فرخ منظور

لائبریرین
غافل نہ رہیو اُس سے تو اے یار آج کل
مرتا ہے تیرے عشق کا بیمار آج کل

کیا جانیں کیا کرے گا وہ خونخوار آج کل
رکھتا بہت ہے ہاتھ میں تلوار آج کل

جو ہے سو آہ عشق کا بیمار ہے دلا
پھیلا ہے بے طرح سے یہ آزار آج کل

اُس دوست کے لئے ترے دشمن ہیں سینکڑوں
اے دل! ٹک اک پہر تو خبردار آج کل

یوسف کسی زمانے میں تھا خوب رُو ولے
تجھ سا نظر پڑے نہ طرح دار آج کل

ہم مفلسوں سے کیا کوئی دل کھول کر ملے
سب کے تئیں عزیز ہے زردار آج کل

کون اٹھ گیا ہے پاس سے کیا ہو گیا ہے جو
پڑتی نہیں ہے تجھ کو دلِ زار آج کل

وعدہ خلاف آ کے ملے گا بھی تُو کبھی
کب تک سنا کریں تری ہر بار آج کل

کیا ذکر ماہ و سال کا بہہ جائے دل جگر
رونے سے تیرے دیدۂ خوں بار آج کل

افسوس ہے کہ ہم تو تڑپتے ہیں دام میں
اور کھِل رہا ہے کیا گل و گلزار آج کل

آنکھوں میں اشک، جان بہ لب، سینہ چاک ہے
جرأت کہیں ہوا ہے گرفتار آج کل

(شیخ قلندر بخش جرأت)
 
Top