فارسی شاعری قصرِ جنت چہ کنم کوچہ یارے دارم --- یکے از اہلِ نسبت

الف نظامی

لائبریرین
قصرِ جنت چہ کنم کوچہ یارے دارم
ترسِ دوزخ چہ کنم رُوئے نگارے دارم

ہمچو مجنوں بہ تمنائے وصالِ لیلی
روز و شب چشم سُوئے ناقہ سوارے دارم

ہمچو منصورِ زماں فاش انا الحق گویم
شکر صد شکر کہ سر لائقِ دارے دارم

ہمچو زاہد نہ کنم خواہشِ باغِ جنت
خوشتر از باغِ جناں کوچہ یارے دارم

می رَوَم ، نالہ کنم مثلِ بلالِ حبشی (رضی اللہ عنہ)
شوقِ پا بوسی آں ناقہ سوارے دارم
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ بھی لاجواب غزل ہے نظامی صاحب، اور ترجمہ آپ کی خواہش پر :)

قصرِ جنّت چہ کُنَم کوچۂ یارے دارَم
ترسِ دوزخ چہ کنم رُوئے نگارے دارم

میں جنت کے محلوں کو کیا کروں کہ یار کا کوچہ رکھتا ہوں (کوچے میں ہوں)، دوزخ کا غم کیا کروں کہ ہمارے سامنے تو فقط محبوب کا چہرہ ہے (اسی میں گم ہیں)!

ہمچو مجنوں بہ تَمَنّائے وصالِ لیلیٰ
روز و شب چشم سُوئے ناقہ سوارے دارم

مجنوں کی طرح لیلیٰ کے وصال کی تمنا لیے، دن رات میں تو اپنی نظر ناقہ سواروں پر ہی رکھتا ہوں (کہ کسی روز لیلی کا دیدار ہو جائے)!

ہمچو منصورِ زماں فاش انا الحق گویم
شکر صد شکر کہ سر لائقِ دارے دارم

زمان (و مکان) کے راز فاش کرنے والے منصور کی طرح میں بھی انا الحق ہی کہتا ہوں، شکر صد شکر ہے کہ میں بھی ایسا سر رکھتا ہوں جو دار کے قابل ہے!


ہمچو زاہد نہ کُنَم خواہشِ باغِ جنّت
خوشتر از باغِ جناں کوچۂ یارے دارم

زاہد کی طرح مجھے جنت کے باغات کی خواہش نہیں ہے، کہ ہمارے یار کا کوچہ (جہاں میں ہوں) ان سے بہتر ہے!


می رَوَم ، نالہ کُنَم مثلِ بلالِ حبشی
شوقِ پا بوسیِ آں ناقہ سوارے دارم

میں بلالِ حبشی (رض) کی طرح آہ و فغاں و نالہ کرتے ہوئے جا رہا ہوں کہ میں بھی اس ناقہ سوار (ص) کی پا بوسی کا شوق رکھتا ہوں!
 

الف نظامی

لائبریرین
بہت شکریہ محمد وارث صاحب۔ اب اس غزل پر سید نصیر الدین نصیر کی تضمین ملاحظہ ہو:

باغم و دردِ محبت سروکارے دارم
ہست صد داغ بہ دل ، باغ و بہارے دارم
عزِ شاہی برہش گرد و غبارے دارم
قصرِ جنت چہ کنم کوچہ یارے دارم
ترسِ دوزخ چہ کنم رُوئے نگارے دارم

نقش بر لوحِ دلم شُد خد و خالِ لیلی
وقف شد دیدہ شوقم بجمالِ لیلی
از خودم بے خبر و محوِ خیال لیلی
ہمچو مجنوں بہ تمنائے وصالِ لیلی
روز و شب چشم سُوئے ناقہ سوارے دارم

اُو نہاں در دل و من خانہ بخانہ جویم
پا ز سر ساختہ و راہِ محبت پویم
ہستیم نیست شُدہ ، عکسِ جمالِ اُویم
ہمچو منصورِ زماں فاش انا الحق گویم
شکر صد شکر کہ سر لائقِ دارے دارم

دیگراں راست بدل حسرت و داغِ جنت
من ندارم سرِ سودا و دماغِ جنت
نے مرا فرصتِ نار و فراغِ جنت
ہمچو زاہد نہ کنم خواہشِ باغِ جنت
خوشتر از باغِ جناں کوچہ یارے دارم


اے نصیر از دلِ من محو شدہ رنج و خوشی
دارم از خلقِ جہاں وحشت و بیگانہ وشی
روز و شب من بہ تمنائے رسولِ قرشی
می رَوَم ، نالہ کنم مثلِ بلالِ حبشی (رضی اللہ عنہ)
شوقِ پا بوسی آں ناقہ سوارے دارم
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ نظامی صاحب، یہ تضمین بھی لا جواب ہے!

آج آپ نے فون پر سید نصیر الدین نصیر صاحب کے فارسی مجموعے کا ذکر کیا، تب سے دل بیتباب ہو ہو جا رہا ہے! لیکن کاش سید صاحب اس میں ترجمہ بھی شامل کر دیتے کہ مجھے کلام سے لطف اندوز ہونے کی فرصت بھی ملتی :)
 

الف نظامی

لائبریرین
شکریہ نظامی صاحب، یہ تضمین بھی لا جواب ہے!

آج آپ نے فون پر سید نصیر الدین نصیر صاحب کے فارسی مجموعے کا ذکر کیا، تب سے دل بیتباب ہو ہو جا رہا ہے! لیکن کاش سید صاحب اس میں ترجمہ بھی شامل کر دیتے کہ مجھے کلام سے لطف اندوز ہونے کی فرصت بھی ملتی :)

پسندیدگی کا بہت شکریہ۔
سید نصیر الدین نصیر اپنی ایک تقریر میں میرزا عبدالقادر بیدل کے اشعار کی شرع کے بعد فرما رہے تھے کہ کس کو سنائیں ہم یہ باتیں ، جبکہ قوم اپنی ثقافت ، شعر و ادب سے بیگانہ ہو چکی ہے۔ فارسی تو کیا اردو بھی لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
درست فرمایا سید صاحب نے، لیکن دیوانے خال خال تو ہو سکتے ہیں ناپید نہیں :)

با غم و دردِ محبت سروکارے دارَم
ہست صد داغ بہ دل، باغ و بہارے دارم
عزِّ شاہی بَرَہَش گرد و غبارے دارم
قصرِ جنت چہ کنم کوچہ یارے دارم
ترسِ دوزخ چہ کنم رُوئے نگارے دارم

مجھے تو صرف محبت کے غم اور درد ہی سے سروکار ہے۔
میرے دل پر سینکڑوں (داغِ محبت) ہیں، گویا کہ دل پر باغ و بہار ہے!
میرے لیے شاہی عزت و جاہ اسکی راہ میں گرد و غبار کی مانند ہیں
میں جنت کے محلوں کو کیا کروں کہ یار کا کوچہ رکھتا ہوں (کوچے میں ہوں)!
میں دوزخ کا غم کیا کروں کہ ہمارے سامنے تو فقط محبوب کا چہرہ ہے (اسی میں گم ہیں)!



نقش بر لوحِ دلَم شُد خد و خالِ لیلی
وقف شد دیدۂ شوقم بجمالِ لیلی
از خودم بے خبر و محوِ خیال لیلی
ہمچو مجنوں بہ تمنائے وصالِ لیلی
روز و شب چشم سُوئے ناقہ سوارے دارم

میرے دل کی لوح پر لیلیٰ کے خد و خال نقش ہو چکے ہیں!
میرا شوقِ نظر (صرف اور صرف) لیلیٰ کے جمال کیلیے وقف ہو چکا ہے۔
میں خود سے بے خبر ہوں اور لیلیٰ کے خیال میں محو ہوں
مجنوں کی طرح لیلیٰ کے وصال کی تمنا لیے
دن رات میں تو اپنی نظر ناقہ سواروں پر ہی رکھتا ہوں (کہ کسی روز لیلی کا دیدار ہو جائے)!


اُو نہاں در دل و من خانہ بخانہ جویَم
پا ز سر ساختہ و راہِ محبت پویَم
ہستِیَم نیست شُدہ، عکسِ جمالِ اُویَم
ہمچو منصورِ زماں فاش انا الحق گویَم
شکر صد شکر کہ سر لائقِ دارے دارم

وہ دل میں نہاں ہے اور میں اسے خانہ بخانہ ڈھونڈتا ہوں
میں نے اپنے سر کو پاؤں بنا لیا ہے اور محبت کی راہ میں گامزن ہوں (راہِ محبت میں سر کے بل چل رہا ہوں)
میری ہستی ختم ہو چکی ہے (اور اب) میں اسی کے جمال کا عکس ہوں۔
زمان (و مکان) کے راز فاش کرنے والے منصور کی طرح میں بھی انا الحق ہی کہتا ہوں۔
شکر صد شکر ہے کہ میں بھی ایسا سر رکھتا ہوں جو دار کے قابل ہے!


دیگراں راست بدل حسرت و داغِ جنت
من ندارم سرِ سودا و دماغِ جنت
نے مرا فرصتِ نار و فراغِ جنت
ہمچو زاہد نہ کنم خواہشِ باغِ جنت
خوشتر از باغِ جناں کوچہ یارے دارم

دوسروں کیلیے دل میں جنت کی حسرت و خواہش درست ہوگی
مگر میرے سر میں نہ تو جنت کا کوئی سودا ہے اور نہ مجھے اسکا دماغ ہے
اور نہ مجھے جنت کے اناروں یعنی تعیشات (نار: مخففِ انار) اور وہاں کے خوشحالی کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہے!
زاہد کی طرح مجھے جنت کے باغات کی خواہش نہیں ہے،
کہ ہمارے یار کا کوچہ (جہاں میں ہوں) ان سے بہتر ہے!



اے نصیر از دلِ من محو شدہ رنج و خوشی
دارم از خلقِ جہاں وحشت و بیگانہ وَشی
روز و شب من بہ تمنائے رسولِ قُرَشی
می رَوَم ، نالہ کنم مثلِ بلالِ حَبَشی
شوقِ پا بوسی آں ناقہ سوارے دارم

اے نصیر میرے دل سے رنج اور خوشی دونوں محو ہو چکے ہیں
خلق جہاں سے میں دور اور بیگانہ ہو چکا ہوں
میرے روز و شب تو فقط رسولِ قریشی (ص) کی تمنا ہی میں گزرتے ہیں!
میں تو بلالِ حبشی (رض) کی طرح آہ و فغاں و نالہ کرتے ہوئے جا رہا ہوں
کہ میں بھی اس ناقہ سوار (ص) کی پا بوسی کا شوق رکھتا ہوں
 

الف نظامی

لائبریرین
درست فرمایا سید صاحب نے، لیکن دیوانے خال خال تو ہو سکتے ہیں ناپید نہیں :)

با غم و دردِ محبت سروکارے دارَم
ہست صد داغ بہ دل، باغ و بہارے دارم
عزِّ شاہی بَرَہَش گرد و غبارے دارم
قصرِ جنت چہ کنم کوچہ یارے دارم
ترسِ دوزخ چہ کنم رُوئے نگارے دارم

مجھے تو صرف محبت کے غم اور درد ہی سے سروکار ہے۔
میرے دل پر سینکڑوں (داغِ محبت) ہیں، گویا کہ دل پر باغ و بہار ہے!
میرے لیے شاہی عزت و جاہ اسکی راہ میں گرد و غبار کی مانند ہیں
میں جنت کے محلوں کو کیا کروں کہ یار کا کوچہ رکھتا ہوں (کوچے میں ہوں)!
میں دوزخ کا غم کیا کروں کہ ہمارے سامنے تو فقط محبوب کا چہرہ ہے (اسی میں گم ہیں)!



نقش بر لوحِ دلَم شُد خد و خالِ لیلی
وقف شد دیدۂ شوقم بجمالِ لیلی
از خودم بے خبر و محوِ خیال لیلی
ہمچو مجنوں بہ تمنائے وصالِ لیلی
روز و شب چشم سُوئے ناقہ سوارے دارم

میرے دل کی لوح پر لیلیٰ کے خد و خال نقش ہو چکے ہیں!
میرا شوقِ نظر (صرف اور صرف) لیلیٰ کے جمال کیلیے وقف ہو چکا ہے۔
میں خود سے بے خبر ہوں اور لیلیٰ کے خیال میں محو ہوں
مجنوں کی طرح لیلیٰ کے وصال کی تمنا لیے
دن رات میں تو اپنی نظر ناقہ سواروں پر ہی رکھتا ہوں (کہ کسی روز لیلی کا دیدار ہو جائے)!


اُو نہاں در دل و من خانہ بخانہ جویَم
پا ز سر ساختہ و راہِ محبت پویَم
ہستِیَم نیست شُدہ، عکسِ جمالِ اُویَم
ہمچو منصورِ زماں فاش انا الحق گویَم
شکر صد شکر کہ سر لائقِ دارے دارم

وہ دل میں نہاں ہے اور میں اسے خانہ بخانہ ڈھونڈتا ہوں
میں نے اپنے سر کو پاؤں بنا لیا ہے اور محبت کی راہ میں گامزن ہوں (راہِ محبت میں سر کے بل چل رہا ہوں)
میری ہستی ختم ہو چکی ہے (اور اب) میں اسی کے جمال کا عکس ہوں۔
زمان (و مکان) کے راز فاش کرنے والے منصور کی طرح میں بھی انا الحق ہی کہتا ہوں۔
شکر صد شکر ہے کہ میں بھی ایسا سر رکھتا ہوں جو دار کے قابل ہے!


دیگراں راست بدل حسرت و داغِ جنت
من ندارم سرِ سودا و دماغِ جنت
نے مرا فرصتِ نار و فراغِ جنت
ہمچو زاہد نہ کنم خواہشِ باغِ جنت
خوشتر از باغِ جناں کوچہ یارے دارم

دوسروں کیلیے دل میں جنت کی حسرت و خواہش درست ہوگی
مگر میرے سر میں نہ تو جنت کا کوئی سودا ہے اور نہ مجھے اسکا دماغ ہے
اور نہ مجھے جنت کے اناروں یعنی تعیشات (نار: مخففِ انار) اور وہاں کے خوشحالی کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہے!
زاہد کی طرح مجھے جنت کے باغات کی خواہش نہیں ہے،
کہ ہمارے یار کا کوچہ (جہاں میں ہوں) ان سے بہتر ہے!



اے نصیر از دلِ من محو شدہ رنج و خوشی
دارم از خلقِ جہاں وحشت و بیگانہ وَشی
روز و شب من بہ تمنائے رسولِ قُرَشی
می رَوَم ، نالہ کنم مثلِ بلالِ حَبَشی
شوقِ پا بوسی آں ناقہ سوارے دارم

اے نصیر میرے دل سے رنج اور خوشی دونوں محو ہو چکے ہیں
خلق جہاں سے میں دور اور بیگانہ ہو چکا ہوں
میرے روز و شب تو فقط رسولِ قریشی (ص) کی تمنا ہی میں گزرتے ہیں!
میں تو بلالِ حبشی (رض) کی طرح آہ و فغاں و نالہ کرتے ہوئے جا رہا ہوں
کہ میں بھی اس ناقہ سوار (ص) کی پا بوسی کا شوق رکھتا ہوں

جزاک اللہ ، ترجمہ و تشریح کا بہت شکریہ محمد وارث:)
 

الف عین

لائبریرین
بھائی نطامی۔۔ جب سمجھ میں ہی نہیں آئی تھی فارسی میں یہ غزل اورتضمین تو تمہارا پسندیدہ کلام میں کیسے آ گئی؟ (اپنی پسند کے کچھ مسکھڑے لگا لو!!!)
 
Top