عہدنبویﷺ اور تصوف و احسان : ابن محمد جی قریشی

ابن محمد جی

محفلین
عہدنبویﷺ اور تصوف و احسان
مقدمہ
الحمد للہ رب العالمین ۔والصلوۃ و السلام علی حبیبہ محمد والہ واصحابہ اجمعین
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (سورۃآل عمران آیت نمبر 164)
سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
مولای صل وسلم دائما ابدا
علی حبیبک خیر الخلق کلھم

”یقینا اللہ نے ایمان والوں پر(بہت بڑا) احسان کیا ہے کہ جب ان میں سے ان ہی میں ایک پیغمبر مبعوث فرمائے،جو ان کو اس کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں، اور ان کو پاک کرتے ہیں، اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اور اگر چہ وہ اس سے پہلے واضح گمراہی میں تھے“۔

جو علوم انبیاء علیھم الصلوۃ و السلام تقسیم فرماتے ہیں ،اس میں دو چیزیں ہو تی ہیں، یا دوطرح کا فیض نصیب ہوتا ہے۔ ایک حصہ تعلیمات نبوت پر مشتمل ہوتا ہے اور دوسرا حصہ برکات نبوت کہلاتا ہے۔

تعلیمات نبوت:۔تعلیمات نبوت ارشادات ظاہری، اقوال و افعال رسول اللہﷺ کا مرقع ہے۔ تعلیمات نبوتﷺ کا یہ پہلو حروف والفاظ کی شکل میں قلم بند ہوا، اور سیکھا سکھایا جاتا ہے۔

برکات نبوت:۔انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام سے جب قلبی تعلق بنتا ہے تو قلب اطہر پیغمبرعلیہ الصلوۃ والسلام سے فیض پانے والے کے قلب پر وہ کیفیت آ جاتی ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی، بیان نہیں کی جا سکتی، جس کے لئے کوئی الفاظ نہیں ملتے جو صرف محسوس کی جا سکتی ہے ،کیونکہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام بندے کو رب العلمین سے اسطرح آشنا کرواتے ہیں کہ انکے فیوضات و تعلیمات میں صرف الفاظ ہی نہیں ہوتے، بلکہ وہ کیفیات بھی ہوتی ہیں جو بندے کو اللہ کے قریب کر دیتی ہیں۔ وہ اللہ کونہیں دیکھ سکتا لیکن دیکھتا ہے، یعنی جس کسی بھی چیز کو دیکھ کر مانا جائے ویسے ہی وہ اللہ کو بغیر دیکھے مانتا ہے کہ جیسے اللہ کو دیکھ رہا ہے، (1) یہ کیفیات قلبی برکات نبوت ﷺکہلاتی ہیں۔ دین مبین کا یہ شعبہ تصوف وسلوک، احسان، اسرار شریعت، طریقت وغیرہ کی اصطلاحات سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔اور ہمارےہاں(پاک وہند) عرف عام میں اسکو پیری مریدی بھی کہاجاتاہے۔

”يتلو عليهم آيا تہ ’’دعوت الی اللہ ہے ،’’یزکیھم’’برکات نبوت ہے، ’’و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ’’تعلیمات نبوت ہے۔اب یہ قرآن نےعلیحدہ سے یزکیھم کا ذکر کیا ہے ۔یعنی آپﷺ تزکیہ فرماتے تھے،یہ تزکیہ کیا ہے۔یہی ہمارا موضوع ہے۔اور اس شعبے کو آج تصوف و احسان یاطریقت وغیرہ کہا جاتا ہے۔

حصول تزکیہ:۔

تزکیہ کیا ہے ؟ ایک قلبی اور روحانی کیفیت کا نام ہے،جس کے طفیل دل میں اخلاص اور اطاعت الہٰی کی محبت پیدا ہو جاتی ہے،گناہ اور معصیت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اسکا ثبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی مقدس زندگیاں ہیں کہ آپﷺ کی بعثت کے وقت دنیا کی اخلاقی حالت عموماً اور اہل عرب کی خصوصاً تباہی کےآخری کنارے پر پہنچ چکی تھی۔ الاماشاء اللہ ۔آپ ﷺ کی بعثت نے انسانیت کو حیات نو بخشی اور ان ہی لوگوں کو وہ اخلاقی عظمت، خلو ص اور للٰہیت عطا فرمائی کہ تاریخ انسانی اسکی مثال پیش نہیں کر سکتی۔

ایمان کا تعلق کیفیات قلبی یعنی برکات نبوت سے ہے، اس لے زبان کے اقرار کے ساتھ تصدیق قلبی ضروری ہے، اور تمام اعمال کا تعلق نیت سے ہے، اور نیت فعل ہے دل کا۔ لہذا دین کا یہ شعبہ (برکات نبوت) بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہدایت کا دار و مدار قلب پر ہےاور عقل کا مدار وفہم بھی قلب پر ہی ہے(2)،اس لئےقرآن مجید میں جگہ جگہ قلب کو مخاطب کیا گیا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ان قلبی کیفیات یعنی برکات نبوت کو ہی ایمان کی اصل قرار دیتے ہیں، اورایمان کی حلاوت ولذت بھی یہی قلبی کیفیات ہیں۔

کیفیات قلبی اور حدیث نبویﷺ

1۔بخاری شریف میں ابوسفیان اور ہرقل روم کا مکالمہ درج ہے

‏ وسألتك أيرتد أحد سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه فذكرت أن لا،‏‏‏‏ وكذلكالإيمان حين تخالط بشاشته القلوب(3)

”اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس کے دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتاہے تم نے کہا نہیں، تو ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے جن کے دلوں میں اس کی مسرت رچ بس جائے وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے“۔

و سئالتک ھل یرتد احدمنھم عن دینہ بعد ان یدخل فیہ سخطۃ فزعمت لا وکذلک الایمان اذا خالطہ بشامثۃ القلب۔

میں نے تجھ سے سوال کیا تھاکہ لوگ اس کا دین قبول کر لینے کےبعد اسے برا سمجھ کر ترک کر دیتے ہیں،تو تم نے جواب دیا کہ"نہیں”اور ایمان کی بھی یہی حالت ہے ،جب اسکی تازگی قلب میں جم جاتی ہے (تو پھر دور نہیں ہوتی) “۔

اور اسی حقیقت کو قرآن یوں بیان کرتا ہے۔

قا ل اللہ تعال : ”ولکن اللہ حبب الیکم الایمان و زینہ فی قلوبکم ۔ (الحجرات)

”لیکن اللہ تعالی نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے دلوں میں مرغوب کر دیا“۔

امام ابن تیمیہؒ نےکفیات ودرجات اور حلاوت ایمانی پر رسالہ ”درجات الیقین “میں خوبصورت بحث فرمائی ہے،مذکورہ حدیث کے ضمن میں فرماتےہیں:۔

”فالایماناذاباشرالقلب وخالطنہ لایسخطہ القلب بل یحتبہ و یر ضاہ فان لہ من الحلاوۃ فی القلبواللذۃالسّرودوالبھجۃ مالایمکنالتعیر عنہ لمن لم یذقہوالناس متفادتون فی ذوقہ و الفرح و السرور الذّی فی القلب لہ من البشاشۃ و البر ما ھو بحبہ و اذا خالطت القلب لم یسخطہ“ (4)

”الغرض جب ایمان دل میں رچ جائے اوراسکی تازگی اس میں سرائت کر جائےتووہ اس سے کبھی نفرت نہیں کرتا بلکہ اسے چاہتا اور پسند کرتا ہے،کیونکہ دل میں ایمان کی اسقدر شیرینی،لذت،سرور اور شادمانی ہوتی ہےکہ جس نے اسے محسوس نہیں کیا اسکے سامنے اسکی تعبیر ناممکن ہے

لوگ ذوق ایمان کے مدارج میں ایک دوسرے سے متفاوت ہیں،دل میں جو فرحت اور سرور پیدا ہوتا ہے ،اس سے ایک قسم کی شگفتگی اور طاعات پر آمادگی پیدا ہوتی ہے۔جو اس ذوق کے مقدار کے موافق ہوتی ہےاور جب یہ چیز دل میں اچھی طرح رچ جائے تو دل اس سے کبھی بیزار نہیں ہوتا“۔

کیفیات قلبی آنحضرتﷺ کی صحبت سے نصیب ہوتی تھی۔ اصحاب رسولﷺ نےان کیفیات قلبی کی کمی سے بعض دفعہ اپنے اوپر اندیشہ نفاق کیا تھا، نبی علیہ السلام نے اطمینان دلایا کہ کیفیات قلبی کی یہ کمی بیشی ایمان کو مضر نہیں، جیسا بہ زبان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔

عن حنظلہ الاسدی و کان من کتاب رسول اللہﷺ ۔قال :لقینی ابو بکر فقال کیف انت یا حنظلہ ؟ قال:قلت: نافق حنظلہ! قال: سبحان اللہ ما تقول؟ قال:

قلت : تکون عند رسول اللہﷺ یذکر نا بالنار واحنۃ حتی کا نھا رای عین ،فاذا خرجنا من عند رسول اللہ ﷺ یذکرنا بالنار والجنۃ حتی کا نھا رای عین ،فاذا خرجنا من عندنا رسول اللہﷺ عافسنا الازواج والاولاد و الضیعات فنسینا کثیرا، قال ابو بکر : فو اللہ انا نلقی مثل ھذا ،ص فانطلقت انا و ابو بکر حتی دخلنا علی رسول اللہ ﷺ قلت: نافق حنظلۃ یا رسو ال اللہ! فقال رسو ل اللہ (وما ذاک) قلت : نکون عندک تذکرنا بالنار و الجنۃ حتی کا انھا رای عین ،فا ذا خرجنا من عندک عافسنا الازواج و الاولاد و الضیعات فنسینا کثیراء فقال رسول اللہ ﷺ (و الذین نفسی بیدہ ان لو تدومون علی ماتکونون عندی وفی الذکر ،لصافتکم الملائلۃ علی فرشکم و فی طرقکم و لکن یا حنظلۃ ! ساعۃ و ساعۃ،ثلاث مرات)

”سید حنظلہ رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ ﷺ کے کاتبین میں سے تھے،روایت کرتے ہیں، کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھے ملے اور کہاحنظلہ کیا حال ہے؟ میں نے کہا :حنظلہ منافق ہو گیا ہے انھوں نے کہا : سبحان اللہ! تم کیا کہہ رہے ہو ؟میں نے کہا:(بات یہ ہےکہ) جب ہم رسو ل اللہﷺ کے پاس ہوتے ہیں ،آپ ہم کو جنت و جہنم کے موضوع پر وعظ و نصیحت کرتے ہیں(اور ایسے لگتا ہےکہ) ہم جنت و دوزخ کو عیاناً دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سے نکلتے ہیں، اپنی آل اولاد اور مال ومنال میں بیٹھتے ہیں تو بہت سی چیزیں بھلا دیتے ہیں ، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ شکایت تو ہم کو بھی ہے ،میں اور ابوبکر چل پڑے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گئے ،میں نے کہا ! اے اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہو گیا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے پوچھا وہ کیسے ،میں نے کہا:جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جنت و دوزخ کا وعظ کرتے ہیں)تو ہماری روحانی اور رغبت و ہبت کی کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ)گویا کہ ہم جنت و جہنم کو دیکھ رہے ہیں،لیکن جب آپکے پاس سے چلے جاتے ہیں اور اہل وعیال اور ساز و سامان میں مصروف ہوتے ہیں تو (ایسی کیفیتوں) کو بھول جاتے ہیں،رسول اللہﷺ نے فرمایا "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!اگر تم لوگ اس حالت پر برقرار رہتے جس پر میرے پاس ہوتے ہو اور اللہ کے ذکر میں محو رہتے تو تمھارے بچھونوں اور راستوں پر فرشتے تم سے مصافحہ کرنے کے لئے آتے ،لیکن حنظلہ !(حالات بدلتے رہتے ہیں)کبھی یہ حالت ہوتی ہے کبھی وہ"آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا (5)

اور یہ الفاظ بھی حدیث میں ملتے ہیں

3۔عن انس:قال اصحاب النبی ﷺ یا رسول اللہ انا کنا عندک راینا ی انفسنا ما نحب ،و اذا راجعنا الی اھلینا فخالطنا ھم انکرنا انفسنا فقال النبی (لو تدومون علی تکونون عندی فی الخلاء لصافحتکم الملائ کۃ حتی تظلکم با جنحتھا عیانا و لکن ساعۃ و سعۃ)۔

”سید انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اصحاب رسول ﷺنے کہا:اے اللہ کے رسول ! جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو ہمیں اپنے آپ میں پسندیدہ صفات نظر آتی ہیں ،لیکن جب ہم اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹتے ہیں اور ان میں مل جل کر رہتے ہیں تو خود کوگنہگار سمجھتے ہیں ۔نبی ﷺ نے فرمایا ‘’اگر تم پنی خلوتوں میں اسی حالت پر قائم رہو جس پر میرے ہاں ہوتے ہو ،تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں اور وہ تم پر اپنے پروں سے عیاناً سایہ کریں(دراصل حالات بدلتے رہتے ہیں) کبھی یہ اور کبھی وہ“۔(6)

عن حنظلہ الاسدی مرفوعا )لو تکونو ن کما تکونون عندی لا ظلتکم الملائکۃ با جنحتھا

”سید حنظلہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "اگر اسی حالت پر برقرار رہو جس پر میرے پاس ہوتے ہو تو فرشتے تم پر اپنے پروں سے سایہ کریں گے“۔

انھی معانی میں سید نا انس رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت جلد دوم (سلسلہ حدیث صحیحہ اردو مترجم)سوم صفحہ240پر موجود ہے میں صرف ترجمہ نقل کیے دیتا ہوں

5۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ آپ ﷺکے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول !رب کعبہ کی قسم!ہم تو ہلاک ہو گئے ہیں۔آپ ﷺ نے پوچھا وہ کیسے؟ انھوں نے کہا : ہمیں نفاق و منافقت کا اندیشہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا "کیا تم اللہ تعالی کے معبود برحق ہونے اور میرے رسول اللہ ہونے کی گواہی نہیں دیتے؟ انھوں نے کہا:کیوں نہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا ‘’یہ نفاق تو نہیں ہے انھوں نے بات کو لوٹاتے ہوئے کہا اے اللہ کے رسول رب کعبہ کی قسم ہم ہلاک ہو گئے ہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم لوگ اللہ تعالی کے معبود برحق ہونے اور میرے رسول اللہ ہونے کی شہادت نہیں دیتے ؟ انھوں نے کہا کیوں نہیں ،آپﷺ نے فرمایا یہ تو نفاق نہیں ہے انھوں نے تیسری دفعہ یہی بات دہرائی اور آپﷺ نے بھی یہی جواب دیا کہ یہ نفاق نہیں ہے۔انھوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا :اے اللہ کہ رسول جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو مخصوص مذہبی حالت پر ہوتے ہیں ،لیکن جب آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو دنیا اور اہل دنیا ہم کو مغموم و فکر مند کر دیتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم میرے پاس سے نکل کر بھی اسی (ایمان ) کی حالت پر برقرار رہتے ،جس پر میری مجلس میں ہو تے ہو تو مدینہ کے راستے میں فرشتے تم سے مصافحہ کرتے“۔ (8)(ایضاً جلد سوم ص 240 مترجم)

اور اس حقیقت کی سمجھ اس روایت سےبھی آتی ہے

6۔ و فی روایۃ الترمذی قال لما کان الیوم الذی دخل فیہ رسول اللہ ﷺ المدینۃ اضاء منھا کل شئ فلما کان الیوم الذی مات فی اظلم منھا کل شی ء وما نفضناایدینا عن التراب وانا لفی دفنۃ حتی انکرنا قلوبنا۔(9)

”ترمذی کی روایت میں ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ دن کہ جس دن رسول اللہ ﷺ مدینہ میں داخل ہوئے اس سے مدینہ کی ہر چیز روشن ہوئی اور جب وہ دن آیا کہ جس میں آپﷺ نے وفات پائی تو مدینہ کی ہر چیز تاریک ہو گئی اور ابھی ہم نے اپنے ہاتھ مٹی سے نہ جھاڑے تھے کہ جس سے ہم آپ ﷺ کو دفن کر رہے تھے، ہم نے اپنے دلوں کو نا آشنا پایا “۔

اس حدیث کے فوائد میں مسلک اہل حدیث کےمحدث سیدمحمدعبد الاوّل غزنویؒ فرماتے ہیں :

”یعنی ہر چیز آپ کے جمال جہان آرا سے درو دیوار روشن اور منور ہوگئے تھے،یعنی جو نور دلوں میں آپ ﷺ کی صحبت کی وجہ سے تھا وہ گم ہو گیا،یہی حال ہے مرشد کامل اور واصل باللہ کا جب تک اسکی صحبت میں رہو تو دل پر ایک تسلی رہتی ہےاور جب یہ صحبت جاتی رہتی ہے تو پھر دل اپنے حال پر آ جاتا ہے اور دنیا کی محبت اس میں سما جاتی ہے ولی کامل کی بڑی نشانی یہی ہے کہ جب اسکی صحبت میں بیٹھو تو اللہ تعالی یاد آئے اور دل دنیا سے نفرت کرے“۔

اسراالتنزیل میں ہے

” آپ ﷺ کی تعلیمات ،ارشادات اور اسکے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کا فر بھی سنتا اور جانتا ہے مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے فیض صحبت سے محروم ہو کر تزکیہ سے محروم رہتا ہے اور مومن ایمان لاکر ان کیفیات کو حاصل کرتا ہے ،جو آپ ﷺ کی صحبت میں بٹتی ہیں چنا نچہ ایک نگاہ پانے والا صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا اور یہ نعمت عظمیٰ بٹتی رہی۔صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی صحبت میں آنے والے تابعین کہلائے اور ان سے تبع تابعین مستفید ہوئے پھر اہل اللہ نے اسی نعمت کو ان مقدس سینوں سے حاصل کیا اور خلق خدا کے دلوں کو روشن کرتے رہے، کرتے ہیں اور انشاء اللہ کرتے رہیں گے کہ اسی کی برکت سے کتاب وحکمت یا کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے یہ تزکیہ یا فیض صحبت ہی اصول تعلیم کی اساس ہے۔ کتاب وحکمت کی وہ تعلیم جو انسان کے لئے راہ عمل آسان کر دے جو اسکی عملی زندگی بن جائے ورنہ پھرمحض حروف کی شناخت رہ جائے گی اور اسے تعلیم کہنا درست نہ ہو گا۔

جس طرح ضرورت کے تحت دین کے مختلف شعبے وجود میں آئے، علوم ظاہری سیکھنے کے لئے باقاعدہ نصاب مرتب ہوئے۔ تمام شعبے امت کے سرکردہ لوگوں نے سنبھالے۔ جب خلوص و احسان میں کمی آئی تو برکات نبوت کے حامل لوگوں نے مراکز قائم کئے اور یہ شعبہ تصوف و سلوک کے نام سے موسوم ہوا۔ یوں سلاسل تصوف وجود میں آئے۔ ان برکات کو حاصل کرنے کا طریقہ شیخ کامل کی صحبت اورکثرت ذکر ہے۔ کثرت ذکر کا حکم قرآن میں جا بجا موجود ہےاور صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین کویہ کیفیات صحبت پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام سے نصیب ہوئی۔

ثم تلین جلودھم و قلوبھم الی ذکر اللہ (زمر)

(ترجمہ) ”پھر ان کے بدن اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں“

یعنی کہ برکات نبوت سے ان کا وجود کا ذرہ ذرہ ذاکر ہو گیا۔ اصطلاح تصوف میں اسکو سلطان الاذکار کہا جاتا ہے۔یہ بھی وضاحت فرما دی کہ کتاب کے ساتھ مفہوم کتاب یا حکمت بھی ہے۔ یعنی حدیث مبارک اور کتاب اللہ کی وہ شرح جوآپﷺنےفرمائی۔ ورنہ قبل ازیں تولوگ ایسی گمراہی میں مبتلا تھے، جسے وہ خود بھی جانتے تھے۔ یعنی اپنے گمراہ ہونے کا خود انھیں بھی علم تھا۔اور غالباً آج کے دور کی مصیبت بھی یہی ہے کہ کیفیات باطنی دنیا میں بہت کم نصیب ہوتی ہیں ۔ایسے لوگ جن کے نہ صرف دل روشن ہوں بلکہ دوسرے دلوں کو روشن کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہوں ،دنیا میں آج کمیاب ہیں۔

اورجب یہ نعمت نصیب نہیں ہوتی تو قوت عمل نصیب نہیں ہوتی۔ لوگ کتاب اللہ پڑھتے بھی ہیں، پڑھاتے بھی ہیں، مگر عمل بہت کم نصیب ہوتا ہے۔ اللہ کریم دلوں کو روشنی نصیب فرمائیں،آمین۔

اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کیا جائے جو ایک روشن دل رکھتے ہوں ۔ اور آپ ﷺ کی عطا کردہ کیفیات کے نہ صرف امین ہوں بلکہ انھیں تقسیم بھی کر سکتے ہوں اور دوسروں کے دلوں میں بھی وہ روشنی منتقل کر سکتے ہوں، جس کے وہ امین ہوں ۔

چنیں مردے کہ یابی خاک او شو اسیر حلقہ فتر اک او شو

ایسے ہی مردوں کی غلامی حیات آفریں ہوا کرتی ہے اور حقیقی علم سے آشنائی نصیب کرتی ہیں۔ یہی ترتیب قرآنی سے بھی مترشح ہو تا ہے کہ تلاوت آیات، پھر تزکیہ اور اسکے بعد تعلیم کتاب وحکمت “۔(10)

یہاں پر میں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ امت میں آج تک اہل علم ”تصوف’’کو بمعنی” احسان و تزکیہ’’ہی کہتےاور سمجھتے رہے ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی پہچان لفظ ”صوفی ’’سے ہوتی رہی ہے ،اور اس پر اہل علم کے ہاں کوئی اختلاف نہیں ملتا۔ یہ الفاظ مفسرین اور محدثین کے ہاں بھی انھی ہی معنوں میں مستعمل رہے ہیں۔ اس لئے ایسے حضرات جو لفظ ”تصوف’’یا ”صوفی’’پہ چیں بہ جبیں ہوتے ہیں، انھیں اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ”آثار الاحسان ’’میں ڈاکٹر علامہ خالد محمود (ڈائریکٹر اسلامک اکیڈمی مانچسٹر) جلد اول ص170سے لیکر196 تک اور جلد دوم میں 241 اور 242 پر )زیرعنوان ”صوفیاء اکرام محدثین کی نطر میں “اور”محدثین کی اہل تصوف ہونے کی شہادتیں(مفسرین ،محدثین، اور فقہا اکرام کے حوالے سے بات کی ہے، جسکا مطالعہ بہت سے شک وشبہات کا ازالہ کر دیتا ہے۔ اوّلیں دور میں انھیں لوگوں کو اہل زہد کہا گیا ہے۔ بعد ازاں یہ طبقہ صوفیاء کے نام سے مشہور ہوا۔

خلاصہ بزبان سید عبد الجبار غزنوی ؒ :۔اب اس بحث کا خلاصہ اہل حدیث عالم و صوفی الامام سید عبد الجبار غزنویؒ کے الفاظ میں سنئے،آپ فرماتے ہیں:

”علم دوقسم کا ہے،علم باللہ اور علم بالاحکاّم۔ علم باللہ(خوف و خشیت الہی)انسان کو فائدہ بخشتا ہے اور محض علم احکام (فرض، واجب، حلال و حرام کی واقفی بغیر پہچانے عظمت الہٰی کے) خدا کی حجت ہے بنی آدم پر۔ ”انما یخشی الله من عبادہ العلمٰٓوٴُا’’ (فاطر:۲۸( خدا کے بندوں میں سے خدا کا وہی خوف کرتے ہیں جو علم (معرفت) والے ہیں۔من ھوقانت آنا ء اللیل ساجداوقائما یحذر الاخرۃ و یر جو رحمتہ ربہ قل ھل یستوی الذین یعلموں والذین لایعلمون(زمر:9)بھلا جو بندگی میں لگا ہے ،اوقات شب میں سجدے کرتا ہے،اور کھڑا رہتا ہے،خوف کرتا ہے آخرت کا اور امیدوار ہے،اپنے رب کی رحمت کا تو کہہ بھلا برابر ہو جائیں گے،سمجھ والے اور بے سمجھ“۔

پروردگار نے ان لوگوں کو عالم اور سمجھ والے کہا ہے ،جو شب خیز عابد و متقی ہیں ،اور جن پر یہ صفتیں نہیں ، وہ اس زمرے میں نہیں آتے۔ان کے حق فرمایا کہ وہ گدھے ہیں ،کتابوں سے لدھے ہوئے۔كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۔(حجرات:11)چار پائے برو کتا بے چند۔ گدھا کتابوں کا بوجھ اٹھا کر عالم نہیں بنتا،ایسے ہی عالم بے عمل جس کو پڑھ گن کر خوف وخشیت نصیب نہ ہو وہ عند اللہ عالم نہیں کہلاتا۔ احکام شریعت کا واقف ہو کر جو سگ کی مانند ہیں جیسا کتا اپنی بتقضائے طبیعت کے سبب ہر وقت ہانپتا ہے،ایسے ہی یہ لوگ اپنی بد عادت کے سبب ہر دم نافرمانی کرتے ہیں ۔فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ۔ (اعراف :176)اصل علم معرفت خشیت الہٰی ہے، جو اس میں کامل ہے، وہ اس فن کے استاد اور معلم ہیں، جیسا علم احکام (حدیث وفقہ) پڑھنے کے لئے سفر ضروری ہے ویسے تحصیل معرفت اور خشیت کے واسطےسفر کرنا لازم ہے، ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے ہمراہ تھے ،آپ نے آسمان کی طرف نظر کی اور فرمایا ایسا وقت آنے والا ہے، جو لوگوں میں سے علم اٹھایا جائے گا ،یہاں تک کے کہ کچھ بھی ان کے قبضہ میں نہ رہے گا، زیاد بن لبید انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کس طرح علم جاتا رہے گا، ہم نے قرآن پڑھا آئندہ اپنے بچوں کو پڑھائیں گے، (یہ سلسلہ جاری رہے گا) آپ نے فرمایا تجھ کو روئے تیری ماں، اے زیاد ہم تجھے مدینہ والوں میں سے دانشمند جانتے تھے،(پھر تو ہماری بات نہ سمجھ سکا) یہ ہیں تورایت، انجیل یہود و نصاریٰ کے پاس، پس ان کو ان کتابوں سے کیا نفع ہے۔ حدیث کا راوی کہتا ہے پھر مجھے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ملاقات کا اتفاق ہوا، ان سے میں نے ذکر کیا، ابو الدردا رضی اللہ عنہ ایسا فرماتے ہیں، عبادہ نے کہا ابو الدردا رضی اللہ عنہ ایسا فرماتے ہیں، عبادہ نے کہا ابو الدرداء سچ کہتے ہیں ،اگر تو چاہے تو میں تجھے بتلا دوں ،وہ علم جو لوگوں میں سے پہلے اٹھایا جائے گا،وہ خشوع (خوف الٰہی) ہے،اور قریب ہے کہ وہ حالت کہ تو جامع مسجد میں جاوے اور کسی شخص کو حالت خشوع میں نہ دیکھے“ ۔

اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ الفاظ اور معنی کی واقفیت علم نہیں،خوف خدا اور معرفت الٰہی کو علم مقبول کہا جاتا ہے(11)

جب منکرین تصوف ملّا قصوری نے صحبت صوفیاء کیفیات قلبی (برکات نبوت) کا انکار کیا تو جواباً آپ نے کیفیات قلبی کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی:۔

”بے شک اہل اللہ کی صحبت میں عبادت کی اور ہی لذت وکیفیت ہوتی ہے۔ حضرت رسالت مآب ﷺ کے اصحاب رضوان اللہ اجمعین آپ کے حضور و صحبت کی برکت سے اسی توجہ دلی سے نماز پڑھتے کہ دشمنوں کے تیر بدن میں گھس جاتے، اور فرط حلاوت سے جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے ،اپنی حالت کی طرف توجہ نہ کرتے، یہ قصہ ابو داؤد میں ہے مصنف٭ نے اس قسم کا خشوع و حضور تبتل الی اللہ کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا ،اس لئے منکر ہو بیٹھا“۔

صوفیاء کرام کے ایسے حالات ہزاروں نے دیکھے ہیں، اگر بعض مسائل میں ایسے بزرگوں سے خطا بھی ہو جائے، تو رتبہ صدیقیت دحب ہوتی جو ان کے دل وجان کی روح ہے ان کو نور وتجلی بخشتا ہے

يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ]سورة النور:35[

اللہ نور کی مثال بیان فرماتا ہے ،قریب ہے کہ تیل اسکا خود روشن ہو جائے ،اگرچہ نہ چھوئے اس کو آگ نور ہے،اوپر نور کے رہنمائی کرتا ہے ،اللہ واسطے اپنے نور کے جس کو چاہئے۔

صحبت کے برکات وفوائد احادیث صحیحہ نبویہ سے ثابت ہیں، فرمایا کہ صحبت صالح کی مانند صحبت مشک فروش ہے، جو پاس بیٹھے گا بے نصیب نہ رہے گا۔ صحیحین میں ہے، ذاکرین خدا ایسی قوم ہیں جن کا ہمنشین محروم نہیں رہتا، اگر مصنف کو اس کیفیت کی خبر ہوتی، تو انکار نہ کرتا۔ اہل غفلت اور اہل اللہ کی نماز باہم کچھ نسبت نہیں، اللہ جل شانہ فرماتا ہے ” فویل للمصلین الذین ہم عن صلاتہم ساہون (ماعون)“پس تباہی ہے واسطے ان نمازیوں کے جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔اور فرمایا ” قد افلخ المومنون الذین ھم فی صلوٰۃ ھم خاشعون“بے شک کامیاب ہوئے وہ ایمان والے جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں ۔(مومنون:1)

ان دونوں آیتوں کو بنظرِتدبر دیکھو غافلوں کی نمازسبب ویل خرابی کا فرمایا ،اور خشوع کرنے والوں کی نماز موجب فلاح و خلاصی کا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭ مرادمنکرتصوف ملّا غلام علی قصوری

اور حضرت رسالت ﷺ فرماتے ہیں ” ان العبد الینصرف من صلوہ و لم یکتب لہ منھا الا نصفھا الا ثلثھا حتی قال الا عشرھا ،خدا کا بندہ نماز کوپڑھ کر فارغ ہو بیٹھتا ہے،اور نامہ وعمال میں اسکے نماز سے کبھی نصف لکھا جاتا ہے کبھی تہائی ،یہاں تک فریایا کبھی دسواں حصہ۔ رواہ اصحاب السنن۔ یہ کمی بیشی ثواب کی بہ سبب قلت اور زیادت خشوع اور حضور نماز کے ہے۔ ورنہ بحسب ظاہر تو سب برابر ہیں۔ ان نصوص پر اگر مصنف٭ غور کرتا بمشیت الہٰی شاہد حقیقت امر اس پر منکشف ہو جاتی“۔(12)(ایضاً ص 6/8)

مزید فرماتے ہیں:

”صحابہ کبار میں سے ایسے لوگ بھی تھے ،جنہوں نے تمام عمر گھر بار نہیں بنایا ،رسول رب العالمین کی مسجد میں اوقات زندگی بسر کی ،لوگ اچھا کھاتے، اچھا پہنتے اور یہ معتکفان بارگاہ عالی بحالت فاقہ مستی دنیا و مافیہا کو چھوڑ کر وہی پڑے رہتے تا کہ پیٹ بھر کر آپ کی صحبت کا فیض حاصل کرے، اور معرفت الہٰی سے مستفیض ہوں۔ ایسا ہی اس آخر زماں میں کوئی اس سنت پر عمل کرے اور واسطے تحصیل علم باللہ کے کسی عالم حقانی کی خدمت میں جا رہے تو بے شک عند اللہ مستحق اجر کا ہوگا، البتہ جس کے ایمان میں ضعف ہے، وہ مہاجرت فی سبیل اللہ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ رب العالمین نے منافقوں کے حالات نقل کئے ہیں ،کبھی کہتے ہیں شغلتنا اموالنا و اھلونا (سورۃفتح 11)کبھی عذر کرتے ہیں ان بیوتنا عو ر ۃ و ما ھی نعوتۃ (احزاب :10)ہمیں مال اور اہل عیال کا فکر رہتا ہے ۔ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں ،کوئی خبر گیر اور محافظ نہیں ۔افسوس کے ملّاقصوری پیراون سنت پر اعتراض کرتا ہے اور روش منافقین کی طرف رغبت دلاتا ہے“۔(13)

اور یہ اعتراض کے علماء ظواہر کی صحبت کو چھوڑ کرعلماء باطنی کی طرف طالب ِتصوف و احسان کیوں جاتےہیں،”اور عذر انکا کہ ہم مسائل پوچھنے جاتے ہیں، حالانکہ وہ آپ بھی علم والے اور قرب جوار میں بھی عالم ہیں، پھر انکا یہ کہنا بہانہ ہے“اسکے جواب میں آپؒ فرماتے ہیں:

”یہ عذر ان کا اہل بصیرت کے نزدیک درست ہے جس علم کے وہ طالب ہیں، اس علم سے تم اور ہم جیسے عالم بے خبر ہیں وہ علم ہماری تمھاری صحبت سے ہاتھ نہیں لگتا، وہ اہل اللہ کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے ،اس آخر زمانہ میں علم با للہ یعنی احسان اور اخلاص خلق اللہ میں سے ایسا اٹھایا گیا ہے۔ کہ اگر شاذ و نادر کوئی اس عالی رتبہ کو پہنچتا ہے ،لوگ اس کو دیوانہ مجنوں سمجھتے ہیں ،خاص کر کے جن کو نیچر سے لگاوٹ ہے وہ تو منہ پھاڑ پھاڑ کر اہل اللہ پر اعتراض کرتے ہیں“۔ (14)

یہ بات پیش نظر رہےکہ میری اس کاوش کامقصد کوئی مناظرہ و مجادلہ یا انتشار پھیلانا نہیں، بلکہ خلوص دل کیساتھ تصوف و احسان کی حقیقت کو پیش کرنا ،اور وہ احباب جو کسی بھی وجہ سےتذبذب کا شکار ہیں، ان تک یہ حقیقت پہنچانا مقصود ہے ۔اللہ پاک ہمیں صراط مستقیم کی سمجھ اور فکر عطا فرمائیں۔آمین



دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی



( ماخوذ زیر طبع مقدمہ تصوف ٭)
 
Top