قسمت کی پرا سرار تکون

گوہر

محفلین
تحریر و تحقیق: محمد الطاف گوہر
آج اگر ایک طرف انسان اپنی ذاتی زندگی ،اپنی تہذیب اور دوسری تہاذیب کے ادغام کی تکون میں لڑکھ رہا ہے تو دوسری طرف یہ تکون Triangle یعنی مثلث کا عمل دخل انسانی زندگی میں انتہائی پر اسراریت رکھتا ہے ،جبکہ نہ صرف اہرام مصر اسکی ایک تمثیل ہیں بلکہ برمودا ٹرائی اینگل بھی اسکی ایک زندہ مثال ہے۔ مگر معاملہ صرف یہیں تلک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی کے شب و روز میں بھی یہ تکون ایک اہمیت کی حامل ہے۔ کیونکہ زندگی کے مثلث میں بچپن سے انسانی اٹھان اپنے عروج پر اگر جوانی کا مزہ چکھتی ہے تو زوال میں بڑھاپا بھی انتظار کررہا ہوتا ہے۔ البتہ انسان نہ صرف اپنے اکتسابی عمل میں ترقی و کامرانی کی منازل طے کر رہا ہے بلکہ اسکی باطنی نشوونما بھی اپنے نقطئہ عروج کے لیل ونہار پر ہے جہاں کہ قسمت کی پر اسرار تکون اپنا ایک مستحکم وجود رکھتی ہے اور جو آشکار ہونے کو ہے، آئیے آج اس پر اسرار تکون کے ایک ظاہری رخ سے پردہ اٹھاتے ہیں جبکہ باطنی رخ کو کسی دوسرے مضمون میں بیان کروں گا ۔
آئیے ایک نئی دنیا کا ایک باب دیکھیں ، جہاں زندگی اپنی تمام جلوتیں نچھاور کرتی نظر آرہی ہو، آگے بڑھیں اور اپنے ذہن کی خود ساختہ حدوں کو توڑیں ،اپنی حقیقی نظر سے دیکھیں اور اس حقیقت شناس زاویہ سے روشناس ہوں جہاں نظر کبھی خطا نہیں کھاتی ، جی ہاں !اگر کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کی طرح کی کامیابیاں اپنی زندگی میں لانا چاہتے ہیں مگر حاصل نہیں کر پاتے ، جو خوشیاں دوسروں کی جھولی میں کھیلتی نظر آتی ہیں انکو حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر امید بر نہیں آتی اور مایوسیوں کے بنے جال میں جکڑے رہتے ہیں ، اگر محبت دوسروں کے گلے کا ہار بنتی ہے تو ہم نفرتوں کے کانٹے چنتے رہ جاتے ہیں ، اگر ہمارے حالاتِ زندگی پھیکے ہیں تو دوسروں کے خواب بھی رنگ بھرے ، اگر دوسرے پتھریلی زمین پر پاوں ماریں تو پانی نکل آئے اور ہم زرخیز میدان میں قوتیں بھی صرف کر دیں تو پانی کے آثار بھی نظر نہ آئیں۔تو کیا وقت کا پہیہ اسی طرح صدیوں تک ہماری شکستہ حا لی کو لادے نا معلوم منزل کیطرف چلتا رہے گا ؟ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت شناس زاویہ ہمیں دعوت عمل دیتا ہے کہ ایک قدم آگے بڑھا ہیں اور لذتِ آشنائی کی مہک سے ہمکنار ہوں اور زندگی کے اس پر اسرار گوشے کی راہیں علم و عرفان کے چراغوں سے روشن کر دیں۔
ہر دور میں افراد نے زندگی کو مختلف زاویوں سے دیکھا جبکہ ہر شے کو دیکھنے کے360 زاوئیے ہوتے ہیں البتہ ضروری نہیں کہ ہر زاویہ ٹھیک ہو مگر ایک زاویہ ضرور حقیقت بتلاتا ہے اور وہ ہے 180 درجے کا زاویہ ، خط مستقیم کا زاویہ ، سیدھے راستہ کا زاویہ ، یا پھر آمنے سامنے کا زاویہ ، حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا زاویہ ، میدان عمل میں آنے کا زاویہ ، جمود سے سنہرے مستقبل کی طرف گامزن ہونے کا زاویہ ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ زاویہ بنتا کیسے ہے۔ کیونکہ زاویہ، نظریہ، ترکیب بہر حال ایک تو ضرور ایسی ہوتی ہے جو حقیقت شناسا ہوتی ہے اور کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔
اگر ہائیڈروجن گیس کے دو حصے اور آکسیجن کا ایک حصہ ملایا جائے تو نتیجتاً پانی بنے گا مگر ان دونوں گیسوں کو اور کسی بھی ترکیب سے ملایا جائے تو پانی نہیں بنے گا چاہیں کروڑوں طریقے آزمائے جائیں۔ یعنی ایک ہی زاویہ یا ترکیب کسی حقیقت کی غمازی کرتی ہے وگرنہ دوسری ساری تراکیب و طریقے (زاوئیے، نقطہ نظر) سوائے گمراہی اور وقت کے ضیاع کے اور کچھ نہیں۔
تخلیق کا خاصہ ہے کہ وہ ان طاقتوں کو (جو ایک دوسرے کیلئے قربت کا مزاج رکھتی ہوں)ایک خاص نسبت (ترکیب، زاویہ)پہ ملا کر ایک نئی چیز معرض وجود میں لاتی ہے۔ جیسے قدرت کے رازوں میں سے ایک راز واضح کرتا چلوں کہ قدرت کس طرح عدم (غائب) سے کسی چیز کو ظاہر وجود میں لاتی ہے جہاں کہ معاملات کی تکون بھی واضع نظر آئے گی۔ یعنی ہائیڈروجن اور آکسیجن نظر نہ آنے والی گیسیں ہیں مگر جب دونوں ایک خاص ترکیب (H2O) کی نسبت کے ساتھ ملایا جاتا ہے تو ایک نئی چیز (پانی ) وجود میں آتا ہے جوکہ ایک جدا گانہ خاصیت رکھتا ہے اور دیکھا اور چکھا بھی جا سکتا ہے۔
انسانی قسمت کا معاملہ بھی پرسراریت رکھتا ہے۔جبکہ اس کی توجیحات بھی سوجھ بوجھ کی کاوش ہے جیسے تپتی دھوپ میں اگر چھتری تان لی جائے تو تپش سے بھی بچا بھی جا سکتا اور ہے کوئی دعوا بھی نہیں ، البتہ اگر ایک طرف قدرت کا قانون جاذبیت (میری کتاب ” لذتِ آشنائی ” میں اس موضوع پر مکمل بحث کا باب شامل ہے ) یعنی کشش کا معاملہ میں اپنی مثال آپ ہے تو دوسری طر ف انسان پر قسمت کی پر اسرار تکون بھی حاوی ہے۔
کسی بھی تکون (Triangle) کے تین نکات کو اگر تین خطوط سے آپس میں ملایا جائے تو اس کے اندر بننے والے تمام زاوئیے مجموعی طور پر180 ڈگری کا زاویہ بناتے ہیں جو کہ ایک خط مستقیم کا اظہار ہے،یہ ایک ایسا ہی عمل جیسے ہائیڈروجن گیس ، اور آکسیجن گیس مل کر ایک ایسا تیسرا زاویہ بناتی ہیں یعنی H2O جو نتیجہ میں پا نی کا وجود ہے اور انسانیت پر اللہ کا احسان عظیم بھی ۔ یہ ایک ایسا ہی عمل ہے جیسے ایک بار ایک جنگل کے کنارے ایک نابینا آواز لگا رہا تھا کہ کوئی مجھے جنگل پار کر ادے ، تو اس کے پاس ہی ایک اپاہج بھی ایسی ہی آواز لگا رہا تھا کہ کوئی مجھے جنگل پار کرا دے ، اچانک وہاں سے کسی ” بینا” شخص کا گزر ہوا تو اس نے دونوں (زاویے دیکھے ) افراد کو دیکھا تو ان کو ایک (نئے نقطے پر ملا دیا ) نیا راستہ دکھا دیا، وہ شخص بولا بھئی اگر اپاہج شخص نابینا کے کندھوں پر سوار ہوجائے تو دونوں آسانی سے جنگل پار کرسکتے ہیں (خط مستقیم یعنی سیدھا راستہ یا منزل پا سکتے ہیں)۔
معاملہ یوں ہے کہ افراد جب کسی جمود کا شکار ہوتے ہیں تو انہیں قسمت کی تکون کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہے جو ایک ایسا ہی عمل ہے جیسے برقی رو کو بہنے کیلئے صرف مثبت یا صرف منفی چارج کی ضرورت نہیں بلکہ جب تک دونوں کے درمیاں کا رابط کسی تیسرے ربط (بلب) سے نہ ملے تو روشنی (خط مستقیم، منزل حاصل نہیں ہوسکتی)حاصل نہیں ہوسکتی ۔ یعنی ہر دو کے ملنے سے جو تیسری شے حاصل ہوتی ہے وہی منزل کا نشان دیتی ہے۔ بے روزگاری کا صحیح کوشش سے ملاپ روزگار تک پہنچا دیتا ہے ، بیماری کا صحیح علاج سے ملاپ صحت سے ہمکنار کرتا ہے ، مگر یہ سارا عمل کسی حرکت کی نشاندہی ہے ، اور کسی جمود کا توڑ ہے جہاں صرف سوچوں کی چکی میں پسنے کی بجائے راہ عمل اختیار کرنا کسی منزل پر پہنچنے کا باعث بن سکتا ہے۔علم ایک امکانی قوت ہے جب تک اسے راہ عمل پہ نہ ڈالا جائے، جیسے بیٹری چارج کرکے رکھ دی جائے اور استعمال نہ کیا جائے،جبکہ طاقت دراصل عمل میں پنہاں ہے۔ افراد اگر اپنی زندگی میں پر اسرار تکون کے علم سے آشنائی پا چکے تو انکے لئے عمل کے پارس پتھر سے اپنی قسمت کو سونے میں تبدیل کرنا مشکل نہیں، مگر ان سب معاملات میں رب العزت کا فضل شامل حال ہونا بھی ضروری ہے ۔
اٹھیں اور اک نئے عظم ، ولولے کے ساتھ ناکامی ، بیماری ، تکلیف ،الم اور رنج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انکو پچھاڑ دیں۔

بقول میاں محمد بخشؒ صاحب

مالی دا کم پانی دینا تے بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھول لانا لاوے یا نا لاوے
الطاف گوہر کا بلاگ | Altaf Gohar's Blog
 
Top