خورشید رضوی غزل : احساس کی تہوں میں جو موجِ قلق چلے - خورشید رضوی

غزل
احساس کی تہوں میں جو موجِ قلق چلے
قرطاس پر زبانِ قلم ہو کے شق چلے

ہے دہر کی نہاد ہی سرگشتۂ رسوم
حق کو بھی ایک رسم بنائیں تو حق چلے

کب تک بچا بچا کے رکھوں اک نگہ کی یاد
مانگے کی زندگی کی کہاں تک رمق چلے

اُس کے نقوشِ پائے حنا بستہ دیکھ کر
مٹی پہ آسماں سے اُتر کر شفق چلے

ہم جس کو پڑھ رہے ہیں دبستانِ عشق میں
فرہاد و قیس سے نہ وہ تازہ سبق چلے

مشکل ہے ضبط سیل سخن بسکہ دوستو
سی لوں اگر لبوں کو تو چھاتی تڑق چلے

جو لب پہ نیم شب تہِ دل سے نکل کے آئے
وہ بات سینہ سینہ ورق در ورق چلے

ہستی ندامتوں کے دو آبے میں ڈوب جائے
آنکھوں سے اشک اور جبیں سے عرق چلے

خورشیدؔ کہہ گزر یہ سخن گسترانہ بات
دیکھیں کسی سے گر یہ زمینِ ادق چلے
خورشید رضوی
 
Top