یاس غزل : زحمتِ سجدہ ہے فضول بُت کدۂ مجاز میں ۔ میرزا یاس یگانہ چنگیزی

غزل
زحمتِ سجدہ ہے فضول بُت کدۂ مجاز میں
ہو گی نماز کیا قبول، کعبۂ خانہ ساز میں

دیکھ کے حسنِ خوب و زشت، انجمنِ مجاز میں
ہوش و خرد ہیں مبتلا زحمتِ امتیاز میں

مارے پڑے ہیں بو الہوس جلوہ گہِ مجاز میں
کھائی شکست کوششِ فتخِ طلسمِ راز میں

واہ رے مطمحِ نظر، واہ رے سیرِ مختصر
کعبے سے دیر کا سفر، زندگی دراز میں

خانۂ کعبہ الفراق، قبرِ حسین الوداع
رہ چکے ہم عراق میں ، بس چکے ہم حجاز میں

حسرتِ بال و پر بڑھی، لہر سی ڈوڑنے لگی
بُوئے قفس نواز سے طبعِ ہوس نواز میں

وعدۂ دل فریب یا مُژدۂ بعدِ وقت سے
آئے گا انقلاب کیا خاطرِ بے نیاز میں

نفس سے گفتگوئے صلح ، جنگ خلاف مصلحت
کوئی نہ کوئی فیہ ہے عقلِ زمانہ ساز میں

داورِ حشر ہوشیار، دونوں میں امتیاز رکھ
بندۂ نا امید اور بندۂ بے نیاز میں

ہوتا ہے بند ایک در، کھلتے ہیں صد ہزار در
اپنی طرف سے شک نہ کر نیّتِ کارساز میں

بندۂ خود شناس ہے اپنے ہی پیرہن میں مست
بوئے خودی کو دخل کیا پیش گہِ ایاز میں

اف رے تصرفاتِ عشق آگ لگے دھواں نہ ہو
ڈوبے ہوئے ہیں سنگ دل، لذتِ سوز و ساز میں

یادِ خدا کا وقت بھی آئے گا کوئی یا نہیں
یادِ گناہ کب تلک شام و سحر نماز میں

سجدۂ اوّلیں میں یاسّ پا گئے دادِ بندگی
شادی مرگ ہو گئے عید کے دن نماز میں *

میرزا یاس یگانہ چنگیزی

*
"بعض لوگ اس شعر میں "شادی مرگ" کو باضافت پڑھتے ہیں" حالانکہ یہاں اضافت مقلوب ہے ۔
شادیِ مرگ پڑھنا غلط ہے ۔یہاں مصنف نے ایک عروضی نکتہ رکھا ہے ۔جو لوگ عروض سے واقف نہیں انھیں یہ مصرع ناموزوں معلوم ہو گا "
(آیات وجدانی طبعِ اول ص 194۔95)
 
آخری تدوین:
Top