غزل (برائے تنقید و اصلاح)

شاہ آتش

محفلین
سخن کو غزل سے یوں فرصت ملی ہے
غمِ دل کو دل سے جو رخصت ملی ہے

مرے اس قلم کو تُو کر دے مبارک
سخن کو الٰہی کہ مدحت ملی ہے

مجھے دل کو زم زم سے دھونا پڑا ہے
تجھے دیکھنے کی اجازت ملی ہے

وہ بچھڑا تو بالکل ہی ساکت رہا دل
کہ یاسین سے دل کو حرکت ملی ہے

بہت رو چکا ہوں مگر خوش ہوں میں اب
کہ دل کو جو رونے کی عادت ملی ہے

میں شہرِ اماں میں ہی بسمل بنا ہوں
بے مقصد ہی لوگوں کو وحشت ملی ہے

میں عاشق ترے در کا آتشؔ ہوں اب کے
مودّت کی حدّت کو شدّت ملی ہے

(شاہ آتشؔ)
 
Top