غزل برائے اصلاح : مطمئن اس پہ کیوں فلک بھی رہے

زبیر صدیقی

محفلین
السلام علیکم : ایک نئی غزل کے ساتھ حاضر ہوں۔ اپنے اساتذہ سے درخواست ہے کہ اس پر رہنمائی فرمائیں۔

الف عین سید عاطف علی محمد خلیل الرحمٰن محمّد احسن سمیع :راحل:

مطمئن اس پہ کیوں فلک بھی رہے
بندگی بھی ہو اور شک بھی رہے

فاصلے طے نہ ہوں گے عشق میں یوں
اُٹھ رہے ہوں قدم، جھجھک بھی رہے

آئینہ کہہ رہا ہے روز یہی
عکس میں کچھ تیری جھلک بھی رہے

صرف جینا ہی کب ہمیں تھا، مگر
صرف جیتے ہی آج تک بھی رہے

یہی جانا کہ جانا کچھ بھی نہیں
اور یہی جاننے میں تھک بھی رہے

ڈھونڈتے پھر رہے تھے وقت کو ہم
ایک اِک کر کے دن سرک بھی رہے

عمر لگتی ہے دل سمجھنے میں
عشق ہو تو یہ یک بیک بھی رہے

والسلام
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ
صرف آخری شعر میں ردیف درست نہیں لگ رہی۔ اسے بدل دیں۔ باقی اشعار درست ہیں
 

زبیر صدیقی

محفلین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ
صرف آخری شعر میں ردیف درست نہیں لگ رہی۔ اسے بدل دیں۔ باقی اشعار درست ہیں
استاد محترم - آپ کا بہت بہت شکریہ - حوصلہ افزائی ہے۔

میں دوبارہ حاضر ہوتا ہوں

والسلام
 
آخری تدوین:

زبیر صدیقی

محفلین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ
صرف آخری شعر میں ردیف درست نہیں لگ رہی۔ اسے بدل دیں۔ باقی اشعار درست ہیں
السلام علیکم۔ آپ کی ہدایت کے مطابق آخری شعر کے دو متبادل ذیل میں درج کر رہا ہوں۔ اپنی رائے سے نوازیے۔

کارزارِ عمل میں ہم ہر بار
راہ پہ آئے پھر بھٹک بھی رہے

اتنا گڈ مڈ ہوا یقین و گماں
آس کو آسرے کھٹک بھی رہے

اور دوئم (صرف اپنے سمجھنے کے لیے) اگر پرانے آخری شعر کا مصرعہ اولٰی ایسے بیان کر دیں تو کیا ردیف صحیح رہے گی۔

دل سمجھنے کو عمر ہے درکار
عشق ہو تو یہ یک بیک بھی رہے

منتظر۔ والسلام۔
 

الف عین

لائبریرین
آخری شعر کی صورت بہتر ہو جاتی ہے اس طرح آسرے کھٹک بھی درست لگ رہا ہے لیکن بھٹک بھی رہے کچھ جم نہیں رہا
 

زبیر صدیقی

محفلین
آخری شعر کی صورت بہتر ہو جاتی ہے اس طرح آسرے کھٹک بھی درست لگ رہا ہے لیکن بھٹک بھی رہے کچھ جم نہیں رہا
جی۔ بہت بہتر۔ بھٹک والا شعر نکال دیتا ہوں۔ اب غزل کی شکل یوں بنتی ہے۔

مطمئن اس پہ کیوں فلک بھی رہے
بندگی بھی ہو اور شک بھی رہے

فاصلے طے نہ ہوں گے عشق میں یوں
اُٹھ رہے ہوں قدم، جھجھک بھی رہے

آئینہ کہہ رہا ہے روز یہی
عکس میں کچھ تیری جھلک بھی رہے

صرف جینا ہی کب ہمیں تھا، مگر
صرف جیتے ہی آج تک بھی رہے

یہی جانا کہ جانا کچھ بھی نہیں
اور یہی جاننے میں تھک بھی رہے

ڈھونڈتے پھر رہے تھے وقت کو ہم
ایک اِک کر کے دن سرک بھی رہے

اتنے گڈ مڈ ہوئے یقین و گماں
آس کو آسرے کھٹک بھی رہے

دل سمجھنے کو عمر ہے درکار
عشق ہو تو یہ یک بیک بھی رہے

اصلاح کے لئے شکریہ۔ والسلام۔
 
Top