خورشید رضوی غزل : جب یاد کے سائے میں سستائے فراموشی - خورشید رضوی

غزل
جب یاد کے سائے میں سستائے فراموشی
تصویر بھی دیکھوں تو یاد آئے فراموشی

آنکھوں کو شکایت تھی یادوں کے عذابوں سے
اب دیکھئے جو کچھ بھی دکھلائے فراموشی

دو دن کو ہے یہ سارا ہنگامہ من و تُو کا
ہرنقش بہا دے گا دریائے فراموشی

اس دل کے بھی ہو شاید باقی کسی گوشے میں
اک یاد جسے کہیے ، ہمتائے فراموشی

معمورۂ ہستی میں ہر شے کا مقدر ہے
امروزِ شناسائی ، فردائے فراموشی

ہر بام کے ماتھے پر فرمانِ فنا کندہ
ہر یاد کے باطن میں ایمائے فراموشی

جو خاک نشانی تھی اک صورتِ پنہاں کی
اب وہ بھی پریشاں ہے ، اے وائے فراموشی

پوچھو نہ خبر اس سے گُم گشتہ بہاروں کی
ہے طائرِ دل وقفِ سرمائے فراموشی

خورشیدؔ سُنا تُو نے اُس بزم میں کل تیرا
وہ ذکر ہُوا جس سے شرمائے فراموشی
خورشید رضوی
 
Top