ابھرتی ہے آس
ٹمٹماتا ہے وہ نوخیز ستارا جیسے

دور مسجد کے اس ابھرے ہوئے مینار کے پاس
 

Umair Maqsood

محفلین
یہ فضا، یہ گھاٹیاں، یہ بدلیاں یہ بوندیاں
کاش اس بھیگے ہوئے پربت سے لہراتی ہوئی
دھیرے دھیرے ناچتی آئے صبوحی اور پھر

گھل کے کھو جائے کہیں میری غزل گاتی ہوئی
 

Umair Maqsood

محفلین
وہ تار کے اک کھمبے پہ بیٹھی ہے ابابیل
اڑنے کے لئے دیر سے پر تول رہی ہے
جس طرح میرے عشق کی ٹوٹی ہوئی کشتی

امید کے ساحل پہ کھڑی ڈول رہی ہے
 

Umair Maqsood

محفلین
میں نے اس دشت کی وسعت میں شبستاں پائے
اس کے ٹیلوں پہ مجھے قصر نظر آئے ہیں
ان ببولوں میں کسی ساز کے پردے لرزے

ان کھجوروں پہ میرے راز ابھر آئے ہیں
 

Umair Maqsood

محفلین
ممکن ہے فضاؤں سے خلاؤں کے جہاں تک
جو کچھ بھی ہو آدم کا نشانِ کفِ پا ہو
ممکن ہے کہ جنت کی بلندی سے اتر کر

انسان کی عظمت میں اضافہ ہی ہوا ہو
 

Umair Maqsood

محفلین
مری شکست پہ اک پرتو جمال تو ہے
میں کیوں نہ عظمت افتادگی پہ اتراؤں
تجھی سے ہے مری آسودہ خاطری کا بھرم

تیرے غموں کا خزانہ چِھنے تو لُٹ جاؤں
 

Umair Maqsood

محفلین
لڑکیاں چنتی ہیں گیہوں کی سنہری بالیاں
کاٹتے ہیں گھاس مینڈھوں پر سے بانکے نوجواں
کھوئی کھوئی ایک لڑکی بیریوں کی چھاؤں میں

دیکھتی ہے گھاس پر لیٹی ہوئی جانے کہاں
 

Umair Maqsood

محفلین
گورے ہاتھوں میں یہ دھانی چوڑیوں کی آن بان
کالی زلفوں پر گلابی اوڑھنی کی آب و تاب
ہر قدم پر نقرئی خلخال کے نغموں کی لہر

تیرے پیکر میں مجسم ہو گئی روحِ شباب
 

Umair Maqsood

محفلین
گلی کے موڑ پہ بچوں کے ایک جمگھٹ میں
کسی نے درد بھرے لے میں ماہیا گایا
مجھے کسی سے محبت نہیں مگر اے دل

یہ کیا ہوا کہ تو بے اختیار بھر آیا
 

Umair Maqsood

محفلین
گلوں میں رنگ تو تھا رنگ میں جلن تو نہ تھی
مہک میں کیف تو تھا کیف میں جنوں تو نہ تھا
بدل دیا ترے غم نے بہار کا کردار

کہ اب سے قبل چمن کا مزاج یوں تو نہ تھا
 

Umair Maqsood

محفلین
گرتی ہوئی بوندیں ہیں کہ پارے کی لکیریں
بادل ہے کہ بستی پہ گجردم کا دھواں ہے
مغموم پپیہا ہے کہ بھٹکا ہوا شاعر

جو پوچھتا پھرتا ہے کہاں ہے تو کہاں ہے
 

Umair Maqsood

محفلین
گائیں ڈکراتی ہوئی پگڈنڈیوں پر آ گئیں
مرلیاں ہاتھوں میں لے کر مست چرواہے بڑھے
بیریوں کے دھندلے سایوں میں کھڑا ہوں منتظر

ایک لڑکی کا گزرنا ہے یہاں سے دن چڑھے
 

Umair Maqsood

محفلین
کئی برس سے ہے ویران مرغزار شباب
اب التفات کے بادل برس رہے ہیں کیوں؟
یہ بوندیاں، یہ پھواریں، یہ رس بھرے جھونکے

توقعات کی نعشوں کو ڈس رہے ہیں کیوں؟
 

Umair Maqsood

محفلین
کھڑکھڑاتی ڈول وہ دھم سے کنویں میں گر گئی
دم بخود پنہاریاں کنگن گھماتی رہ گئیں
وہ کنویں میں ایک چرواہا اترنے کو بڑھا

وہ صبوحی کی نگاہیں مسکراتی رہ گئیں
 
Top