غزل

رشید حسرت

محفلین
کچھ نہیں تعلّق پر، میرا نام گُوگل پر لکھ کے سرچ کِیجے گا
شعر ہیں مِرے پِھیکے پِھر بھی ہے توقع سِی
کُھل کے داد دِیجئے گا

بات کیا قبا کی ہو، اے مِرے رفُوگر دیکھ، دل بھی اب دریدہ ہے
کام کر توجہ سے، چھید نا رہے باقی سارے چاک سِیجے گا

چاہتے ہو گر یارو لُطف ماورا آئے، آبِ آتشیں سے، تو
اشک مُ الخبائث میں اے مِرے رِندو بس ملا کے پِِیجے گا

آپ ہیں دُکھی تو ہوں، مُجھ سے کیا بھلا مطلب آپ کو پتہ تو ہے
آپ کے دُکھوں پہ ہی مُجھ سے پتھر دِل کا دِل کِس لیئے پسِیجے گا؟

ڈوبنے کو ہے لوگو میرے پیار کی ناؤ، بوجھ کیسے ہلکا ہو
قرض ہے محبت کا، اور جس کا جتنا ہے آ کے مجھ سے لیجئے گا

آنکھ بھی دِکھائیں گے، دھونس دھمکی بھی دیں گے کیونکہ یہ کمینے ہیں
گھاگ ہیں سیاسی لوگ، اے مِرے قلمکارو اِن سے مٹ دبِیجے گا

بے رِدا کیا اِس کو، اُس کا گھر جلا ڈالا کون آپ سے پُوچھے
ان غریب لوگوں کا اے رشیدؔ ان داتا آپ ہی کہِیجے گا

رشِید حسرتؔ
 
Top