غزل: ٹھوکریں کھا کے اک زمانے تک ٭ نعیم صدیقیؒ

ٹھوکریں کھا کے اک زمانے تک
آ گیا تیرے آستانے تک

عمر ساری قفس میں کاٹی ہے
آج پہنچا ہوں آشیانے تک

آہ یہ اپنا دردِ نامعلوم!
جس سے بیگانہ تھے یگانے تک

تا بہ مشہد پہنچ سکے دو چار
رہ گئے لوگ بادہ خانے تک

عزم کے کتنے قافلے چل کر
رک گئے نت نئے بہانے تک

زندگی اپنا ساتھ دے کہ نہ دے
تیرگی کا حصار ڈھانے تک

دیکھیے کتنے گھر اجڑتے ہیں
ایک دنیا نئی بسانے تک

ایک شب ہے، یہ دے گی ساتھ کہاں
قصۂ دردِ دل سنانے تک

ہائے وہ دل جسے جگا نہ سکیں
ظلمِ اعدا کے تازیانے تک

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
 
Top