غلطی ہائے مضامین: گُل افشانیِ گُفتار ٭ ابونثر

گُل افشانیِ گُفتار
ابونثر (احمد حاطب صدیقی)
٭
کل ہم ایک گھر میں مہمان گئے۔ خاتونِ خانہ نے خوش ہوکر اپنے بچے سے ملوایا۔ ملتے ہوئے عادتاً منہ سے نکل گیا:۔
’’السلامُ علیکم۔ کہیے جناب! مزاجِ گرامی بخیر؟‘‘
خاتون ہنس پڑیں۔ کہنے لگیں: ’’آپ بہت ثقیل اردو بولتے ہیں‘‘۔
عرض کیا: ’’آپ بھی تو کچھ کم نہیں۔ ’ثقیل‘ کون سا ہلکا لفظ ہے‘‘۔
فرمایا: ’’ثقیل توآسان لفظ ہے۔ سلیس کی ضد ہے نا؟ مشکل کو کہتے ہیں نا؟‘‘
سوال سُن کر ہم خود مشکل میں پڑ گئے۔ ہر جگہ تو کالم نگاری یا ’کالم گوئی‘ کرنے سے رہے۔ ’’جی ہاں‘‘ کہہ کر جان چھڑائی۔

بہت سے الفاظ ہیں، جن کے استعمال کا موقع محل تو بزرگوں سے سن سن کر ہمیں معلوم ہوگیا، مگر مطلب نہیں معلوم۔ ’ثقیل‘ ہی کی مثال لے لیجیے۔ یہ لفظ ہم نے ثِقہ قسم کے ثِقال سے سن رکھا ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں وزنی، بھاری، بوجھل۔ جو غذا پیٹ میں گرانی کرے وہ بھی ’ثقیل‘ کہی جاتی ہے۔ جلد ہضم نہیں ہوتی۔ معدے کا بوجھ بڑھا دیتی ہے۔ یہ بوجھ لیے لیے پھرنا پڑتا ہے۔ ’کشش ثقل‘ اُن گنے چنے چند مرکب الفاظ میں سے ایک ہے، جن کا استعمال آج بھی ہورہا ہے۔ زمین تو اس کا استعمال جب سے بنی ہے تب ہی سے کررہی ہے۔ ہر بوجھل شے کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ وزن دار چیزکھینچ لینے کی اس صفت کو ’کشش ثقل‘ کہتے ہیں۔ سورۃ الزلزال کی دوسری آیت میں قیامت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ’’زمین اپنے بوجھ (اَثقالھا) باہر نکال پھینکے گی‘‘۔ اسی سورۃ کے آخر میں ’’مِثقال‘‘ کا ذکر بھی آیا ہے، جس کا مطلب ہے کسی چیز کا وزن، یا وزن معلوم کرنے کا پیمانہ۔ ’’مِثقَالَ ذرّۃِِ‘‘ کا مطلب ہے ایک ذرّے کے برابر وزن۔ ثقیل کی جمع اَثقال اور ثِقال ہے۔ ثِقال کا لفظ عام طور پر بھاری بھرکم شخصیات کے لیے بولا جاتا ہے، خواہ وہ بھولو پہلوان جیسی جسمانی طور پربھاری بھرکم شخصیات ہوں، یا قائداعظمؒ کی طرح کردار کے لحاظ سے بھاری بھرکم شخصیات۔ تحریرو تقریر میں اگر بھاری بھرکم الفاظ استعمال کیے جائیں تو اسے ’ثِقالت‘ کہتے ہیں۔ جن بزرگوں کو سننا ایک بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے، ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھیں ’ثقلِ سماعت‘ کا عارضہ لاحق ہوگیا ہے، کان بوجھل ہوگئے ہیں۔ سورہ رحمٰن میں جن و بشر دونوں کو ’ثقلان‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ مراد ہے دو گراں قدر انواع یا گروہ۔ ’ثقلین‘ کے بھی یہی معانی ہیں، نیز دونوں جہانوں کو بھی ثقلین کہا گیا ہے۔ القصہ مختصر، ثقیل کوئی ہلکا لفظ نہیں ہے، اسے یوں ہی ہلکا لے لیا گیا ہے۔

الفاظ کثرتِ استعمال سے مانوس ہوکر آسان لگنے لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں ’تفتیش‘ کا لفظ بکثرت استعمال ہوتا ہے، اسی وجہ سے مشکل نہیں، آسان لگتا ہے۔ مگر ہے یہ بھی ایک بھاری بھرکم لفظ۔ خاص طور پر جس شخص سے تفتیش کی جارہی ہو، حوالات میں مرغا بناکر سوالات کیے جارہے ہوں، پھر ان سوالات کا جواب مل جانے پر بھی اور نہ ملنے پر بھی تشریف پر جوتے رسید کیے جا رہے ہوں، اُس شخص کے لیے تو یہ لفظ بہت بھاری پڑتا ہے۔ عربی میں ’’فَشَا یَفشُو‘‘ کا مطلب ہے خبر یا بھید کا ظاہر ہونا۔ پھیل جانا۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے: ’’اَفشواالسّلام‘‘ یعنی سلام کو پھیلاؤ۔’اِفشا‘ بھی اسی سے نکلا ہے (الف کے نیچے زیر ہے)، جس کا مطلب ہے کھول دینا، فاش کرنا:۔
آنسووں نے مجھ کو رُسوا کر دیا
رازِ دل آنکھوں نے اِفشا کر دیا
ہمارے ذرائع ابلاغ اکثر وبیشتر دوسروں کے راز اِفشا کرتے رہتے ہیں، مگر ایک اخبار نے اس بُری عادت سے بچنے کے لیے پچھلے دنوں کسی وزیر کا ’’راز اَفشاں‘‘ کر دیا تھا۔ ہم نے لغت میں ’اَفشاں‘ کا مطلب دیکھا تو لکھا تھا: ’’سونے کا یا سنہری بُرادہ جو زنانہ سنگھار کے طور پر مانگ میں یا ماتھے پر چھڑکا جاتا ہے‘‘۔گویا راز مزید چمک اٹھا،جس پر ماضیِ بعید کے شاعر وزیرؔ نے خوشیاں منائیں:۔
یار پیشانی و ابرو پہ چُنے گا اَفشاں
آج محرابِ عبادت میں چراغاں ہو گا
اسی افشاں کو چھڑکنے، جھڑنے یا بکھیرنے کے معنوں میں لاحقے کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ’’مہر افشاں‘‘ محبت چھڑکنے والی، یا’’گُہر فِشاں‘‘موتی بکھیرنے والا۔ اگر آپ کے رستے میں اشجار ’’برگ فشاں‘‘ ہوجائیں تو پتے جھڑ رہے ہوں گے۔
چچا غالبؔ اپنے لب و دہن سے گفتگو کے گُلوں کا چھڑکاؤ کیا کرتے تھے:۔
پھر دیکھیے اندازِ گُل افشانیِ گُفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے​

ٹیلی وژن کے ایک مذاکرے میں پیمانۂ صہبا چڑھا کر آجانے والے ایک مشہور کالم نگار کو ’’گُل افشانیِ گالی گُفتار‘‘ کرتے ہم نے خود بھی دیکھا ہے۔
’’فَشَا یَفشُو‘‘ سے شروع ہونے والی بات بہت دور تک پھیل گئی۔ کہنا یہ تھا کہ بابِ تفعیل میں پہنچ کریہ لفظ ’’تفتیش‘‘ بن گیا، جس کا مطلب ہے بھید معلوم کرنا، خبر کی کھوج لگانا، سرسری تحقیقات کرنا، وغیرہ۔ لفظ مشکل ہے مگر کثرتِ استعمال نے اس کو آسان کردیا ہے۔ ہمیں اپنے علمی و تہذیبی سرمائے سے اپنا اور اپنی آئندہ نسلوں کا تعلق برقرار رکھنے کے لیے اپنے دل کش الفاظ کا استعمال ترک نہیں کرنا چاہیے، جاری رکھنا چاہیے۔ ورنہ عدم استعمال سے تو ’’مزاجِ گرامی بخیر؟‘‘ بھی ’ثقیل‘ شمار کیا جاسکتا ہے۔

’’گُل افشانیِ گفتار‘‘ کے لیے اُردو میں ’’ پھول جھڑنے‘‘ کا محاورہ بھی مستعمل ہے۔ پچھلے برسوں احمد فرازؔ کا ایک شعر بہت مشہور ہوا:۔
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں​
بات اپنی زبان میں کی جائے تو سچ مچ پھول جھڑتے ہیں۔ مختار مسعود مرحوم کی لکھی ہوئی ہر سطر پُھلواری کا سا منظر پیش کرتی ہے۔ انقلابِ ایران کی آنکھوں دیکھی داستان پر مشتمل ان کی کتاب ’’لوحِ ایّام‘‘ میں ’’الفاظ‘‘ کے عنوان سے ایک الگ باب قائم کیا گیا ہے۔ اس باب سے چند فقروں کے گُل دستے قارئین کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں:۔

’’اردو میں فیشن کے بہت سے تراجم اور مترادف ہیں، مگر اس انگریزی لفظ کا استعمال ایک فیشن بن چکا ہے۔ آؤٹ آف فیشن کا ترجمہ انجمن ترقی اردو ڈکشنری (1985ء ایڈیشن) میں کچھ یوں درج ہے: مروجہ وضع قطع کے خلاف۔ اس میں نہ اختصار ہے نہ لطف۔ اس کیفیت کو فارسی میں بے رواج ہونا کہتے ہیں۔ بات مختصر اور مکمل۔ آسان اور شیریں‘‘۔

’’دفتری گھس گھس جسے ہم پاکستان میں حقارت سے کاغذی کارروائی کہتے ہیں، ایران میں کاغذ بازی کہلاتی ہے۔ کارروائی سے یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی نے کوئی نہ کوئی کام سر انجام دیا ہے۔ بازی زیادہ موزوں ہے کیوں کہ جو کچھ کاغذات میں ہوا وہ ایک کھیل تھا جو نالائق عملہ بڑی مہارت سے کھیلتا ہے‘‘۔

’’جو کام مقررہ وقت سے زائد وقت میں کیا جائے اس کے لیے اردوکی اپنی کوئی اصطلاح نہیں ہے، لہٰذا انگریزی لفظ اوورٹائم سے کام چلاتے ہیں۔ فارسی میں اسے اضافہ کاری کہتے ہیں‘‘۔

ریفرنڈم کا ذکر کرتے ہوئے جناب مختار مسعود اس کے فارسی مترادف سے یوں مطلع کرتے ہیں:۔
’’اگر آپ مجھ سے ایران کا حال پوچھیں تو احوال پُرسی۔ کسی صحت مند سے اس کا حال پوچھیں تو مزاج پُرسی۔ اگر بیمار سے جا کر اس کا حال دریافت کریں تو بیمار پُرسی۔ کوئی بھی پوچھنے کے لیے نہ آئے تو کَس مپرسی۔ لہٰذا کسی مسئلے پر سب کی رائے حاصل کریں تو اسے کہیں گے ہمہ پُرسی‘‘۔

’’اردو میں پیسفک اوشن کا ترجمہ بحرالکاہل ہے۔معلوم نہیں یہ ترجمہ کس کاہل، بے خبر اور غیر ذمہ دار شخص نے کیا تھا۔ دنیا کے سب سے بڑے (اڑسٹھ ملین مربع میل) اور سب سے گہرے سمندر (تیس ہزار فٹ) سے یہ کہنا کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں لہٰذا تم بحرالکاہل ہو، ایک بے وزن بات لگتی ہے۔ اہلِ ایران اس سمندر کو اوقیانوسِ آرام یا اوقیانوسِ سکون کہتے ہیں‘‘۔
چلیے اب آپ بھی اگلے جمعے تک آرام وسکون کے سمندر میں غوطے لگائیے، بلکہ اپنی ذات میں خود بحرالکاہل بن جائیے۔
 
Top