غزل: عہدِ رفتہ ترے وہ مکین و مکاں سب سخن، ساری سرگرمیاں یاد ہیں :: احمد حاطب صدیقی

عہدِ رفتہ ترے وہ مکین و مکاں سب سخن، ساری سرگرمیاں یاد ہیں
دوستوں کے فقط نام و چہرے نہیں، ان کے انداز و دلچسپیاں یاد ہیں

گو بچھڑ کر بہت دور میں آ گیا، پھر بھی اے شہرِ دلدار کے ساکنو
وہ مکاں اس کے دیوار و در یاد ہیں، صحن و دالان اور کھڑکیاں یاد ہیں

شہرِ خوباں سے آتے ہوئے دوستو، تلخیاں سب وہیں چھوڑ آیا ہوں میں
اقربا کے ستم گو بہت تھے مگر، غم گساروں کی ہمدردیاں یاد ہیں

زندگی کا سفر ختم ہونے کو ہے، اے مسافر تمہارا بہت شکریہ
یہ بھی ممکن ہے پھر مل نہ پائیں کبھی، پر تمہاری سبھی نیکیاں یاد ہیں

ان سے بچھڑے ہوئے مدتیں ہو گئیں، نامہ و جام کے سلسلے بند ہیں
یاد میں ہم نے ان کے غزل بھی کہی، لیکن احباب کو ہم کہاں یاد ہیں

اس تفاوت کو حاطب ؔ بھلا کیا کہیں، دوستوں سے بہت حسنِ ظن تھا مگر
ان کی نظروں کا ہر زاویہ نقش ہے، سب شکوک اور وہم و گمان یاد ہیں

احمد حاطب صدیقی
 
Top