محمد تابش صدیقی
منتظم
زمیں سے پھول لیے، آسماں سے تارے لیے
تو جب غزل کوئی موزوں ہوئی تمہارے لیے
ترے جمال کی تصویر کھینچنے کے لیے
کہاں کہاں سے تخیّل نے استعارے لیے
زمانے بھر کا غم و درد میرے حصے میں
جہان بھر کا سکون و طرب تمہارے لیے
نہیں ہے ان کا تغافل ہی آزمائشِ شوق
ہے اعتنا بھی کٹھن امتحاں ہمارے لیے
ہزار ٹھوکریں کھا کر ترا سراغ ملا
کہاں کہاں سے نگہ نے لطیف اشارے لیے
کبھی یہ شان کہ ٹھکرا دیا سفینوں کو
کبھی یہ حال کہ تنکوں کے بھی سہارے لیے
گِلا بھی تم سے جو کرنا پڑا تو از پَئے شوق
جو لفظ ہم نے لیے، چُن کے پیارے پیارے لیے
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
تو جب غزل کوئی موزوں ہوئی تمہارے لیے
ترے جمال کی تصویر کھینچنے کے لیے
کہاں کہاں سے تخیّل نے استعارے لیے
زمانے بھر کا غم و درد میرے حصے میں
جہان بھر کا سکون و طرب تمہارے لیے
نہیں ہے ان کا تغافل ہی آزمائشِ شوق
ہے اعتنا بھی کٹھن امتحاں ہمارے لیے
ہزار ٹھوکریں کھا کر ترا سراغ ملا
کہاں کہاں سے نگہ نے لطیف اشارے لیے
کبھی یہ شان کہ ٹھکرا دیا سفینوں کو
کبھی یہ حال کہ تنکوں کے بھی سہارے لیے
گِلا بھی تم سے جو کرنا پڑا تو از پَئے شوق
جو لفظ ہم نے لیے، چُن کے پیارے پیارے لیے
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ