نظر لکھنوی غزل: جب سے وہ لب کشا نہیں ہوتا ٭ نظرؔ لکھنوی

جب سے وہ لب کشا نہیں ہوتا
غنچۂ دل یہ وا نہیں ہوتا

ایک اللہ کا نہیں ہوتا
آدمی ورنہ کیا نہیں ہوتا

کیوں لبوں پر مرے ہنسی آئے
دل میں کب درد سا نہیں ہوتا

شکل تبدیل ہوتی رہتی ہے
کوئی ذرہ فنا نہیں ہوتا

شیخ کی طرح کیسے بات کریں
ہم سے یہ بچپنا نہیں ہوتا

وہ تمنا کا خون کرتے ہیں
جس کا کچھ خوں بہا نہیں ہوتا

رنگ رلیاں، شراب و رقص و سرود
اُن کی محفل میں کیا نہیں ہوتا

سب پکاریں تجھی کو بالآخر
جب کوئی آسرا نہیں ہوتا

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top