قائد اور اتاترک

سلطنت نما خلافت ختم کی تھی!!!
اور اس کے بعد کے بھی کارہائے نمایاں بتائیں نا ملائکہ بہن کو
چلیں میں بتاتا ہوں مثلا:
1 : مساجد بند کیں ۔ بعض کو اسلحہ خانوں میں تبدیل کروایا۔
2: شریعت محمدیہ کے قانون کو ختم کیا اور شرعی عدالتیں بند کردیں
3: قرآن و سنت کا قانون پس پشت ڈال کر سوئزرلینڈ اور شاید جرمنی کے قانون سے بعض باتیں "مستعار“ لے لیں۔
4: قرآن کے حکم کے خلاف وراثت میں عورت کو مرد کے برابر حقدار ٹھیرایا۔
5: عربی زبان کی تعلیم ممنوع
6: عربی ازان ممنوع
7: قرآن کی عربی تلاوت ممنوع ۔ اسے ترکی رسم الخط میں رائج کرنے کا جبری حکم اور تو اور باقاعدہ 7 جلدوں میں ترکی رسم الخط میں قرآن مع تفسیر شائع کروائی۔ ترکی کے شاعر اسلام محمد عاکف ارصوئے کو حکومت نے ترجمہ قرآن کیلئے چنا تھا ، انہوں نے ترجمہ کردیا لیکن جب پتہ چلا کہ حکومت ترجمہ کو اصل کا درجہ دینا چاہتی ہے تو وصیت کی کہ میرے ترجمہ قرآن کو جلادیا جائے اور حکومت کے حوالے نہ کیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ محمد عاکف کمال کے ایسے ہی غیر اسلامی افعال سے بددل ہوکر ترکی چھوڑ کر مصر ہجرت کرگئے تھے اور قریبا دس سال وہیں رہے۔ اپنی وفات سے کچھ ماہ پہلے واپس آئے اور اپنے وطن میں انتقال فرمایا۔انہوں نے ترکی کا قومی ترانہ بھی لکھا تھا۔
8: نماز میں بھی تلاوت قرآن عربی کے بجائے ترکی میں پڑھنے کا جبری حکم
9: آیا صوفیہ جیسی خوبصورت مسجد کی میوزیم میں تبدیلی
10: علماء سے عناد رکھا گیا اور انھیں پکڑ پکڑ کر سزائیں دی گئیں۔ سلطنت کے جید علماء ہجرت پر مجبور کیے گئے۔ عثمانی خلافت کے آخری شیخ الاسلام اور عالم اسلام کے عظیم عالم شیخ مصطفی ٰ صبری مصر ہجرت کرگئے ۔ شیخ محمد زاہد کوثری بھی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
وغیرہ وغیرہ
 
شائد آپ نہیں سمجھے کہ میں کیا کہہ رہا تھا۔ میری مراد یہ تھی کہ دنیا کا ہر معاملہ سیاہ و سفید نہیں ہوتا۔ کیونکہ سیاہ و سفید کے بیچ میں بھی کئی رنگ ہیں(Shades of gray)۔ اور اکثر معاملات سیاہ و سفید کے بیچ میں کہیں ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ہر معاملے کو بس دو ہی رنگوں میں دیکھتے ہیں۔
چلیے یوں سہی ۔
آپ کو معلوم ہے کہ اتاترک کے حالات پر مبنی کتاب گرے وولف پڑھ کر وینا جناح قائد کو گرے وولف کہا کرتی تھی ، اتا ترک کو سیاہ نہ سہی گرے اوروں نے بھی کہا ہے اور مجھ سے پوچھیں تو ڈارک گرے وولف !
 
درحقیقت اس دنیا جہاں کے تمام معاملات سیاہ اور سفید کے بیچوں بیچ کہیں ہوتے ہیں۔ سیاست میں انتہائی دا ئیں اور بائیں بازو کی پارٹیاں ہوں یا معاشرتی انتہائی امیری اور غریبی۔ ہر جگہ دین اسلام میں اعتدال پسندی کی راہ اختیار کرنے کو کہا گیا ہے۔ کاش پہلے مسلمان ہی اس پر عمل کر لیں۔
دین اسلام میں اعتدال پسندی کی راہ کو پسند کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ سیاہ و سفید کے مابین گرے اعتدال کی راہ ہے ، ہم میں سے کوئی ملگجا لباس زیب تن نہیں کرتا ، نہ ہی اس کو صفائی اور گندگی کے درمیان اعتدال سمجھتا ہے ۔ دین اسلام خود سراپا اعتدال ہے اور اس پر مکمل عمل ہی اعتدال ہے ۔
 
Top