فانیش مسیح کی ہلاکت!

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
توہین رسالت کے نام نہاد قانون
عامر چیمہ اور علم الدین جیسے مجرموں اور قاتلوں
کسی بھی قانون کا غلط استعمال یا خلاف ورزی اس کو نام نہاد نہیں بناتا اور عامر چیمہ شہید اور علم الدین شہید جیسے افراد کے مرتبے ایسے الفاظ سے کم بھی نہیں ہوتے۔ تاہم چاند پر تھوکنے کی کوشش کا نتیجہ ہمیشہ ایک ہی ہو تا ہے۔
پاکستان مین عدالتی نطام کی خرابی اور انتظامیہ کی کمزوری کی پر عوام بہت سارے معلامات میں خود ہی فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے ڈاکوں کو زندہ جلا دینے کے واقعات اور حادثے کے بعد بس یا ٹرک ڈرائور کو قتل کردینے کے واقعات یہ غلط ہے لیکن کیا اس کے بعد ڈاکہ زنی جائزقرار دے دی جائے اور بس ڈرائیورز کوحادثوں کی کھلی چھٹی دے دی جائے؟؟ اور تمام قوانین کو اسی طرح کسی نہ کسی وجہ سے ختم کردیا جائے؟
اور خود جرمنی کے نظام انصاف کا عالم ہر ایسے واقعے میں خوب ابھر کر سامنے آجاتا ہے یہ کوئی فرشتوں کا دیس نہیں کہ اس کے لیے اتنی فریفتگی سمجھ میں آ سکے۔ مسلمانوں کے خلاف سارے چھوٹے بڑے جرائم میں یکساں ملوث یہ ملک ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ میری یہ پوسٹ کس تھریڈ کا حصہ بنی چاہے لیکن مذکورہ بالا انتہائی دل آزار و دل شکن الفاظ یہیں موجود ہیں اس لیے جواب بھی یہیں دیا جارہا ہے۔
بنیادی مطالبہ بس اتنا ہونا چاہیے کہ فانش یا ایسے افراد کے معاملات کی آزادانہ تحقیقات ہوں اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب توہین رسالت کے قانون کے خاتمے کے لیے لگایا جانا والا زور اس رخ سے صرف کیا جائے۔
 

arifkarim

معطل
منیر، اب توہین رسالت قانون ختم بھی کر دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اب کسی پر بھی قران کے صفحات کی بے حرمتی یا توہین رسالت کا الزام لگا کر اسے mob justice کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دینا قوم کا شعار بن چکا ہے۔ یہاں عام عوام اور طالبان میں کوئی فرق نہیں رہتا ہے۔ جہاں تک توہین رسالت قانون کی افادیت اور ضرورت کا تعلق ہے تو یہ محض ایک مخصوص سوچ رکھنے والے طبقے کی بالادستی کی خواہش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میں اس موضوع پر کسی اور تھریڈ میں ضرور گفتگو کرتا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہاں اس پر تعمیری گفتگو ممکن ہے۔

سلمان تاثیر کے بارے میں میں کچھ کہنا پسند نہیں کرتا، البتہ میں بے بسوں اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے عاصمہ جہانگیر کی عزت کرتا ہوں۔

جاہل مفاد پرست مولویوں کے پیچھے چلیں گے تو آج یہیں دن دیکھنا ہمارا مقدر ہوں گے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
منیر، اب توہین رسالت قانون ختم بھی کر دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اب کسی پر بھی قران کے صفحات کی بے حرمتی یا توہین رسالت کا الزام لگا کر اسے mob justice کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دینا قوم کا شعار بن چکا ہے۔ یہاں عام عوام اور طالبان میں کوئی فرق نہیں رہتا ہے۔

آپ نے وہ تلخ حقیقت بیان کر دی ہے کہ جس سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں، اور وہ یہ کہ اگر حکومتی سطح پر آج اگر اس قانون میں کوئی ترمیم بھی کی جاتی ہے تب بھی اس فتنے میں کچھ کمی آنے والی نہیں۔
اس تلخ حقیقت کا اگر کھلے الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ فتنہ مکمل طور پر اُنتہا پسند مذہبی طبقات کا کھڑا کیا ہوا ہے جس نے اسلام کا صحیح ورژن پیش کرنے کی بجائے ہمیشہ اس Mob Justice کی ہمت افزائی کی۔ اور اگر آج ہمیں اس فتنے کو ختم کرنا ہے تو اسکا حل حکومتی سطح پر قانون میں تبدیلی کرنے سے زیادہ عوامی سطح پر ان فسادی طبقات کے چہرے بے نقاب کرنے پر ہے اور عوام کو یہ شعور دینے میں ہے کہ ہر جھگڑے کا فیصلے کا حق صرف اور صرف عدالت کو ہے۔

اور عامر چیمہ شہید اور علم الدین شہید جیسے افراد کے مرتبے ایسے الفاظ سے کم بھی نہیں ہوتے۔ تاہم چاند پر تھوکنے کی کوشش کا نتیجہ ہمیشہ ایک ہی ہو تا ہے۔

اس فتنے کا آغاز ہی وہ وقت ہے جب عامر چیمہ اور علم الدین کو مجرم اور قاتل کہنے کی بجائے انہی لوگوں نے اسے ہیرو اور اسلام کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا۔
آج تک کس عالم نے عوام کو یہ عقل دی ہے کہ یہ دونوں حضرات دنیا کے کسی اور قانون سے پہلے اسلامی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں جسکا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ اگر آپ غیر مسلم اکثریت والے ملک میں رہتے ہیں تو اُس ملک کے قانون کا احترام کرنا اور اُس پر عمل کرنا آپ پر اسلامی نقطہ نگاہ سے واجب و لازم ہے۔
اب لوگ اس بنیادی اسلامی قانون کو دیگر ممالک کی غلطیوں کے پردے میں چھپانا چاہیں تو یہ انکی قسمت کی بربادی، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلامی قانون بدل نہیں سکتا اور نہ ہی عامر چیمہ اور علم دین کو مجرم و قاتل سے اسلام کا ہیرو اور نجات دہندہ بنایا جا سکتا ہے۔
یہ لوگ ان کے اس غیر قانونی اقدام قتل پر خوش ہو کر تالیاں تو پیٹ رہے ہیں، مگر انہیں احساس نہیں کہ ان کے اس رویے سے مذہب اسلام کے خلاف دنیا میں کتنی نفرت پھیل رہی ہے اور دین اسلام کیسے بدنام ہو رہا ہے، اور مسلمانوں کو اب ایسے جنونی خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو ملکی قوانین کو ٹھوکر مارتا ہوا کبھی بھی کہیں بھی اقدام قتل جیسے افعال کا ارتکاب کر سکتا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
کسی بھی قانون کا غلط استعمال یا خلاف ورزی اس کو نام نہاد نہیں بناتا اور عامر چیمہ شہید اور علم الدین شہید جیسے افراد کے مرتبے ایسے الفاظ سے کم بھی نہیں ہوتے۔ تاہم چاند پر تھوکنے کی کوشش کا نتیجہ ہمیشہ ایک ہی ہو تا ہے۔
پاکستان مین عدالتی نطام کی خرابی اور انتظامیہ کی کمزوری کی پر عوام بہت سارے معلامات میں خود ہی فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے ڈاکوں کو زندہ جلا دینے کے واقعات اور حادثے کے بعد بس یا ٹرک ڈرائور کو قتل کردینے کے واقعات یہ غلط ہے لیکن کیا اس کے بعد ڈاکہ زنی جائزقرار دے دی جائے اور بس ڈرائیورز کوحادثوں کی کھلی چھٹی دے دی جائے؟؟ اور تمام قوانین کو اسی طرح کسی نہ کسی وجہ سے ختم کردیا جائے؟
اور خود جرمنی کے نظام انصاف کا عالم ہر ایسے واقعے میں خوب ابھر کر سامنے آجاتا ہے یہ کوئی فرشتوں کا دیس نہیں کہ اس کے لیے اتنی فریفتگی سمجھ میں آ سکے۔ مسلمانوں کے خلاف سارے چھوٹے بڑے جرائم میں یکساں ملوث یہ ملک ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ میری یہ پوسٹ کس تھریڈ کا حصہ بنی چاہے لیکن مذکورہ بالا انتہائی دل آزار و دل شکن الفاظ یہیں موجود ہیں اس لیے جواب بھی یہیں دیا جارہا ہے۔
بنیادی مطالبہ بس اتنا ہونا چاہیے کہ فانش یا ایسے افراد کے معاملات کی آزادانہ تحقیقات ہوں اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب توہین رسالت کے قانون کے خاتمے کے لیے لگایا جانا والا زور اس رخ سے صرف کیا جائے۔

میں نے کسی کے مسلک یا مذہب کے خلاف بات نہیں کی ہے جس سے کسی کی دلآزاری ہو رہی ہو۔ اور پھندے سے لٹک کر خود کشی کرنے والوں کو آپ ضرور شہید سمجھیں اور ان کے مزار سجا کر عرس منائیں۔ مجھے اس سے غرض نہیں ہے۔ اور پاکستان میں اسلام کے نام پر جو امتیازی قوانین نافذ ہیں ان کو بھی آپ ضرور حرز جان بنائیں، ان سے انسانیت اور اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ آپ ہی نے کہیں mob justice کی حمایت میں لکھا تا کہ لوگ ایسا مجبوراً کرنے لگے ہیں کیونکہ عدالتیں ملزموں کو بری کر دیتی ہیں۔ یہ 'دانشوری' بھی آپ ہی کو مبارک ہو۔

میں نے جرمنی کو فرشتوں کا دیس نہیں کہا ہے۔ یہاں لوگ زرد صحافت کے نمونے امت اخبار کو پڑھ کر ہی دنیا کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں۔
 
پولیس کسٹڈی میں صرف عیسائی ہی نہیں مسلمان بھی ہلاک ہوتے رہے ہیں، ہماری سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم ابھی تک پولیس کو وہی کالا قانون دیئے ہوئیے ہیں جو انگریزوں کے دور سے چلا آرہا ہے۔

بہرحال واقعہ افسوسناک ہے۔ خواہ اس کی وجہ کوئی بھی ہو۔ اب عدالتی تحقیقات سامنے آجائیں تو اصل سازش کا پتہ چلے
 

کعنان

محفلین
عوام کو یہ شعور دینے میں ہے کہ ہر جھگڑے کا فیصلے کا حق صرف اور صرف عدالت کو ہے۔

اس فتنے کا آغاز ہی وہ وقت ہے جب عامر چیمہ اور علم الدین کو مجرم اور قاتل کہنے کی بجائے انہی لوگوں نے اسے ہیرو اور اسلام کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا۔

آج تک کس عالم نے عوام کو یہ عقل دی ہے کہ یہ دونوں حضرات دنیا کے کسی اور قانون سے پہلے اسلامی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

فانیش مسیح کا اشو ایک الگ نوعیت کا ھے اور اس میں بیرونی قوتیں انوالو ہیں جو پہلے مسلمانوں میں فرقہ ورایت کی ہوا دے کر مسلمانوں کو آپس میں لڑاتی تھیں ، جب سے تمام فرقوں کے علماء کا آپس میں اتفاق ہو گیا ہوا ھے کہ اگر آپس میں کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو تو پہلے اس کی جانچ پرتال کی جائے گی، اس وقت سے اب تک پاکستان میں دن بدن علماء کرام ، مفتی حضرات کا قتل عام جاری تھا مگر کسی بھی جماعت نے اس پر ایک دوسرے کے ساتھ بغض نہیں رکھا اور نہ ہی اس کا رد عمل دکھایا، تو مخالف قوتوں نے اب کرسچین کا قتل عام کروانا شروع کر دیا ، یہ انہی کی کیا دھرا ھے، فانیش کا قتل کوئی توہیں رسالت نہیں بلکہ اشو بنایا جا رہا ھے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے۔




اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے چن لیتا ھے اپنے دین کی حفاظت کے لئے، یہ خاص سپاہی ہیں دین کے جو بولتے نہیں کر دکھاتے ہیں۔
موصوف شور ڈال رہے ہیں کہ فانیش مسیح کا ٹاپک ھے اس پر بات کریں اس سے نہیں ہٹیں اور خود فانیش مسیح کے ٹاپک سے ہٹ ہر ان کو طرف اپنی قوت زائل کر رہے ہیں۔

علم دین شہید غالبً اکتوبر 1929 کا واقعہ ھے جب برٹش گورنمنٹ تھی اور ہندو راج تھا۔
شہید کو کہا گیا تھا اور موقع فرہم گیا گیا تھا کہ قتل سے انکار کر دو بری ہو جاؤ گے مگر ایسے سپاہی موت سے نہیں ڈرتے
کورٹ میں قبول کیا ، برٹش کورٹ سے پھانسی کی سزا کو ہنسے ہوئے قبول کیا اور شہادت کا درجہ پر فائز ہوا۔ اللہ اکبر
رہتی دنیا تک اس کا نام زندہ رہے گا۔


اب آتے ہیں عامر چیمہ شہید کی طرف
اگر نبیل کے کہنے پر میں اپنی بے وقوف عقل سے یہ مان بھی لوں کہ اس نے جیل میں خود پھانسی لگائی تھی اس پر شائد ماصوف یہ نہیں جانتے کہ پاکستان میں بھی اگر کوئی کہے کہ پاکستانی جیل میں کسی مجرم نے اپنے آپ کو جیل میں پھانسی لگا لی تو کوئی نہیں مان سکتا کیونکہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں،
پاکستان جیسے گرمی والے ملک میں بھی جیلوں میں کوئی ایسا مواد قیدی اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا کہ جس سے وہ پھانسی پر لٹک جائے اور وہ تو جومن کی جیل میں تھا اور انڈر انویسٹیگیشن پروسس میں تھا جہاں پر اسے ریمانڈ میں قتل کر دیا گیا۔
جرمن جیسے ٹھنڈے ملک میں جیلوں میں پنکھے نہیں لگے ہوئے جہاں پر قیدی لٹک کر خود کشی کرتے ہیں۔
چھوٹے چھوٹے بکس نما بیرکس ہوتی ہیں جہاں پر بندہ سیدھا کھڑا ہو تو اس کے سر اور چھٹ کا فاصلہ بہت کلوذ ہوتا ھے
جیل اور بیرکس سی۔سی۔ ٹی وی سسٹم نسب ہوتا ھے ان کی ہر نقل حرکت پر نظر ہوتی ھے
نہ تو چھتوں کے ساتھ کلے لگے ہوتے ہیں کہ خود کشی ہو سکے اور نہ ہی بیرکوں میں کوئی ایسا میٹیریل ہوتا ھے کہ پھانسی کے علاوہ بھی کوئی اور طریقے سے قیدی اپنے آپ کو نقصان پہنچا سکے۔ کوئی بھی گوگل فوٹو میں‌ جا کے دیکھ سکتا ھے
عامر چیمہ کو Moabit jail in Berlin, GERMANY میں دوران تفتیش قتل کیا گیا تھا۔

جیل میں پھانسی لگایا جا سکتا ھے لگا نہیں جا سکتا کیونکہ انوسینٹ کو پتا ہوتا ھے کہ اس نے کورٹ فیس کرنی ھے اور وہ کوئی برا کام نہیں ہوتا کورٹ فیصلہ کرتی ھے کہ اس کو کیا سزا دینی ھے اور اس کیس میں اس سزا ملتی ھے سزائے موت نہیں ملتی ماسٹر کا سٹوڈنٹ کیا یہ نہیں جانتا تھا جو اس نے پھانسی لگائی کوئی جواز نہیں۔



والسلام
 
اس فتنے کا آغاز ہی وہ وقت ہے جب عامر چیمہ اور علم الدین کو مجرم اور قاتل کہنے کی بجائے انہی لوگوں نے اسے ہیرو اور اسلام کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا۔
عامر چیمہ شہید اور علم الدین شہید امت مسلمہ کے لیے ہیرو کی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یہ امت فتنے، فتنہ پردازوں اور ان کی فتنہ پردازی سے بخوبی آگاہ ہے اسی لیے امت مسلمہ کے ہر ملک میں بش مشرف جیسوں کے منہ پر جوتے برسائے جاتے ہیں اور علم الدین ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود اور عامر چیمہ کی یاد آج بھی دلوں میں عزت و وقار کے ساتھ زندہ ہے۔

میں نے کسی کے مسلک یا مذہب کے خلاف بات نہیں کی ہے جس سے کسی کی دلآزاری ہو رہی ہو۔
یہ محض تجاہل عارفانہ ہے کہیں دور نہ جائیے اپنے اسی فورم پر ووٹنگ کرا لیجئے کہ آپ توہین رسالت کے قانون کو نام نہاد اور عامر چیمہ اور علم الدین شہید کو برا بھلا کہ کر دل آزاری کے مرتکب ہوئے ہیں یا نہیں۔

اسلام کے نام پر جو امتیازی قوانین نافذ ہیں ان کو بھی آپ ضرور حرز جان بنائیں، ان سے انسانیت اور اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ آپ ہی نے کہیں mob justice کی حمایت میں لکھا تا کہ لوگ ایسا مجبوراً کرنے لگے ہیں کیونکہ عدالتیں ملزموں کو بری کر دیتی ہیں۔ یہ 'دانشوری' بھی آپ ہی کو مبارک ہو۔

امتیازی قوانین دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں آپ کے جرمنی میں بھی اور توہین رسالت کا قانون کوئی امتیازی قانون نہیں ہے جیسے دنیا کے ہر ملک میں چوری ڈاکا زنی جرائم اور غیر اخلاقی ہیں ویسے ہی کسی کی بلا وجہ توہین بھی جرم ہے یہ چیز شخصی سطح سے لے کر اداروں کی سطح تک پائی جاتی ہے کھیلوں کے میدان سے لے کر سڑکوں اور چوراہوں تک پائی جاتی ہے۔ نبی کریم روف رحیم اور انبیا کرام ع کی ذات ہر انسان کی ذات سے بالا تر ہے یہ اللہ کے سفیر ہیں ان کے محبوب ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دین اسلام کی اور مسلمانوں کی جان ہیں ان کی بارگاہ میں اونچی آواز سے گفتگو کرنا خود قرآن کی رو سے ممنوع ہے چہ جائیکہ ان کی شان میں گستاخی کا احتمال بھی ہو۔ خود اسوہ رسول سے گستاخان رسول کا قتل کیا جانا ثابت ہے یہ چیز نہیں بدل سکتی ہے چاہے کسی کو کتنی ہی بری کیوں نہ لگے اور اور مارے غم کے چاہے کوئی اپنی انگلیاں ہی کیوں نہ چبا جائے۔
mob justice کی حمایت کسی نے نہیں کی اوپر ایسے واقعات کی وجہ لکھی گئی ہے نہ کہ ان کو جائز لکھاگیا ہے اگر عدلیہ اپنا کام اور انتظامیہ اپنا کام درست کرے اور مکمل تحقیق کے بعد اگر یہ ثابت ہو جائے کہ واقعی کوئی بھی شخص توہین رسالت کا مرتکب ہے تو اس کو وہی شرعی سزا دی جائے جو اس سلسلے میں ہے،تو ایسے واقعات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
یہ 'دانشوری' بھی آپ ہی کو مبارک ہو۔]
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی ، تمام بولہبی است
میری دانشوری چاہے کتنی ہی اور کیسی ہی کیوں نہ ہو بہرحال بولہبی سے بہتر ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

فانیش مسیح کا اشو ایک الگ نوعیت کا ھے اور اس میں بیرونی قوتیں انوالو ہیں جو پہلے مسلمانوں میں فرقہ ورایت کی ہوا دے کر مسلمانوں کو آپس میں لڑاتی تھیں ، جب سے تمام فرقوں کے علماء کا آپس میں اتفاق ہو گیا ہوا ھے کہ اگر آپس میں کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو تو پہلے اس کی جانچ پرتال کی جائے گی، اس وقت سے اب تک پاکستان میں دن بدن علماء کرام ، مفتی حضرات کا قتل عام جاری تھا مگر کسی بھی جماعت نے اس پر ایک دوسرے کے ساتھ بغض نہیں رکھا اور نہ ہی اس کا رد عمل دکھایا، تو مخالف قوتوں نے اب کرسچین کا قتل عام کروانا شروع کر دیا ، یہ انہی کی کیا دھرا ھے، فانیش کا قتل کوئی توہیں رسالت نہیں بلکہ اشو بنایا جا رہا ھے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے۔




اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے چن لیتا ھے اپنے دین کی حفاظت کے لئے، یہ خاص سپاہی ہیں دین کے جو بولتے نہیں کر دکھاتے ہیں۔
موصوف شور ڈال رہے ہیں کہ فانیش مسیح کا ٹاپک ھے اس پر بات کریں اس سے نہیں ہٹیں اور خود فانیش مسیح کے ٹاپک سے ہٹ ہر ان کو طرف اپنی قوت زائل کر رہے ہیں۔

علم دین شہید غالبً اکتوبر 1929 کا واقعہ ھے جب برٹش گورنمنٹ تھی اور ہندو راج تھا۔
شہید کو کہا گیا تھا اور موقع فرہم گیا گیا تھا کہ قتل سے انکار کر دو بری ہو جاؤ گے مگر ایسے سپاہی موت سے نہیں ڈرتے
کورٹ میں قبول کیا ، برٹش کورٹ سے پھانسی کی سزا کو ہنسے ہوئے قبول کیا اور شہادت کا درجہ پر فائز ہوا۔ اللہ اکبر
رہتی دنیا تک اس کا نام زندہ رہے گا۔


اب آتے ہیں عامر چیمہ شہید کی طرف
اگر نبیل کے کہنے پر میں اپنی بے وقوف عقل سے یہ مان بھی لوں کہ اس نے جیل میں خود پھانسی لگائی تھی اس پر شائد ماصوف یہ نہیں جانتے کہ پاکستان میں بھی اگر کوئی کہے کہ پاکستانی جیل میں کسی مجرم نے اپنے آپ کو جیل میں پھانسی لگا لی تو کوئی نہیں مان سکتا کیونکہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں،
پاکستان جیسے گرمی والے ملک میں بھی جیلوں میں کوئی ایسا مواد قیدی اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا کہ جس سے وہ پھانسی پر لٹک جائے اور وہ تو جومن کی جیل میں تھا اور انڈر انویسٹیگیشن پروسس میں تھا جہاں پر اسے ریمانڈ میں قتل کر دیا گیا۔
جرمن جیسے ٹھنڈے ملک میں جیلوں میں پنکھے نہیں لگے ہوئے جہاں پر قیدی لٹک کر خود کشی کرتے ہیں۔
چھوٹے چھوٹے بکس نما بیرکس ہوتی ہیں جہاں پر بندہ سیدھا کھڑا ہو تو اس کے سر اور چھٹ کا فاصلہ بہت کلوذ ہوتا ھے
جیل اور بیرکس سی۔سی۔ ٹی وی سسٹم نسب ہوتا ھے ان کی ہر نقل حرکت پر نظر ہوتی ھے
نہ تو چھتوں کے ساتھ کلے لگے ہوتے ہیں کہ خود کشی ہو سکے اور نہ ہی بیرکوں میں کوئی ایسا میٹیریل ہوتا ھے کہ پھانسی کے علاوہ بھی کوئی اور طریقے سے قیدی اپنے آپ کو نقصان پہنچا سکے۔ کوئی بھی گوگل فوٹو میں‌ جا کے دیکھ سکتا ھے
عامر چیمہ کو moabit jail in berlin, germany میں دوران تفتیش قتل کیا گیا تھا۔

جیل میں پھانسی لگایا جا سکتا ھے لگا نہیں جا سکتا کیونکہ انوسینٹ کو پتا ہوتا ھے کہ اس نے کورٹ فیس کرنی ھے اور وہ کوئی برا کام نہیں ہوتا کورٹ فیصلہ کرتی ھے کہ اس کو کیا سزا دینی ھے اور اس کیس میں اس سزا ملتی ھے سزائے موت نہیں ملتی ماسٹر کا سٹوڈنٹ کیا یہ نہیں جانتا تھا جو اس نے پھانسی لگائی کوئی جواز نہیں۔



والسلام



درست کہا آپ نے، اللہ تعالی کو اپنے دین کی سربلندی کے لیے ایسے ہی مجاہدوں کی ضرورت ہے۔ یقیناً گوجرہ میں عیسائیوں کو جلا کر راکھ کرنے والوں کا بھی بہت درجہ ہوگا۔ کراچی کی فیکٹری میں ہندو مزدور کو ہلاک کرنے والوں کو بھی ولایت مل گئی ہوگی۔ اور سندھ کی جیل میں قیدی کی گردن کاٹنے والوں کو اسی دنیا میں جنت کی بشارت مل گئی ہوگی۔ کافی آسان ہو گیا ہے مغفرت کا راستہ۔
جہاں تک عامر چیمہ کا تعلق ہے تو میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ جس کا دل کرتا ہے وہ اس کے مزار پر جا کر چلہ کاٹے، یہ اس کی مرضی ہوگی۔ اس طرح حقائق نہیں بدل سکتے۔
 

ساجد

محفلین
آپ نے وہ تلخ حقیقت بیان کر دی ہے کہ جس سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں، اور وہ یہ کہ اگر حکومتی سطح پر آج اگر اس قانون میں کوئی ترمیم بھی کی جاتی ہے تب بھی اس فتنے میں کچھ کمی آنے والی نہیں۔
اس تلخ حقیقت کا اگر کھلے الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ فتنہ مکمل طور پر اُنتہا پسند مذہبی طبقات کا کھڑا کیا ہوا ہے جس نے اسلام کا صحیح ورژن پیش کرنے کی بجائے ہمیشہ اس mob justice کی ہمت افزائی کی۔ اور اگر آج ہمیں اس فتنے کو ختم کرنا ہے تو اسکا حل حکومتی سطح پر قانون میں تبدیلی کرنے سے زیادہ عوامی سطح پر ان فسادی طبقات کے چہرے بے نقاب کرنے پر ہے اور عوام کو یہ شعور دینے میں ہے کہ ہر جھگڑے کا فیصلے کا حق صرف اور صرف عدالت کو ہے۔



اس فتنے کا آغاز ہی وہ وقت ہے جب عامر چیمہ اور علم الدین کو مجرم اور قاتل کہنے کی بجائے انہی لوگوں نے اسے ہیرو اور اسلام کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا۔
آج تک کس عالم نے عوام کو یہ عقل دی ہے کہ یہ دونوں حضرات دنیا کے کسی اور قانون سے پہلے اسلامی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں جسکا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ اگر آپ غیر مسلم اکثریت والے ملک میں رہتے ہیں تو اُس ملک کے قانون کا احترام کرنا اور اُس پر عمل کرنا آپ پر اسلامی نقطہ نگاہ سے واجب و لازم ہے۔
اب لوگ اس بنیادی اسلامی قانون کو دیگر ممالک کی غلطیوں کے پردے میں چھپانا چاہیں تو یہ انکی قسمت کی بربادی، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلامی قانون بدل نہیں سکتا اور نہ ہی عامر چیمہ اور علم دین کو مجرم و قاتل سے اسلام کا ہیرو اور نجات دہندہ بنایا جا سکتا ہے۔
یہ لوگ ان کے اس غیر قانونی اقدام قتل پر خوش ہو کر تالیاں تو پیٹ رہے ہیں، مگر انہیں احساس نہیں کہ ان کے اس رویے سے مذہب اسلام کے خلاف دنیا میں کتنی نفرت پھیل رہی ہے اور دین اسلام کیسے بدنام ہو رہا ہے، اور مسلمانوں کو اب ایسے جنونی خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو ملکی قوانین کو ٹھوکر مارتا ہوا کبھی بھی کہیں بھی اقدام قتل جیسے افعال کا ارتکاب کر سکتا ہے۔
لیکن ، یہاں تو فانیش کی موت دورانِ حراست ہوئی ہے۔ اس میں نہ تو کسی عامر چیمہ کا دخل ہے اور نہ غازی علم دین کا۔
دورانِ حراست قیدیوں کی اموات پاکستان ہی نہیں دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی کافی زیادہ ہوتی ہیں اور ہندوستان کا ریکارڈ اس معاملہ میں پاکستان سے بھی برا ہے لیکن وہاں ان معاملات کو اس انداز سے نہیں دیکھا جاتا کہ جس زاویہ نظر سے آپ نے اس کا جائزہ لیا ہے۔
ایسی اموات کا وقوعہ کبھی بھی اور کہیں بھی ہو جاتا ہے ، میں اس ضمن میں کسی خاص ملک کا نام نہیں لے رہا کیوں کہ یہاں ہمیں افہام و تفہیم سے بات کرنے اور معاملہ کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے ایک پیغام دینا ہے کہ ہم کسی بھی انسان کی پراسرار موت کے خلاف ہیں خواہ اس کا کوئی بھی دین ہو یا کوئی بھی ملک۔
طعن و تشنیع اور جذباتی تحاریر سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ کیا ہم میں سے کسی کے پاس ہمت ہے کہ فانیش مسیح کی موت کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے ؟ اگر نہیں تو پھر گڑھے مردے اکھیڑ کر معاملہ کو پیچیدہ نہ بنائیں اور جس قدر ہم میں ہمت ہے وہیں تک محدود رہیں تو یہ حقیقت کے زیادہ قریب ہو گا۔
اسلام اور توہین رسالت سے اس کی موت کا تعلق ثابت کرنے کی ہمارے پاس اس وقت تک کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے کہ جب تک اس کے ثبوت نہیں مل جاتے۔ اور آپ تو جانتی ہیں کہ ثبوت ڈھونڈنے پڑتے ہیں بیٹھے بٹھائے نہیں ملا کرتے تو کیا خیال ہے پھر آپ کب ثبوتوں کی تلاش میں نکل رہی ہیں؟
جی نہیں ، فانیش کی موت پہ کوئی تالیاں نہیں پیٹ رہا اور نہ ہی یہاں عامر چیمہ یا غازی علم دین جیسے کسی آددمی نے اسے قتل کیا ہے۔ یہ باتیں بعید از قیاس اور جذبات انگیختتگی سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتیں۔
فانیش کو اگر قتل کیا گیا ہے تو میں اس کی مذمت کرتا ہوں اور اس دھاگے پہ لکھنے والے ہر رکن نے اس کی مذمت کی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
امتیازی قوانین دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں آپ کے جرمنی میں بھی اور توہین رسالت کا قانون کوئی امتیازی قانون نہیں ہے جیسے دنیا کے ہر ملک میں چوری ڈاکا زنی جرائم اور غیر اخلاقی ہیں ویسے ہی کسی کی بلا وجہ توہین بھی جرم ہے یہ چیز شخصی سطح سے لے کر اداروں کی سطح تک پائی جاتی ہے کھیلوں کے میدان سے لے کر سڑکوں اور چوراہوں تک پائی جاتی ہے۔ نبی کریم روف رحیم اور انبیا کرام ع کی ذات ہر انسان کی ذات سے بالا تر ہے یہ اللہ کے سفیر ہیں ان کے محبوب ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دین اسلام کی اور مسلمانوں کی جان ہیں ان کی بارگاہ میں اونچی آواز سے گفتگو کرنا خود قرآن کی رو سے ممنوع ہے چہ جائیکہ ان کی شان میں گستاخی کا احتمال بھی ہو۔ خود اسوہ رسول سے گستاخان رسول کا قتل کیا جانا ثابت ہے یہ چیز نہیں بدل سکتی ہے چاہے کسی کو کتنی ہی بری کیوں نہ لگے اور اور مارے غم کے چاہے کوئی اپنی انگلیاں ہی کیوں نہ چبا جائے۔
mob justice کی حمایت کسی نے نہیں کی اوپر ایسے واقعات کی وجہ لکھی گئی ہے نہ کہ ان کو جائز لکھاگیا ہے اگر عدلیہ اپنا کام اور انتظامیہ اپنا کام درست کرے اور مکمل تحقیق کے بعد اگر یہ ثابت ہو جائے کہ واقعی کوئی بھی شخص توہین رسالت کا مرتکب ہے تو اس کو وہی شرعی سزا دی جائے جو اس سلسلے میں ہے،تو ایسے واقعات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔

بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی ، تمام بولہبی است
میری دانشوری چاہے کتنی ہی اور کیسی ہی کیوں نہ ہو بہرحال بولہبی سے بہتر ہے۔

آپ کی ایک پوسٹ فورم پر موجود ہے جہاں آپ نے اس طرح کی رائے پیش کی تھی کہ اب لوگوں کو خود یہ کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ عدالتیں ایسے ملزمان کو بری کر دیتی ہیں۔ یہ دانشوری ہے یا بولہبی؟ اور توہین رسالت سے متعلق قانون بھی پاکستان میں باقی رہنا چاہیے۔ اگر یہ ختم ہو گیا تو پاکستان شاتمان رسول کی سر زمین بن جائے گا۔

عامر چیمہ شہید اور علم الدین شہید امت مسلمہ کے لیے ہیرو کی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یہ امت فتنے، فتنہ پردازوں اور ان کی فتنہ پردازی سے بخوبی آگاہ ہے اسی لیے امت مسلمہ کے ہر ملک میں بش مشرف جیسوں کے منہ پر جوتے برسائے جاتے ہیں اور علم الدین ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود اور عامر چیمہ کی یاد آج بھی دلوں میں عزت و وقار کے ساتھ زندہ ہے۔

یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ لوگ حقیقت سے اس قدر بھی غافل نہیں ہے۔

یہ محض تجاہل عارفانہ ہے کہیں دور نہ جائیے اپنے اسی فورم پر ووٹنگ کرا لیجئے کہ آپ توہین رسالت کے قانون کو نام نہاد اور عامر چیمہ اور علم الدین شہید کو برا بھلا کہ کر دل آزاری کے مرتکب ہوئے ہیں یا نہیں۔

میرا اشارہ کسی مذہب یا مسلک کے متعلق بات کرنے کا تھا۔ میں امتیازی قوانین یا مجرموں کے احترام کا مکلف نہیں ہوں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
لیکن ، یہاں تو فانیش کی موت دورانِ حراست ہوئی ہے۔ اس میں نہ تو کسی عامر چیمہ کا دخل ہے اور نہ غازی علم دین کا۔
دورانِ حراست قیدیوں کی اموات پاکستان ہی نہیں دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی کافی زیادہ ہوتی ہیں اور ہندوستان کا ریکارڈ اس معاملہ میں پاکستان سے بھی برا ہے لیکن وہاں ان معاملات کو اس انداز سے نہیں دیکھا جاتا کہ جس زاویہ نظر سے آپ نے اس کا جائزہ لیا ہے۔
ایسی اموات کا وقوعہ کبھی بھی اور کہیں بھی ہو جاتا ہے ، میں اس ضمن میں کسی خاص ملک کا نام نہیں لے رہا کیوں کہ یہاں ہمیں افہام و تفہیم سے بات کرنے اور معاملہ کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے ایک پیغام دینا ہے کہ ہم کسی بھی انسان کی پراسرار موت کے خلاف ہیں خواہ اس کا کوئی بھی دین ہو یا کوئی بھی ملک۔
طعن و تشنیع اور جذباتی تحاریر سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ کیا ہم میں سے کسی کے پاس ہمت ہے کہ فانیش مسیح کی موت کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے ؟ اگر نہیں تو پھر گڑھے مردے اکھیڑ کر معاملہ کو پیچیدہ نہ بنائیں اور جس قدر ہم میں ہمت ہے وہیں تک محدود رہیں تو یہ حقیقت کے زیادہ قریب ہو گا۔
اسلام اور توہین رسالت سے اس کی موت کا تعلق ثابت کرنے کی ہمارے پاس اس وقت تک کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے کہ جب تک اس کے ثبوت نہیں مل جاتے۔ اور آپ تو جانتی ہیں کہ ثبوت ڈھونڈنے پڑتے ہیں بیٹھے بٹھائے نہیں ملا کرتے تو کیا خیال ہے پھر آپ کب ثبوتوں کی تلاش میں نکل رہی ہیں؟
جی نہیں ، فانیش کی موت پہ کوئی تالیاں نہیں پیٹ رہا اور نہ ہی یہاں عامر چیمہ یا غازی علم دین جیسے کسی آددمی نے اسے قتل کیا ہے۔ یہ باتیں بعید از قیاس اور جذبات انگیختتگی سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتیں۔
فانیش کو اگر قتل کیا گیا ہے تو میں اس کی مذمت کرتا ہوں اور اس دھاگے پہ لکھنے والے ہر رکن نے اس کی مذمت کی ہے۔

ساجد، عامر چیمہ کا ذکر میں نے کیا تھا۔ اور سب لوگوں کے فانیش کے قتل کی مذمت والی بات درست نہیں ہے۔ اور یہ رویہ اس قسم کی ہر خبر پر دیکھنے میں آتا ہے۔ برائی کو کم از کم برائی تو کہنا چاہیے۔ اگر خاموش رہنے کی روش ہی روا رکھنی ہے تو کراچی میں 12 مئی اور طاہر پلازہ والے واقعات کو بھی سرد خانے کی نذر کر دینا چاہیے۔ اب پلیز کوئی اس بات کو ہی نہ پکڑ لے۔
 

کعنان

محفلین
درست کہا آپ نے، اللہ تعالی کو اپنے دین کی سربلندی کے لیے ایسے ہی مجاہدوں کی ضرورت ہے۔ یقیناً گوجرہ میں عیسائیوں کو جلا کر راکھ کرنے والوں کا بھی بہت درجہ ہوگا۔ کراچی کی فیکٹری میں ہندو مزدور کو ہلاک کرنے والوں کو بھی ولایت مل گئی ہوگی۔ اور سندھ کی جیل میں قیدی کی گردن کاٹنے والوں کو اسی دنیا میں جنت کی بشارت مل گئی ہوگی۔ کافی آسان ہو گیا ہے مغفرت کا راستہ۔
جہاں تک عامر چیمہ کا تعلق ہے تو میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ جس کا دل کرتا ہے وہ اس کے مزار پر جا کر چلہ کاٹے، یہ اس کی مرضی ہوگی۔ اس طرح حقائق نہیں بدل سکتے۔

السلام علیکم جناب نبیل صاحب

فانیش مسیح کے ساتھ جو ہوا اسے ایک سوچی سمجھی سازش کہ سکتے ہیں اور جو بھی گوجرہ میں ہوا وہ بھی اسی کی ایک لڑی تھا۔ اس پر دکھ ہوا مگر یہ پاکستانی عوام کا قصور نہیں۔ ی
اور نبیل صاحب جو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ لوگ بھی ولایت مل گئی ہو گی "معاذ اللہ" لگتا ھے آپ نے قرآن نہیں پڑھا شائد یا دین سے بالکل غافل ہیں جو اسطرح کی باتیں کر رہے ہیں اس حساب سے نہ تو ان کو کچھ ملا اور نہ آپ کو ملے گا کیونکہ قرآن اس پر کیا کہہ رہا ھے وہ میں آپ کو دکھا دیتا ہوں۔

اور جو آپ بار بار چلہ کی تسبیہ پڑھ رہے ہیں تو اس پر آپ ایک الگ دھاگہ بنائیں اس پر بھی آپکی راہنمائی کی جائے گی انشا اللہ تعالی۔




فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
9:5
پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو تم (حسبِ اعلان) مشرکوں کو قتل کر دو جہاں کہیں بھی تم ان کو پاؤ اور انہیں گرفتار کر لو اور انہیں قید کر دو اور انہیں (پکڑنے اور گھیرنے کے لئے) ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
 
آپ کی ایک پوسٹ فورم پر موجود ہے جہاں آپ نے اس طرح کی رائے پیش کی تھی کہ اب لوگوں کو خود یہ کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ عدالتیں ایسے ملزمان کو بری کر دیتی ہیں۔ یہ دانشوری ہے یا بولہبی؟ اور توہین رسالت سے متعلق قانون بھی پاکستان میں باقی رہنا چاہیے۔ اگر یہ ختم ہو گیا تو پاکستان شاتمان رسول کی سر زمین بن جائے گا۔
لوگوں کو یہ کام خود کرنا پڑتا ہے یہ وجہ بیان کی جارہی ہے نہ کہ ایسے واقعات کو صحیح قرار دیا جارہا ہے۔ کیا آپ یہ معمولی بات پک نہیں کر پارہے؟؟؟؟ اوپر کی گئی میری پوسٹ سے کیا یہ بات ثابت نہیں ہو رہی کہ ایسے واقعات جن میں عوم ملوث ہو جاتے ہیں ایسا ہونا ٹھیک نہیں درست نہیں، صحیح نہیں‌، اچھا نہیں ، بھلا نہیں،‌ لیکن لیکن لیکن جب تک عدلیہ اور انتظامیہ درست نہیں ہوتی ایسے تمام واقعات بمعہ توہین رسالت کے ہوتے رہیں گئے۔ گو کہ ہونا نہیں چاہیے ۔اور قانون کی خلاف ورزی اور غلط استعمال ہر جگہ موجود ہے لیکن اس وجہ سے یہ قوانین ختم نہیں کیے جاسکتے۔

یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ لوگ حقیقت سے اس قدر بھی غافل نہیں ہے۔

یہ چیز الفاظ سے زیادہ اعمال سے واضح ہے۔ لوگ جو کر رہے ہیں محض لکھائی اس کو بدل نہیں سکتی۔

میرا اشارہ کسی مذہب یا مسلک کے متعلق بات کرنے کا تھا۔ میں امتیازی قوانین یا مجرموں کے احترام کا مکلف نہیں ہوں۔
جی اب میں سمجھا گویا آپ سرے سے مکلف ہی نہیں ہیں۔ پھر تو ٹھیک ہے۔ویسے اور کس مذہب یا مسلک کے حوالے سے گفتگو یہاں ہورہی تھی جو آپ کو یہ بیانیہ جاری کرنے کی ضرورت پڑ گئی؟؟
 

ساجد

محفلین
ساجد، عامر چیمہ کا ذکر میں نے کیا تھا۔ اور سب لوگوں کے فانیش کے قتل کی مذمت والی بات درست نہیں ہے۔ اور یہ رویہ اس قسم کی ہر خبر پر دیکھنے میں آتا ہے۔ برائی کو کم از کم برائی تو کہنا چاہیے۔ اگر خاموش رہنے کی روش ہی روا رکھنی ہے تو کراچی میں 12 مئی اور طاہر پلازہ والے واقعات کو بھی سرد خانے کی نذر کر دینا چاہیے۔ اب پلیز کوئی اس بات کو ہی نہ پکڑ لے۔
جی ، نبیل بھائی ، آپ درست کہہ رہے ہیں کہ بعض دوستوں کا رویہ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ شاید وہ خود بھی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہوتے یا ہمت نہیں کر سکتے کہ غلط کو غلط کہیں۔ ان کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں۔
جاوید احمد غامدی نے ایک بات بڑی خوبصورت کہی تھی کہ ہمارے معاشرے میں قرآن کی تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن اس کی تفہیم کا اہتمام نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جذباتیت کا دخل دین کے معاملات میں بڑھ چکا ہے۔
اب اتنے بڑے عالم کی اس بات کے سامنے میرے الفاظ کی کیا وقعت۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم جناب نبیل صاحب

فانیش مسیح کے ساتھ جو ہوا اسے ایک سوچی سمجھی سازش کہ سکتے ہیں اور جو بھی گوجرہ میں ہوا وہ بھی اسی کی ایک لڑی تھا۔ اس پر دکھ ہوا مگر یہ پاکستانی عوام کا قصور نہیں۔ ی
اور نبیل صاحب جو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ لوگ بھی ولایت مل گئی ہو گی "معاذ اللہ" لگتا ھے آپ نے قرآن نہیں پڑھا شائد یا دین سے بالکل غافل ہیں جو اسطرح کی باتیں کر رہے ہیں اس حساب سے نہ تو ان کو کچھ ملا اور نہ آپ کو ملے گا کیونکہ قرآن اس پر کیا کہہ رہا ھے وہ میں آپ کو دکھا دیتا ہوں۔

اور جو آپ بار بار چلہ کی تسبیہ پڑھ رہے ہیں تو اس پر آپ ایک الگ دھاگہ بنائیں اس پر بھی آپکی راہنمائی کی جائے گی انشا اللہ تعالی۔




فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
9:5
پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو تم (حسبِ اعلان) مشرکوں کو قتل کر دو جہاں کہیں بھی تم ان کو پاؤ اور انہیں گرفتار کر لو اور انہیں قید کر دو اور انہیں (پکڑنے اور گھیرنے کے لئے) ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
جی میری کوشش تو یہی ہے کہ موضوع پر گفتگو جاری رہے، ورنہ آپ جو بزعم خود دین کے ٹھیکے دار بن کر میرے دین سے بے بہرہ ہونے کا فتوی جاری کر رہے ہیں، اس کا میں اچھی طرح جواب دینا جانتا ہوں۔ اور آپ اپنی رہنمائی اپنے جیسوں کے لیے سنبھال کر رکھیے۔ آپ کے علم و دانش کے جو موتی یہاں بکھرے نظر آتے ہیں، ان سے آپ کی علمی حیثیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
جاوید احمد غامدی نے ایک بات بڑی خوبصورت کہی تھی کہ ہمارے معاشرے میں قرآن کی تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن اس کی تفہیم کا اہتمام نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جذباتیت کا دخل دین کے معاملات میں بڑھ چکا ہے۔

جی ہاں، یہی تو سارے فساد کی جڑ ہے۔ آپ کسی بھی عالم کے پاس کوئی "موجودہ" مسئلہ لیکر جائیں، وہ 1400 سال پرانے مسائل لیکر بیٹھ جائے گا!:) الغرض کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم کو ہمنے صرف اکیڈیمک حد تک رکھا ہوا ہے۔ اسکو عملی زندگی میں استعمال کرنا ، جو کہ اسکا اصل مقصد تھا، ہمارے لئے درکنار ہے۔ اسلام کے آپکو اسوقت ہزاروں لاکھوں مختلف ورژنز مل جائیں گے۔ ہر کوئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے پر تلا ہے اور اتفاق رائے کا مکمل فقدان ہے۔ مفاد پرستی اور ریاکاری کی وجہ سے یہ بلائیں ہم سے چمٹ گئی ہیں۔ جب تک ہم قرآن و سنت کے مفہوم کو عملی زندگی میں نہیں لائیں گے، حالات ایسے ہی رہیں گے جیسے آج ہیں!
 

کعنان

محفلین
جی میری کوشش تو یہی ہے کہ موضوع پر گفتگو جاری رہے، ورنہ آپ جو بزعم خود دین کے ٹھیکے دار بن کر میرے دین سے بے بہرہ ہونے کا فتوی جاری کر رہے ہیں، اس کا میں اچھی طرح جواب دینا جانتا ہوں۔ اور آپ اپنی رہنمائی اپنے جیسوں کے لیے سنبھال کر رکھیے۔ آپ کے علم و دانش کے جو موتی یہاں بکھرے نظر آتے ہیں، ان سے آپ کی علمی حیثیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔

السلام علیکم جناب نبیل

تو کیا آپ اب تک خاموش ہیں فتوے تو آپ لاگو کر رہے ہیں ہم نے تو ابھی تک کوئی فتوی نہیں دیا اور نہ ہی کوئی خیال ھے کیونکہ یہ کام مفتی حضرات کا ھے اور یہاں آپ کر رہے ہیں ہم تو آپ کے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں اگر آپ تھک گئے ہیں تو بتا دیں۔ میں دین کا ٹھیکہ دار نہیں ہوں جو قرآن میں تھا وہی آپ کو دکھایا ھے۔
غیر مسلم کو مارنے سے ان کو رتبہ ولایت کا آپ دلا رہے ہیں ہم تو آپ کو سمجھا رہے ہیں۔
آپ نے بھی اس کا مزار بنانا ھے تو بڑے شوق سے بناؤ غصہ نہ کرو جناب
آپ کو غصہ کسی اور بات پر ھے اور فانیش مسیح تو ایک بہانہ ھے۔
سوال کرو تو جواب سننے کا حوصلہ بھی رکھو بھئی


والسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
لوگوں کو یہ کام خود کرنا پڑتا ہے یہ وجہ بیان کی جارہی ہے نہ کہ ایسے واقعات کو صحیح قرار دیا جارہا ہے۔ کیا آپ یہ معمولی بات پک نہیں کر پارہے؟؟؟؟ اوپر کی گئی میری پوسٹ سے کیا یہ بات ثابت نہیں ہو رہی کہ ایسے واقعات جن میں عوم ملوث ہو جاتے ہیں ایسا ہونا ٹھیک نہیں درست نہیں، صحیح نہیں‌، اچھا نہیں ، بھلا نہیں،‌ لیکن لیکن لیکن جب تک عدلیہ اور انتظامیہ درست نہیں ہوتی ایسے تمام واقعات بمعہ توہین رسالت کے ہوتے رہیں گئے۔ گو کہ ہونا نہیں چاہیے ۔اور قانون کی خلاف ورزی اور غلط استعمال ہر جگہ موجود ہے لیکن اس وجہ سے یہ قوانین ختم نہیں کیے جاسکتے۔

عوام کے ان واقعات میں ملوث ہونے کی وجہ عدلیہ اور انتظامیہ کی خامیوں سے زیادہ عوام میں بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت ہے۔ جہاں مسجد کے سپیکر پر بار بار اعلان کرکے لوگوں کو انسانوں کے زندہ جلانے اور قتل کرنے کے لیے بھڑکایا جا رہا ہو وہاں عدلیہ یا انتظامیہ کہاں آتی ہے؟ امتیازی قوانین جیسے بن سکتے ہیں ویسے ختم بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن اب شاید اس قانون کو ختم کرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

یہ چیز الفاظ سے زیادہ اعمال سے واضح ہے۔ لوگ جو کر رہے ہیں محض لکھائی اس کو بدل نہیں سکتی۔

درست کہا آپ نے۔ محض جذبات کو بھڑکا کر اور حقائق کو مسخ کرکے بھی کسی کو شہید نہیں ثابت کیا جا سکتا۔

جی اب میں سمجھا گویا آپ سرے سے مکلف ہی نہیں ہیں۔ پھر تو ٹھیک ہے۔ویسے اور کس مذہب یا مسلک کے حوالے سے گفتگو یہاں ہورہی تھی جو آپ کو یہ بیانیہ جاری کرنے کی ضرورت پڑ گئی؟؟

کسی مجرم کو شہید نہ ماننے یا کسی امتیازی قانون پر تنقید سے کسی مسلک یا مذہب پر زد نہیں پڑتی ہے۔ یہی میرے کہنے کا مقصد ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم جناب نبیل

تو کیا آپ اب تک خاموش ہیں فتوے تو آپ لاگو کر رہے ہیں ہم نے تو ابھی تک کوئی فتوی نہیں دیا اور نہ ہی کوئی خیال ھے کیونکہ یہ کام مفتی حضرات کا ھے اور یہاں آپ کر رہے ہیں ہم تو آپ کے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں اگر آپ تھک گئے ہیں تو بتا دیں۔ میں دین کا ٹھیکہ دار نہیں ہوں جو قرآن میں تھا وہی آپ کو دکھایا ھے۔
غیر مسلم کو مارنے سے ان کو رتبہ ولایت کا آپ دلا رہے ہیں ہم تو آپ کو سمجھا رہے ہیں۔
آپ نے بھی اس کا مزار بنانا ھے تو بڑے شوق سے بناؤ غصہ نہ کرو جناب
آپ کو غصہ کسی اور بات پر ھے اور فانیش مسیح تو ایک بہانہ ھے۔
سوال کرو تو جواب سننے کا حوصلہ بھی رکھو بھئی


والسلام

جی نہیں یہ کوئی بہانہ نہیں ہے۔ اگر کوئی اور بات کہنی ہوتی تو وہ صاف کہہ دیتا۔
 
عوام کے ان واقعات میں ملوث ہونے کی وجہ عدلیہ اور انتظامیہ کی خامیوں سے زیادہ عوام میں بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت ہے۔ جہاں مسجد کے سپیکر پر بار بار اعلان کرکے لوگوں کو انسانوں کے زندہ جلانے اور قتل کرنے کے لیے بھڑکایا جا رہا ہو وہاں عدلیہ یا انتظامیہ کہاں آتی ہے؟ امتیازی قوانین جیسے بن سکتے ہیں ویسے ختم بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن اب شاید اس قانون کو ختم کرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
جی ہاں بالکل حادثوں کے بعد بس ڈرائیور کو بھی مار دیا جاتا ہے مذ ہبی جنونیت کی بنا پر ڈاکووں کو بھی مساجد سے اعلان کر کہ زندہ جلایا جاتا ہے؟؟؟ عوام میں ان جذبات کی وجوہات بنیادی طور پر یہی ہیں کہ ان کو اس نظام پر اعتماد نہیں‌ نہ ہی علما کو اور نہ ہی کسی اور کو۔ ایک ملا کو اگر یہ معلوم ہو کہ وہ لوگوں کو بھڑکائے اور کسی کو ویسے ہی قتل کروادے تو شفاف انصاف اس کا منتظر ہو گا ،علما کو یقین ہو کہ کسی بھی شاتم رسول کو فری ٹرائل کا موقع دیا جائے گا تاہم اس کو امریکا یا جرمنی فرار نہیں کرایا جائے گا، اور لوگ رفتہ رفتہ شفاف عدلیہ اور مضبوط انتظامیہ کے قائل ہو جائئیں تو کبھی بھی ایسے واقعات نہیں ہوں گئے جناب مغربی مملک میں بھی مذہبی جنونی کم نہیں لیکن ایسے واقعات کم تر ہونے کی وجہ وہاں کا عدالتی نظام ہی ہے۔

درست کہا آپ نے۔ محض جذبات کو بھڑکا کر اور حقائق کو مسخ کرکے بھی کسی کو شہید نہیں ثابت کیا جا سکتا۔
جی ہاں شہید تو شہید ہوتا ہے اس کی محبت اور احترام خود دل میں جگہ بنا لیتے ہیں ہاں مذکورہ بالا حربے سے کسی کو قاتل بنانے کی سعی ناکام کی جاسکتی ہے سعی ناکام کچھ یوں‌کہ حق بہر حال غالب آجاتا ہے۔

کسی مجرم کو شہید نہ ماننے یا کسی امتیازی قانون پر تنقید سے کسی مسلک یا مذہب پر زد نہیں پڑتی ہے۔ یہی میرے کہنے کا مقصد ہے۔
لیکن اکثریت جس کو شہید مانتی ہو اور جس قانون کا احترام کرتی ہو اس پر بلا وجہ برا کہنے سے اکثریت کے جذبات ضرور مجروح ہو جاتے ہیں۔اکثریت ان کو کیا مانتی اس کو جاننے کا طریقہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top