غزل: پھونک کر گھر اپنا ذکرِ برقِ ناہنجار کیا ٭ پروفیسر کرم حیدری

پھونک کر گھر اپنا ذکرِ برقِ ناہنجار کیا
خود کشی کر کے بیانِ تیغِ جوہر دار کیا

شمعیں خود گل کر کے ظلمت کی مذمت کس لیے
قتل کر کے دوستوں کو شکوۂ اغیار کیا

کن سرابوں میں ہیں اہلِ کارواں کھوئے ہوئے
پاؤں اپنے توڑ کر پھر خواہشِ رفتار کیا

سر تو اپنے تم نے پھوڑے اے گروہِ خود سراں!
کچھ سمجھ میں آئی بھی سنگینیِ دیوار کیا

ان پری رویوں کا ہر وعدہ سراپا جھوٹ ہے
اعتمادِ دوستی کا بن سکے معیار کیا

آ گئی سیدھی سروں پر جوہری تیغوں کی باڑ
دیکھیے کرتی ہے اب اپنے لہو کی دھار کیا

ساری تعمیریں جہاں مہر و وفا کی ڈھے گئیں
اس خرابے میں تلاشِ سایۂ دیوار کیا

لفظ بے مفہوم ہو جائیں تو کیونکر ہو بیاں
شوخیِ گفتار کیا ہے گرمیِ کردار کیا

ہم نے ہی کر دی کرمؔ کیوں عقل و دانش غرقِ جام
اور دنیا میں کہیں ہوتے نہیں میخوار کیا

٭٭٭
پروفیسر کرمؔ حیدری
 
Top