غلطی ہائے مضامین: عروسِ اُردو کے لیے رومن فراک ٭ ابونثر

عروسِ اُردو کے لیے رومن فراک
ابونثر (احمد حاطب صدیقی)

ہمارے ہاں اردو کا غلط تلفظ عام کرنے میں سلطنتِ روما کے ماہرینِ لسانیات کا بڑا ہاتھ ہے۔ نہ وہ رومن حروف ایجاد کرتے نہ ہماری اُردو خراب ہوتی۔ اس خرابی سے ہمارا ہر شہر خرابہ بن رہا ہے۔ کسی بھی شہر میں کسی طرف نکل جائیے، بڑے بڑے اشتہاری تختوں پر آپ کی انگریزی خوانی کا امتحان لیا جارہا ہوگا کہ دیکھیں تو سہی کہ آپ Khana کو ’کھانا‘ پڑھتے ہیں یا ’خانہ‘؟ دُکانوں کے نام ہوں، دُکان داروں کے دیے ہوئے تھیلے ہوں یا پرچۂ اشتہار، سب پر رومن حروف میں لکھی ہوئی اردو آپ کو زبان چڑا رہی ہوگی۔

چڑ کر گھر میں آبیٹھیں تو اخبارات اور برقی ذرائع ابلاغ خود آپ کے گھر میں گھس کر اُسی زبان کا حلیہ بگاڑنے پر تُلے نظر آئیں گے جس زبان کو انھوں نے خود ہی اپنے ذریعۂ ابلاغ کے طور پر منتخب کیا ہے۔ نشریاتی اداروں سے اردو میں نشر کیے جانے والے پروگراموں کے نام ہوں، ڈراموں کے عنوان ہوں یا ان کے مصنفین اور اداکاروں کے نام، سب کے سب رومن رسم الخط میں دکھائے جارہے ہوں گے۔ نہ جانے کس نے اُنھیں یہ پٹّی پڑھا دی ہے کہ تمھاری طرح تمھارے ناظرین بھی جاہل ہیں، اُردو حروف پڑھ نہیں پائیں گے۔ ہمارے مغرب پرست ماہرین ابلاغیات کی یہ مجبوری تو ہے ہی کہ وہ کسی زبان کے ماہر نہیں۔ اچھی طرح انگریزی آتی ہے نہ بُری بھلی اُردو۔ مگر اس سے بھی بڑی مجبوری یہ ہے کہ ناظرین کی شرح میں اضافے کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے، اُس میں آگے بڑھنا اُردو زبان کو ذریعۂ ابلاغ بنائے بغیر ممکن ہی نہیں۔ کیوں کہ اس ملک کی قومی زبان اُردو ہے، عوامی زبان اُردو ہے اور ملک کی مختلف زبانیں بولنے والوں کے مابین رابطے کی زبان بھی اُردو ہی ہے۔ مگر یہ جو ناک میں انگریزی بولنے والا نکٹا ولایتی بھوت سر پر سوار ہوگیا ہے، وہ اُن سے اردو بھی انگریزی حروف میں لکھواتا ہے۔ بدیسی تجارتی اداروں کے اشتہارات نے تو اس دیس کی زبان بگاڑنے کو اپنا ہدف یا نصب العین ہی بنا لیا ہے۔ اگر وہ رومن حروف میں ’’پیو اور جیو‘‘ نہیں لکھیں گے تو شاید پی پی کر جینے والوں کو اُن کے مشروبات کی تیزابیت محسوس نہیں ہوگی۔

آج کل لوگ سمجھتے ہیں کہ رومن حروف میں اردو لکھنے کی وبا جدید ابلاغی آلات کی عطا ہے۔ یہ ابلاغی آلات بھی دیکھتے ہی دیکھتے ہماری زندگیوں میں بالکل اُسی طرح دخیل ہوگئے، جیسے کڑکتی سردی میں کسی بَدُّو کے خیمے میں اُس کا اونٹ پہلے صرف گردن ڈالنے کی اجازت چاہتا ہے، پھر رفتہ رفتہ اونٹ اندر اور بَدُّو باہر۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ہم بین الاقوامی رابطے کے نظام یعنی International Network سے روشناس کرائے گئے، جس کا مخفف Inter. Net. ہے۔ اس عالمی ربط پر برساتی کُھمبیوں کی طرح بہت سے سماجی ذرائع ابلاغ اُگ آئے۔ ابتدا میں ان جدید آلات پر تحریر کرنے کے لیے اردو کی تختی میسر نہ تھی، اس وجہ سے لوگوں نے مجبوراً رومن حروف میں اردو لکھنے سے ان ذرائع کو استعمال کرنے کا آغاز کیا۔ مگر بہت جلد اُردو اپنا رسم الخط لے کر تمام سماجی ذرائع ابلاغ تک پہنچ گئی۔ لہٰذا اب اردو پیغام رسانی کی راہ میں کوئی مجبوری حائل نہیں رہی، معذوری البتہ حائل ہوسکتی ہے۔

پاکستان کے اندر رومن حروف میں اردو تحریر کرنے کا فتنہ سب سے پہلے ایوب خان کے ’’دورِ انقلاب‘‘ میں اُٹھا۔ تہذیبِ حاضر کی چمک دمک سے خیرہ نظری کا شکار ہوجانے والے دیگر اذہان کے مثل، ایوب خان کا بھی خیال تھا کہ مصطفی کمال پاشا کی طرح رومن رسم الخط اختیار کرلینے سے ہم بھی ترقی کی راہ پر دوڑنے لگیں گے۔ مگر آج کی طرح اُس زمانے میں بھی اردو نے اپنی بقا کی جنگ پوری قوت سے لڑی اور اپنے آپ کو توانا زبان ثابت کرکے اپنا رسم الخط بچا لیا۔ برصغیر میں رومن رسم الخط پہلی بار کب استعمال ہوا؟ اس ضمن میں مولانا عبدالقدوس ہاشمی کی ایک تحریر، جو ایوب خان کی تجویز کے جواب میں اُردو کالج کراچی کے مجلے ’’برگِ گُل‘‘ کے ’’ایوب نمبر‘‘ میں 1960ء میں شائع ہوئی، ہمیں بتاتی ہے:۔

’’اس تجویز کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ یورپی تاجروں نے اپنے کارندے، جو وہ یورپ سے لاتے تھے، ان کو یہاں کے مقامی الفاظ، خصوصاً افراد اور مقامات کے نام یاد کرانے کی یہ ترکیب نکالی تھی اور اس کام کے لیے یہ ترکیب تھی صحیح، کیونکہ فارسی حروف انہیں سکھانا مشکل تھا‘‘۔
(بحوالہ ’’معارف فیچر‘‘ شمارہ 16مارچ 2014ء۔ شائع کردہ: اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی)

اُسی زمانے کی ایک دلچسپ تقریر ہمیں سابق مغربی پاکستان کے چیف جسٹس محمد رستم کیانی کے مجموعہ تقاریر ’’افکارِ پریشاں‘‘ میں ملتی ہے۔ جسٹس کیانی نے مدیر ’’چراغِ راہ‘‘ پروفیسر خورشید احمد کے ایک سوال کے جواب میں جو کچھ کہا، اُس سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ سوال یہ تھا: ’’کیا اردو زبان کا موجودہ رسم الخط کسی تبدیلی کا متقاضی ہے؟‘‘

جسٹس ایم آر کیانی نے جواب دیا:’’اردو رسم الخط نے خود تو کوئی تقاضا نہیں کیا کہ مجھے بدلا جائے۔ مگر آپ کی یہی رضا ہے تو پھر اُردو کی قضا ہے۔ البتہ انسان کی فطرت اس بات کی مقتضی ہوتی ہے کہ چیزیں ہمیشہ بدلتی رہیں۔ کوئی اس کو جدّت کہتا ہے، کوئی بدعت، اور کوئی تو انقلاب کے درجے تک پہنچا دیتا ہے۔ اب چوں کہ آپ کو اور کوئی تبدیلی نہیں سوجھتی اور شادیاں بھی چار سے یک لخت ایک ہونے پر آپ’’ کُل جدید لذیذ‘‘ کی لذت سے محروم ہوگئے ہیں اس لیے عروسِ اردو کو شریکِ حیات سمجھ کر اپنے جنسی میلانوںکی تسکین کے لیے اُس کو رومن اردوکا فراک پہناتے ہیں۔ میرے خیال میں محترم پروفیسر خورشید احمد کو متقاضی کے بجائے متحمل کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا۔ کیا اردو رسم الخط بھی اتنی تبدیلی برداشت کر سکتا ہے کہ اسے رومن کا جامہ پہنایا جائے؟ مگر جامے کی تشبیہ یہاں غلط ہے۔ اُس کا توچہرہ ہی بدل جائے گا۔ یہ محض لباس کا بدلنا نہیں ہے۔ رسم الخط کو تو زبان سے وہ تعلق ہے جو تن کو جان سے ہے۔میں نے فراک کا ذکر اس لیے کیا تھا کہ یہ اہلِ مغرب کا مخصوص لباس ہے اور غالباً اردو کو رومن بنانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اسے مغرب کے لیے دلپذیر بنایا جائے۔ مگر آپ بھول رہے ہیں کہ کسی زبان کی اہمیت اُس کی اپنی خوب صورتی سے نہیں بڑھتی، بلکہ اُس کے بولنے والوں کی خوب صورتی سے بڑھتی ہے۔ جب آپ اخلاقی طور پر صحت مند ہوجائیں گے توآپ کی قومیت کا اعتبار قائم ہوجائے گا اور دنیا آپ کی اُردو بھی سیکھے گی اور اس کے رسم الخط کے نخرے بھی اُٹھائے گی۔ کافِ کابل اور قافِ قندھار کے باریک فرق کو دیکھ کر لوگ کہیں گے کہ سبحان اللہ! محض حروف کے امتیاز میں یہ لوگ کتنی دُور چلے گئے ہیں‘‘۔
(اقتباس از:’’افکارِ پریشاں‘‘ مجموعہ تقاریر جسٹس ایم آر کیانی مرحوم)

ہمارا رسم الخط بھی ہماری قومی یکجہتی اور ہماری لسانی ہم آہنگی کا آئینہ دار ہے۔ سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو سمیت تقریباً تمام پاکستانی زبانیں دائیں سے بائیں کو لکھی جاتی ہیں اور خطِ نسخ یا خطِ نستعلیق میں رقم کی جاتی ہیں۔ ان کے اکثر و بیشتر حروفِ تہجی بھی مشترک ہیں۔ جب کہ رومن حروفِ تہجی بائیں سے دائیں کو لکھے جاتے ہیں اور یہ حروف بھی ہمارے خطے کی زبانوں کے لیے اجنبی ہیں۔ رومن حروف میں اردو تحریر کرنے کو رواج دینے سے اردو بھی اجنبی ہوجائے گی اور اپنی ہمشیر زبانوں سے اس کا ناتا ٹوٹ جائے گا۔ یوں ہماری قومی زبان پوری قوم سے بیگانہ ہوجائے گی۔
ہمارے رسم الخط کا ہماری قوم کے عقائد، تہذیب، تمدن اور ثقافت سے کیا رشتہ ہے؟ اس موضوع پر ان شاء اللہ اگلی نشست میں بات ہوگی۔
 
ہمارا کالم ذاتی کتب خانہ - رسم الخط اور انتظار حسین
بھی ملاحظہ فرمائیے۔

اردو کے بہت بڑے افسانہ نگاروں میں انتظار حسین کا نام یقیناً شامل ہوتا ہے۔ ان کا اپنا ایک خاص اندازِ تحریر ہے جو ہمیں بے حد پسند ہے۔ گزشتہ دنوں محمد خالد اختر کی کتاب ’’ مکاتیبِ خضر ‘‘ خریدی اور اس میں انتظار حسین کے نام حضرتِ خضر کا خط پڑھ کر طبیعت باغ باغ ہوگئی۔ انتظار حسین کی تحریر کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔ خالد نے انہیں ’’ رِپ وین ونکل ‘‘ سے تشبیہہ دی ہے کہ ’’ اس بستار صدی کے شہر لاہور میں حضرت جانِ عالم واجد علی شاہ کے لکھنئو میں جیتے ہو‘‘۔عین مین ان کی تحریرکا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ خوب ۔ حال ہی میں انتظار حسین کا مشہور افسانہ ’’ شہرزاد کی موت‘‘ پڑھا۔ کیا خوبصورت افسانہ ہے۔ جب تک شہرزاد موت کے ڈر سے کہانیاں سوچتی رہی، اس کے اندر کی تخلیق کار زندہ رہی۔ جوں ہی موت کا خوف ختم ہوا، کہانیاں تخلیق کرنا ختم۔ شہرزاد گویا مرگئی۔ ہمیں ان کا یہ نکتہ بہت خوب صورت لگا۔ کب تک انسان سوچنے کے قابل ہے ، تخلیق کرنے کے قابل ہے۔ جب سوچنا چھوڑدیا گویا موت سے پہلے ہی مرگئے۔


سرِ دست انتظار حسین کی کتاب’’ علامتوں کا زوال‘‘ سے ایک مضمون ’’ رسم الخط اور پھول‘‘ پر بات کرنے کو جی چاہتا ہے۔ لکھتے ہیں۔

’’بات ہے رسم الخط کی لیکن معاف کیجیے مجھے ایک اشتہاری اعلان یاد آرہا ہے جو سنلائیٹ صابون والوں کی طرف سے ہوا ہے۔ سنلائیٹ کی کسی ٹکیا میں انہوں نے ایک چابی چھپاکر رکھ دی ہے۔ جس کسی خریدار کی ٹکیا سے یہ چابی نکلے گی، اسے وہ ایک موٗثر انعام دیں گے۔ اس اعلان کے بعد سے پاکستان کے شہروں میں سنلائیٹ صابون بہت بکتا شروع ہوگیا ہے اور مولانا محمد حسین آزاد نے یہ بتایا تھا کہ نئے انداز کی خلعتیں اور زیور جو آج مناسبِ حال ہیں انگریزی صندوقوں میں بند ہیں ، ان صبدوقوں کی کنجی انگریزی دانوں کے پاس ہے۔‘‘

یہاں تک تو ولے بخیر گزشت کہ علومِ جدید حاصل کرکے دنیا کی برابری کرنے کا شوق کچھ برا بھی نہیں۔ جب تک مسلمانوں کے پاس علم تھا، دوسری قومیں ان کی زبان سیکھ کر ان سے علم حاصل کرنے کو بھی جائز سمجھتی تھیں۔ آج مغرب کے پاس علم ہے جسے ہم ان کی زبان کے ذریعے حاصل کریں تو اس میں کوئی حرج نہین۔ آگے چل کر اسی سے ایک ایسا نکتہ نکالتے ہیں جسے پڑھ کر انسان جھوم جائے۔


’’اصل میں ہم پچھلے سو سال سے مغرب سے صابون کی ٹکیاں خرید رہے ہیں اور ان صندوقوں کی کنجی کی تلاش میں ہیں جن میں نئے علوم بند ہیں، تازہ خبر یہ ہے کہ یہ کنجی رومن رسم الخط کی ٹکیا میں بند ہے۔

لاٹری کے ذریعے دولت تو حاصل کی جاسکتی ہے ۔ مگر ہم علم بھی لاٹری ہی کے ذریعے حاصل کرنے کی فکر میں ہیں۔‘‘


ہم نے اردو میڈیم سے میٹرک کیا تھا لہٰذا اردو ہی سے شغل رہا اور فارسی رسم الخط ہی میں اردو پڑھی اور لکھی۔ فارسی رسم الخط جیسے ہمارے خون میں رچی بسی ہے۔ نیا زمانہ آیا ، انگریزی زبان ذریعہٗ تعلیم بنا تو ہم نے اپنے ہی بچوں کو رومن میں اردو لکھتے دیکھا۔ پھر کمپیئوٹر اور موبائل آئے تو تب بھی اردو لکھنے کے لیے رومن رسم الخط ہی کو استعمال کیا جاتا۔ یہی زمانہ تھا جب رسم الخط تبدیل کرنے کی باتیں شروع ہوئیں۔یوں دو طبقہ ھائے خیال بن گئے۔ ایک وہ جو فارسی رسم الخط ہی کو بہتر سمجھتے تھے۔ دوسرا گروہ رومن رسم الخط کو اپنا کر دنیا کے ساتھ چلنا چاہتا تھا۔

انتظار حسین کیا چھا لکھتے ہیں۔’’ آدمی نے پہلی پہل براہِ راست چیزوں کی تصویریں بناکر صرف مطلب کا اظہار کیا۔ یہ تصویریں تجریدی رنگ میں ڈھلتے ڈھلتے رسم الخط بن گئیں۔ اب یہ تصویریں رسم الخطوں کی تہوں میں اسی طرح پیوست ہیں جس طرح اجتماعی لاشعور میں قدیم شکلیں اور تشبیہیں مدفون رہتی ہیں۔‘‘

آگے لکھتے ہیں؛

’’فارسی رسم الخط ہماری تہذیب کی وہ شکل ہے جو اس کی بنیادی وحدت کے نشان کا مرتبہ رکھتا ہے۔ لیکن اگر ہماری تہذیب کی دوسری شکلیں جارہی ہیں تو یہ نشان کب تک کھڑا رہے گا۔ اور اگر یہ نشان گرگیا تو تہذیب کی باقی شکلیں کتنے دن کی مہمان ہیں۔‘‘


یہ وہ زمانہ تھا جب یار لوگ ترکی کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ جوں ہی ترکی نے اپنا رسم الخط بدلا، ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ فوراً اردو کا رسم الخط فارسی سے تبدیل کرکے رومن رسم الخط اپنا لیں، یوں وہ بچے جو انگریزی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، کم از کم اپنی زبان سے تعلق رکھ پائیں گے۔ نیز سونے پر سہاگہ یہ کہ کپئیوٹر پر اردو لکھنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ گوروں سے کوئی امید نہیں تھی کہ ہندی اور چائینیز کی طرح کمپئیوٹر پر اردو بھی لے آئیں گے۔ مائیکروسوفٹ نے کچھ ہمت کرکے شاید ونڈوز اردو میں بنالی تھی لیکن پاکستان میں کوئی اسے خریدنے پر تیار نہ ہوا۔ ہم تو مفت سوفٹ وئیر اپنے کمپئیوٹر پر انسٹال کرنے کے ہمیشہ سے عادی ہیں۔ ایک زمانے میں کراچی میں پر قسم کا سوفٹ وئیر ڈسک پر کاپی کرکے بیچا جاتا ۔ یہ سستا حل ہم پاکستانیوں کو بہت بھاتا۔


انتظار حسین نے رسم الخط کو پھولوں سے تشبیہہ دی ہے، فارسی رسم الخط جو ہماری رگوں میں دوڑ رہا تھا ، اسے دیسی پھولوں اور رومن رسم الخط کو بدیسی پھولوں سے ۔ کہتے ہیں؛

’’جب باغیچوں سے ان کے اپنے پھول رخصت ہوجائیں اور پرائے پھول کھلنے لگیں تو یہ وقت اس زمین کی پوری تہذیب پر بھاری ہوتا ہے۔ رسم الخط اپنی جگہ کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ تہذیب کا حصہ ہوتا ہے۔ ۔ یہ تہذیب شکلوں کے ایک سلسلے کو جنم دیتی ہے۔ یا پہلے سے موجود شکلوں کو ایک نئی معنویت دے دیتی ہے۔‘‘


آگے اپنی بحث کے اختتام پر لکھتے ہیں؛

’’انگریزی پھول اور رومن حروف اجنبی زمینوں سے آئے ہیں۔ہمیں ان سے مہک نہیں آتی‘‘


قریب تھا کہ ان لوگوں کی کوششیں رنگ لے آئیں جو رومن رسم الخط اپنانا چاہتے تھے۔ اسی اثنا میں ایک نہایت عجیب واقعہ رونما ہوا۔ اردو کے جیالوں نے پہلے شاہکار اور ان پیج بنایا اور پھر یونی کوڈ کے ذریعے اردو کے خوبصورت فونٹ ایجاد کرڈالے۔ یہ آج سے کوئی دس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ ہم نے یونی کوڈ سے واقفیت حاصل کی اور بہت مسرور ہوئے۔ نیٹ پر جاکر ہر جگہ اردو لکھنے کی کوششوں میں اردو محفل سے شناسائی ہوئی اور فوراً ممبر بن گئے۔ یہ واقعہ ۲۳ دسمبر ۲۰۱۰ کا ہے۔ جنوری ۲۰۱۱ تک ہم اردو محفل کے سرگرم رکن بن چکے تھے۔

یونی کوڈ کی ایجاد کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہم انگریزی ونڈوز ہی میں رہتے ہوئے ورڈ، ایکسل ، اردو محفل، فیس بک اور دیگر ویب سائیٹس پر اردو لکھنے کے قابل ہوگئے۔ اردو سے محبت کرنے والوں نے ہر قسم کی کتابوں کو ڈیجیٹائز کرکے ویب پر ڈالنا شروع کردیا۔


آج موبائل کے تقریباً ہر سسٹم اور سوفڑ ویر پر اردو کی بورڈ کی سہولت موجود ہے۔ آج بچہ بچہ اردو لکھ اور پڑھ سکتا ہے۔ اردو میں میسج اور واٹس ایپ میسج لکھنا ایک عام ہی بات ہوگئی ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم اس خوفناک دور سے کوسوں نہیں میلوں اور صدیوں دور نکل آئے ہیں جب رومن رسم الخط کو اپنانے کی بات ہوتی تھی۔اب اردو کا فارسی رسم الخط ہی زندہ رہنے والا ہے۔اب ہمیں نہ آرٹ بیسڈ ان پیج چاہیئے نہ ہی اردو ونڈوز ۔ اب اسی سسٹم میں رہتے ہوئے ہم کمپئیوٹر ، اور موبائل ہر جگہ اردو لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ انتظار حسین زندہ ہوتے تو اس صورت حال پر بہت خوش ہوتے۔

ٹیگ الف عین ، ظہیراحمدظہیر سید عاطف علی ، محمد تابش صدیقی ، سیما علی
محمداحمد
 
Top