غزل - اور کیا تیرے خدو خال کو دیکھا جاتا - عابد حسین عابد

اور کیا تیرے خدو خال کو دیکھا جاتا
تیری آنکھوں کے مقابل نہیں ٹھہرا جاتا

میں نے دیکھی ھے ترے پھول سے چہرے پہ ہنسی
مجھ سے روتا ھوا چہرہ نہیں دیکھا جاتا
...
اب حقائق نہ سمجھنے کا گلہ کرتے ھو
ھم غلط تھے تو کوئی دن ھمیں روکا جاتا

زندگی ایک بھکارن کی طرح آن ملی
ورنہ جاں تم پہ لٹاتے تمہیں چاھا جاتا

چل ھٹا سامنے آنکھوں سے سلگتا منظر
چھوڑ اب اور تماشا نہیں دیکھا جاتا

کھیلنے والے اگر کھیل سے واقف ھوتے
اتنا آساں تو کبھی کھیل نہ ھارا جاتا

روند ڈالے گا یہ ٹھہرے ھوئے لمحے عابد
وقت ھر گام نئے موڑ بدلتا جاتا

(عابد حسین عابد)
 
Top