فیض قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم

قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم
سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم

کچھ امتحانِ دستِ جفا کر چکے ہیں ہم
کچھ اُن کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم

اب احتیاط کی کوئی صورت نہیں رہی
قاتل سے رسم و راہ سِوا کر چکے ہیں ہم

دیکھیں ہے کون کون، ضرورت نہیں رہی
کوئے ستم میں سب کو خفا کر چکے ہیں ہم

اب اپنا اختیار ہے چاہیں جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم

ان کی نظر میں، کیا کریں پھِیکا ہے اب بھی رنگ
جتنا لہو تھا صرفِ قبا کر چکے ہیں ہم

کچھ اپنے دل کی خو کا بھی شکرانہ چاہیے
سو بار اُن کی خُو کا گِلا کر چکے ہیں ہم

فیض احمد فیض
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top