علی پور کا ایلی876-890

شمشاد

لائبریرین
انصاف کرو۔ میرا کیا ہے۔ اپنا گزارہ تو ہو جائے گا۔ چند جماعتیں بھی پڑھی ہیں۔ اچھی بری بات بھی کر لیتا ہوں لیکن نصیر کی ماں کا کیا ہو گا۔ ہی ہی ہی ہی۔ اب نہیں بولتی۔ ہو گئی بولتی بند۔“ ان کا قہقہہ گانجتا۔

“ آپ سے کون سر کھپائے۔“‌ راجو جواب دیتی اور پھر اٹھ کر اندر چلی جاتی۔ اس پر علی احمد بھی اپنی میلی دھوتی سنبھلتے ہوئے اس کے پیچھے چل پڑتے۔

“ اب دے نا جواب۔ کیوں نصیر کی ماں۔“

“ نہ میں نہیں دیتی۔“

“ کیسے نہیں دے گی۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنستے۔

“ چھوڑو بھئی۔“ اند راجو تنک کر نخرے سے کہتی۔

“ حافظ قرآن ہوتی تو چھوڑ بھی دیتے لیکن تو کیا سمجھے گی اس لطیف اشارے کو۔ ذات کی ہوئی رنگڑ، پلی دولت پور میں۔ ہی ہی ہی ہی۔“

دفعتاً شمیم اور اس کی دونوں بچیاں نعمہ اور انجم محسوس کرتیں کہ ٹین کا سپاہی نمودار ہو رہا ہے اور وہ گھبرا کر کھسک جاتیں اور اندر اپنے کمرے میں جا پناہ لیتیں اور ایلی کو سمجھ میں نہ آتا کہ کیا کرے۔ اور وہ اٹھ کر جمیل کر طرف چل پڑتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

دیپال پور

چار ایک ماہ کے بعد ایلی کی تعیناتی دیپالپور ہو گئی۔

دیپالپور ایک وسیع صحرا تھا جس میں یہاں وہاں دور دور مکانات بنے ہوئے تھے۔ اس وسیع صحرا کو دیکھ کر ایلی نے محسوس کیا کہ جیسے بطخ تالاب میں آ پہنچی ہو۔ ایلی ذہنی طور پر خود ایک ویرانہ تھا۔ دیوانہ ویرانے میں مل گیا۔ اسے ریت کے اس پھیلاؤ کو دیکھ کر سکون سا محسوس ہوا۔ جیسے وہ اپنے گھر آ گیا ہو۔ وہاں پہنچ کر ایلی نے جانا کہ خانپور میں محفل جما کر اپنے آپ کو بہلانے کی کوشش غلطی تھی۔ اس کی زندگی میں دو رخی پیدا ہو رہی تھے۔ وہ دل کے ویرانے کو بھولنے کے لیے نخلستانوں کا متلاشی تھا۔ دیپالپور پہنچ کر اس نے شدت سے محسوس کیا کہ اپنی اصلیت کو بھولنے کی کوشش سے سکون حاصل نہیں ہوتا بلکہ اپنی اصلیت میں ڈوب جانے سے حاصل ہوتا ہے۔ اسے تسلیم کر لینے میں راحت ہے جھٹلانے میں نہیں۔

دیپالپور میں اس کا ساتھی کوئی نہ تھا۔ کوئی دوست نہ تھا۔ اس لیے وہ اکیلا ریت کے تودوں کی طرف نکل جاتا اور پھر کسی ٹیلہ نما تودے کے سائے میں بیٹھ کر ماضی کی یاد میں کھو جاتا۔

ان دنوں وہ سادی کو بھول چکا تھا۔اس کے صبح و شام شہزاد کے خیال سے پر تھے۔ شہزاد اس کی زندگی پر یوں مسلط و محیط تھی کہ کسی اور کی گنجائش نہ رہی تھی۔ سادی کا خیال ------ ایک مسرت بھرا جام تھا۔ جس میں رنگ تھا لطافت تھی۔ اس کے برعکس شہزاد کے خیال میں تلخی تھی دکھ تھا اور اسی لیے شدت تھی۔ شہزاد نے اسے بے عزت کر کے اپنی محفل سے نکال دیا تھا۔ اس کے احساس خودی پر کاری زخم لگایا تھا۔ جسے یاد کر کے وہ تڑپتا تھا اور اس تڑپن، گھاؤ اور شدت کی وجہ سے شہزاد کا خیال اس کے دل میں گھر کر چکا تھا۔ ایلی دراصل ایک غم خور نوجوان تھا اور اس کا ایمان تھا کہ عشق کو محرومی اور غم سے تعلق ہے ------ اس کے برعکس مسرت اور خوشی محض تفریح یا عیاشی کا نام ہے۔ شہزاد سے ایلی کی محبت اب عشق میں بدل چکی تھی۔ اس لیے آہیں بھرنا، ریت کے تودوں تلے بیٹھ کر رونا، کروٹیں لینا اس کا محبوب مشغلہ بن چکا تھا۔

اس کے علاوہ شہزاد کا خیال آتے ہی اسے اپنے رقیب کا خیال آ جاتا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہوں گے۔ نگاہوں میں نگاہیں ڈالے، ہاتھ میں ہاتھ دیئے وہ ہنس رہے ہوں گے۔ اشاروں میں باتیں کر رہے ہوں گے، عہد و پیمان ------ اب وہ مل رہے ہوں گے۔ قریب اور قریب۔

ایلی کے دل پر ایک چوٹ لگتی۔ وہ گھائل ہو کر تڑپتا۔ اس تڑپنے میں اسے لذت محسوس ہوتی یا شاید دل ہی دل میں وہ انتقام لینے کی آرزو کو پال پوس رہا ہو۔

دیپالپور میں ‌پہلی مرتبہ اسے بچوں کو پڑھانے کا موقعہ ملا۔ لیکن دقت یہ تھی کہ وہاں کے بچے قطعی طور پر بچے نہ تھے۔ پہلی مرتبہ جب وہ جماعت میں داخل ہوا تو انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ لیکن جلد ہی وہ اپنے آپ میں کھو گیا۔ اسے اتنی فرصت نہ تھی کہ دوسروں کے متعلق سوچے۔

اس کے ہم کار اساتذہ سب کے سب گویا ایک سانچے میں ڈھلے تھے۔ ان کی چال ڈھال، بول چال میں ایک رسمی اور مصنوعی وقار تھا۔ ان کی حرکات بھدی اور بے جان تھیں۔ اور ان کے خیالات ایک ہی سمت میں چلتے تھے۔ ایلی نے شدت سے محسوس کیا کہ وہ سب کولہو کے بیل تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

محمود

سارے مدرسے میں صرف ایک شخص تھا جس کا انداز مختلف تھا۔ اس کا نام محمود تھا اور وہ سکول کا کلرک تھا۔ شاید اس فرق کی وجہ یہ تھی کہ وہ استاد نہ تھا۔ تو کیا اساتذہ کا وہ رویہ اور انداز بچوں کو پڑھانے کے مشغلے کی قیمت تھی جو وہ ادا کر رہے تھے۔ ایلی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

اس کے علاوہ محمود کی عمر بہت چھوٹی تھی۔ وہ عنفوان شباب میں تھا۔ اگرچہ اس کی شادی ہو چکی تھی اور ایک بچی بھی تھی۔ محمود کا قد چھوٹا تھا اور اس کا جسم گھٹا ہوا تھا۔ بال گھنے اور بھور کالے تھے۔ رنگ میلا میلا سا تھا۔ بھنوئیں گھنی تھیں۔ پیشانی سے شدت کا اظہار ہوتا تھا۔ ہونٹوں میں شرارت دبی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں غصہ جھلکتا اور بھوؤں سے شوخی اور الحاد ٹپکتا اور ایسے محسوس ہوتا جیسے وہ رومی ٹوپی جو وہ پہنتا تھا اور نمازیں جو وہ باقاعدہ پڑھتا تھا محض جھوٹ تھیں۔

محمود کے کردار کا سب سے بڑا جزو جذبہ اور اس کی شدت تھی۔ یہ جذبہ گھڑی کے پنڈولم کی طرح مذہب اور عورت کے درمیان گردش کرتا تھا ------ اس کے علاوہ اس میں بے پناہ ذہانت تھی۔

محمود سے مراسم پیدا ہونے کی وجہ محض یہ تھی کہ ایلی کو جو مکان رہنے کے لیے ملا وہ محمود کے مکان کے بالکل قریب تھا۔ ابتدا میں محمود کے لیے کوئی جاذبیت محسوس نہ کی تھی۔ غالباً نہ ہی ایلی اسے متاثر کر سکا تھا۔ چند ایک مرتبہ ان کی ملاقات ہوئی۔ پھر محمود نے آنا جانا شروع کر دیا۔ محمود کو صرف دو چیزوں سے دلچسپی تھی۔ ایک تو ایلی کی کتابوں سے اور دوسرے اس کے مکان کے جغرافیے سے۔ چونکہ اس کے چوبارے سے محلے کے بیشتر مکانات دکھائی دیتے تھے۔ محمود کو عورتیں دیکھنے کا شوق تھا اور عورتوں کے لیے اس کی شخصیت میں ایک انوکھی جاذبیت تھی۔ محمود کو دیکھ کر وہ چڑ جاتیں۔ انہیں یوں غصہ آنے لگتا جیسے انہیں چھیڑ دیا گیا ہو۔ پھر نہ جانے کس اصول کے تحت وہ غصہ دفعتاً روپ بدل لیتا اور عورت محمود کو ملنے کے لیے بڑی بے باکی سے باہر نکل آتی۔

ایلی کو محمود کی اس خصوصیت کو نہ تو علم تھا اور نہ اس سے کوئی دلچسپی تھی۔ ان کے میل ملاپ کی تمام تر وجہ انگریزی زبان تھی۔ اگرچہ وہ فقط میٹریکولیٹ تھا لیکن نہایت اچھی انگریزی لکھتا تھا اور ایلی کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ محمود کنسائز آکسفورڈ ڈکشنری کو دو مرتبہ یوں پڑھ چکا تھا جیسے ناول پڑھتے ہیں۔

چند ماہ دیپالپور رہنے کے بعد ایلی کو دھرم سالہ بھیج دیا گیا جہاں صحرا کی جگہ پہاڑوں نے لے لی اور تودوں کے نیچے بیٹھنے کی بجائے وہ چیل اور دیوارون تلے بیٹھ کر آہیں بھرنے میں مصروف ہو گیا۔

دھرم سالہ سکول میں وہ اکیلا مسلمان ٹیچر تھا۔ چونکہ فارسی کا مولوی چند ایک ماہ ملازمت کرنے کے بعد لمبی رخصت لے کر وہاں سے چلا گیا تھا۔ وہاں پہلی مرتبہ اسے احساس ہوا کہ وہ مسلمان ہے۔ اس سے پہلے ایلی نے کبھی مذہب کے نقطہ نظر سے زندگی کو نہ دیکھا تھا۔بلکہ جہاں تک مذہب کا تعلق تھا وہ اس سے قطعی طور پر کورا تھا۔ اگرچہ دسویں جماعت میں اس نے کئی ایک روزے رکھے تھے اور زندگی بھر وہ عید کی نماز پڑھنے جاتا رہا تھا۔

صرف علم کی ہی بات نہیں جذبے کے لحاظ سے بھی وہ مسلمان نہ تھا۔ پہلی مرتبہ جب منصر نے اس کے روبرو اپنے اسلامی جذبے کی وضاحت کی تھی تو اسے بات سمجھ میں نہ آئی تھی اگرچہ بات کی رنگینی سے متاثر ہوا تھا۔

اس روز وہ دونوں سفید منزل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ منصر نے جذبہ اسلام کی بات کی تو ایلی کی ہنسی نکل گئی۔ چونکہ منصر میں کوئی بات بھی اسلامی رنگ کی نہ تھی۔ وہ شراب پیتا تھا۔ نماز نہیں پڑھتا تھا۔ روزے نہیں رکھتا تھا اور عاشق مزاج تھا۔

ایلی نے طنزاً منصر سے کہا۔

“ اچھا تو آپ مسلمان ہیں؟“

“ بالکل۔“ منصر نے جوش میں آ کر بولا۔ “ الحمد للہ کہ میں مسلمان ہوں۔“

“ سمجھ میں نہیں آتا۔“ ایلی نے پوچھا۔ “ آپ کیسے مسلمان ہیں۔“

“ ٹھہریئے۔“ منصر نے ایک سیکنڈ کے لیے سوچ میں‌پڑ گیا۔ پھر بولا۔ “ دیکھیئے اگر اس وقت چھت پھٹ جائے اور جبرائیل اتریں اور آ کر مجھ سے کہیں۔ مجھے باری تعالٰے نے بھیجا ہے۔ فرمایا ہے کہ انصار منصر کو ہمارا سلام پہنچا دو اور کہو کہ اسلام جھوٹا مذہب ہے اور عیسائیت سچی ہے۔ تو میں جبرائیل سے کہوں گا کہ باری تعالٰے کو میرا سلام دو اور کہو حضور کا ارشادِ گرامی موصول ہوا۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن انصار منصر مسلمان ہے اور مسلمان ہی رہے گا۔“

ایلی اس نقطہ نظر سے قطعی ناواقف تھا۔ صرف ناواقف ہی نہیں اس لیے اس میں ایسے جذباتی نقطہء نظر کو سمجھنے کی اہلیت ہی نہ تھی۔ خصوصاً مذہب کے بارے میں۔ اس کے برعکس جذباتی طور پر وہ مسلمان ہونے پر شرمندگی محسوس کیا کرتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ مذہبی نقطہء نظر کا قائل ہونا ذہنی وسعت کے فقدان کا اظہار کرنے کے مترادف ہے۔ اسی وجہ سے وہ نمائشی طور پر مذہب سے بے تعلقی اور بےزاری کا اظہار کرنے کا دلدادہ تھا۔ اور کفروالحاد کی بات کرنے میں دلچسپی لیا کرتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

رام دین

دھرم سالہ میں پہلی مرتبہ ایلی کو احساس ہوا کہ وہ مسلمان ہے۔

اس روز وہ حسبِ معمول پڑھا رہا تھا۔ پڑھاتے ہوئے اس نے پیاس محسوس کی۔

“ دین محمد۔“ وہ چلایا۔ چونکہ اس کی جماعت میں صرف ایک مسلمان لڑکا تھا جو اسے پانی لا کر دیا کرتا تھا۔

اس روز دین محمد حاضر نہ تھا۔

“ رام لال۔“ وہ بولا۔ “ مجھے ایک گلاس پانی لا دو۔“

رام لال جوں کا توں اپنے ڈسک پر کھڑا رہا۔

“ تم جاتے نہیں۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ جی ماشٹر جی۔ میں ہندو ہوں۔“

“ تو کیا ہوا؟“ ایلی ہنسنے لگا۔

“ جی میں بھرشٹ ہو جاؤں گا۔“

ایلی قہقہہ مار کر ہنس پڑا۔ “ دیکھو رام لال۔“ وہ اسے سمجھانے لگا۔ “ اگر تم میرے ہاتھ کا پانی پیو گے تو بے شک بھرشٹ ہو جاؤ گے۔ لیکن اگر تم مجھے پانی لا دو تو اس میں بھرشٹ ہونے کی کیا بات ہے؟“

اس پر بھی رام لال جوں کا توں کھڑا رہا۔

“ جاؤ نا۔“ ایلی کو غصہ آ گیا۔

“ جی میں بھرشٹ ہو جاؤں گا۔“ وہ بولا۔

“ اچھا تم جاؤ۔ مکند۔“

مکند بھی چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔

ایلی کے دل کو ٹھیس لگی۔ اس نے جماعت کی طرف دیکھا۔ سبھی لڑکے سر لٹکائے بیٹھے تھے۔

ایلی کی نگاہوں سے گویا پردہ ہٹ گیا۔

“ میں مسلمان ہوں۔“ نہ جانے کون اس کے دل میں چیخ رہا تھا۔

“ الحمد للہ کہ میں مسلمان ہوں۔“ آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔ وہ جماعت سے باہر نکل گیا۔

اگلے روز ابھی وہ رام دین کے بھنور میں ڈبکیاں کھا رہا تھا کہ ڈاکیا آ گیا اور اس نے ایک لفافہ ایلی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ لفافے پر غیر مانوس خط میں اس کا پتہ لکھا ہوا تھا۔ نہ جانے کس کا خط ہے۔ پتے بھی تو کئی ایک لکھے ہوئے تھے۔ علی پور کا پتہ، خانپور کا پتہ اور دھرم سالہ کا۔ جابجا مہریں لگی ہوئی تھیں۔

اس نے لفافہ کھولا۔ ایک چھوٹے سے کاغذ پر سرخی میں ایک شعر لکھا ہوا تھا۔

وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا کیا کہ مجھ کو فراموش کر دیا​

اسے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ پھر دفعتاً اسے خیال آیا اور اس نے لفافے کی مہریں پڑھنے کی کوشش کی۔ لفافے کی پشت پر صاف طور پر مہر لگی ہوئی تھی۔ گروکل سٹیٹ۔

“ ارے۔“ اس کا دل ڈوب گیا۔ وہ خط کو سامنے رکھ کر بیٹھ گیا۔

عجیب سی سیاہی تھی۔ نہ وہ سرخ تھی نہ ------ شعر کے نیچے ایک دھبہ سا پڑا تھا۔ دفعتاً اسے خیال آیا اوہ ۔ خون ۔ پھر اسے معلوم نہیں۔

وہ دھندلکا۔ وہ خلا۔

وہ بھول گیا کہ وہ رام دین ہے۔ کمرے کی کارنس پر سادی کی مورتی رقص کرنے لگی۔ وہ رقص مسرت بھری حرکات سے عاری تھا۔ اس کے بال کھلے تھے۔ سیاہ لباس زیب تن تھا۔ نگاہوں میں حزن و ملال تھا۔ نرت میں اداسی اور غم کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

اس کے بعد ایلی کا خیال سادی پر مرکوز ہو گیا۔ شہزاد کی صورت دھندلی پڑتی گئی۔ صفدر کے قہقہے بےمعنی ہوتے گئے۔

“ ٹھیک ہے۔ اگر وہ صفدر کو چاہتی ہو تو ٹھیک ہے بلکہ اور بھی اچھا ہوا۔ جان چھوٹی سو لاکھوں پائے۔“

سامنے سادی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ دھرم سالہ کے سرسبز پہاڑوں پر دوڑ رہی تھی۔ اسے بلا رہی تھی۔ ایلی نے سونٹا اٹھا لیا۔ کندھے پر بیگ ڈال لیا اور باہر نکل گیا۔

اسی طرح اس نے دو ماہ بسر کر دیئے۔ وہاں وہ صرف دہ ماہ کے لیے بھیجا گیا تھا۔ دو ماہ وہ پہاڑوں کی خاک چھانتا رہا۔ سادی کے ساتھ وادیوں اور چوٹیوں پر گھومتا رہا۔

وہ اسے کہتا۔“ نہیں نہیں سادی۔ میں نے تمہیں فراموش نہیں کیا۔ کیسے فراموش کر سکتا ہوں لیکن کیا کروں۔ میرے بس کی بات نہیں۔ کاش کہ تم والد صاحب کی رضامندی کی شرط نہ لگاتیں۔“

اور سادی جواب میں کہتی۔ “ میرا بس بھی تو نہیں چلتا۔ میں کیا کروں۔“

اور پھر وہ دونوں بانہہ میں بانہہ ڈال کر چل پڑتے جیسے اس مجبوری کو بھولنے کی کوشش میں‌سرگراں ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

ہیڈ ماسٹر

دھرم سالہ کے بعد اس کی تعیناتی جاورا میں ہو گئی اور وہ جاورا چلا گیا۔ جاورا لائلپور کے قریب ایک قصبہ ہے۔ وہاں کا مدرسہ نہایت فراخ اور خوبصورت تھا اور اس کے ساتھ بہت فراخ گراؤنڈ اور باغ اور پارک ملحق ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ ایک کالج ہو۔

جب پہلے روز اس نے سکول کا بینڈ دیکھا جس میں‌ گیارہ بیگ پائپ بینیں بج رہی تھیں تو ایلی پر نشہ سا طاری ہو گیا۔

سب سے حیران کن چیز جا جاورا سکول میں‌ نظر آئی، سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا۔ اس نے کئی ایک سکولوں کے ہیڈ ماسٹر دیکھے تھے۔ وہ سب گویا ایک سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ ان کے چہروں پر رسمی وقار اس قدر چھایا رہتا تھا، جیسے دور کا سفر کرنے کے بعد جوتے پر غبار کی تہ جم جاتی ہے۔ غبار کی اس دبیز تہہ کی وجہ سے ان کے چہرے بے حس اور مردہ نظر آتے تھے۔ ان کی گردنیں گویا مکلف ہوتیں جو بڑے تکلف سے حرکت کرتیں۔ آنکھیں نہ تو ہمدردی نہ انبساط کی چمک سے واقف ہوتیں۔ وہ دیکھتی نہیں تھیں بلکہ کریدتی تھیں۔ نکتہ چینی کرتیں۔ وہ سب پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے۔ ایک مخصوص انداز سے کھانستے۔ ایلی انہیں دیکھ کر لرز جاتا تھا۔ جھوٹے وقار کے حصول کے لیے وہ کتنی بڑی قیمت ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ پر زندگی حرام کر رکھی تھی۔ اور وہ سب علم کی دولت سے کورے تھے چونکہ ان میں طلب علم نہ تھی۔ طلب کیسے ہوتی جبکہ انہیں کامل یقین تھا کہ وہ جانتے ہیں۔ اس کے دلوں میں یہ شبہ کبھی پیدا نہیں ہوا تھا کہ وہ جو جانتے ہیں شاید غلط ہو۔ شاید اس میں ترمیم کی ضرورت ہو۔ وقت کے تقاضے کے مطابق ردوبدل کی ضرورت ہو۔ انہیں دیکھ کر ایلی کے دل پر خوف مسلط ہر جاتا تھا۔ کہ ایک روز وہ بھی ہیڈ ماسٹر بن جائے گا۔ ہاتھ میں چھڑی تھام لے گا۔ آنکھوں سے دیکھنا چھوڑ کر گھورنا شروع کر دے گا اور بچوں کے دل میں ویسی ہی نفرت و حقارت پیدا کرئے گا۔

جاورا سکول کا ہیڈ ماسٹر قطعی طور پر مختلف تھا اور یہ امر ایلی کے لیے باعث تعجب اور مسرت تھا۔ اس کا نام شیخ مسعود تھا۔ وہ چالیس کے لگ بھگ ہو گا۔ جسم گٹھا ہوا۔ کلین شیو۔ آنکھوں میں جستجو اور چمک اور انداز میں ہیڈ ماسٹریٹ نام کو نہ تھی۔

“ آئیے آصفی صاحب۔“ وہ ایلی کو دیکھ کر چلایا۔ “ تو آپ ہیں ہمارے نئے ٹیچر۔ اگر آپ تعیناتی کا خط نہ دیتے مجھے کچھ دیر اور تو میں کہنے ہی والا تھا کہ آپ کون سی جماعت میں داخلہ چاہتے ہیں۔“ اس نے بھرپور قہقہہ لگایا۔ “ اب آپ ہی بتائیے آصفی صاحب۔ اگر سکول میں ایسے اساتذہ آ جائیں تو کس قدر مشکل ہو جاتی ہے۔ کیسے پتہ چلے کہ استاد کون ہے اور سٹوڈنٹ کون؟ خیر خیر مگر ایک بات ہے۔ آپس کی بات ہے میں کسی سے کہوں گا نہیں۔ یہ بتائیے کہ جماعت کو سنبھال بھی لیں گے۔“ شیخ مسعود نے پھر قہقہہ لگایا اور پھر ایلی کی گھبراہٹ کو سمجھ کر فوراً بات بدلی۔ “ چلئے وہ تو بعد میں‌ دیکھا جائے گا۔ پہلے کھانا کیوں نہ کھا لیں۔ کہتے ہیں پہلے طعام پھر کلام۔ آئیے گھر سے میرا کھانا آیا ہوا ہے اور وہ مقدار میں اتنا ہوتا ہے کہ دو شخص پیٹ بھر کر کھا لیں پھر بھی بچ جاتا ہے۔“

شیخ مسعود باتیں کرتے ہوئے آگے آگے جا رہے تھے۔ ایلی ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔

“ لیکن ایک بات ہے۔“ وہ ڈھکے ہوئے دسترخوان کے قریب جا کر کہنے لگا۔ “شرط لگاؤ۔ اگر میری بیوی نے آج دال کے علاوہ کچھ بھیجا ہو۔ خدا کی قسم۔ بیگم ولی اللہ سے کم نہیں۔ جب مہمان آنا ہو سو فیصدی دال پکاتی ہے۔“

یہ کہہ کر شیخ نے دستر خوان ہٹا دیا اور برتن کو دیکھ کر بے تحاشہ قہقہہ لگایا۔

“ لو دیکھ لو آصفی صاحب۔ میں نے کہا نہ تھا۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ قہقہے پر قہقہہ مارنے لگے۔

شیخ مسعود ایک عجیب شخصیت کا مالک تھا۔ اس کی طبیعت بیک وقت رسمی اور غیر رسمی تھی۔ کبھی وہ اعلٰی قسم کا سوٹ پہنے مدرسے میں آ جاتا اور انگریزی بولنا شروع کر دیتا۔ کبھی کمبل لپیٹے آ وارد ہوتا اور دہقانوں کی طرح باتیں کرتا۔ اسے کام کرنے کا جنون تھا اور وہ اکیلے بیٹھنے سے بے حد خائف تھا جیسے اسے خود سے ڈر لگتا ہو۔ دفتر میں بھی اکیلا نہ بیٹھتا تھا بلکہ اساتذہ کو بلا کر اپنے گرد ایک بھیڑ لگا لیتا اور پھر ان سے بے تکلف دوستانہ باتیں کرتا۔ ان کے روبرو گالیاں دیتا۔ قہقہے لگاتا، گالی دینا اس کی عادت تھی۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ غصے میں گالی دے رہا ہے، بے تکلفی کے اظہار کے لیے یا ویسے ہی عادت پوری کرنے کے لیے۔ نہ جانے کس اصول کے تحت قہقہے مارتے مارتے دفعتاً وہ غصے میں آ جاتا اور پھر منظر ہی بدل جاتا۔ عام طور سے وہ بے تکلف گفتگو کے دوران میں اپنی طبیعت کی ستم ظریفی کے متعلق باتیں کرنے کا عادی تھا۔

“ میں وہ ------ شخص ہوں۔“ وہ گالی دے کر کہتا۔ “ جو گرگٹ کی طرح ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ خدا کی قسم۔ آج تک اپنی طبیعت کا جنتر منتر سمجھ میں نہیں آیا۔ ہنسوں تو یقین نہ کیجئے کہ ہنس رہا ہوں۔ اور غصہ۔ غصہ تو اس حد تک آتا ہے مجھے اور اس قدر آناً فاناً کہ کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ایک بندوق خریدی تھی کہ چور چکار سے محفوظ رہوں لیکن اسے کھول کر اس کے کل پرزے الگ الگ صندوقوں میں بند کر رکھے ہیں کہ جب تک انہیں اکٹھا کر کے جوڑوں تب تک شاید غصہ اتر جائے اور نہ بھی اترے تو بیگم دہائی مچا سکے۔“

اس کی باتیں بے جوڑ ہوتی تھیں۔ بیٹھے بٹھائے اسے کوئی نہ کوئی خیال آ جاتا اور وہ فوراً اٹھ بیٹھتا اور اس خیال کے مطابق عمل شروع کر دیتا۔

اس عجیب و غریب طبیعت کے باوجود ایلی کو شیخ مسعود بے حد پسند آیا لیکن دقت یہ تھی کہ شیخ مسعود ایلی کو کسی وقت اکیلا نہ رہنے دیتا تھا۔ سکول بند ہوتا تھا تو وہ اسے بلا لیتا۔

“ چلو آصفی صاحب۔ تمہیں شہر دکھا لاؤں۔ بڑے بڑے دلچسپ لوگ ہیں یہاں۔“

وہ دونوں شہر کی طرف چل پڑتے۔ راسے میں شیخ گپیں ہانکتا جاتا اور ہر آتے جاتے سے ملتا اور بے تکلفی سے باتیں کرتا۔

“ ارے۔“ چلتے چلتے وہ چونکتا۔ “ آج بدھ ہے ناں۔ آج تو مجھے چک بیس جانا تھا۔ ہے تانگے والے۔“ وہ شور مچا دیتا اور پھر زبردستی ایلی کو تانگے میں سوار کر کے وہ چک بیس کو چلے جاتے۔ شام کو جب وہ لوٹتے تو وہ زبردستی ایلی کو پکڑ لیتا۔

“ اب کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دوں گا۔“

کھانا کھانے کے بعد وہ کوئی قصہ چھیڑ لیتا اور ایلی سوچتا کہ کب بات ختم ہو اور وہ اجازت حاصل کرئے۔

طبعی طور پر ایلی ایک تنہا شخص تھا۔ اس کی نشو و نما کے لیے تنہائی بے حد ضروری تھی جیسے پودوں کے لیے کھاد ضروری ہوتی ہے۔ سوسائٹی میں بیٹھ تو جاتا تھا اور بات بھی کر لیتا تھا لیکن اسے سوسائٹی میں بیٹھ کر سکون یا خوشی حاصل نہ ہوتی تھی۔ اس کے برعکس اس پر ایک اضطراب چھائے رہتا۔

اس کے علاوہ سادی اس کی منتظر رہتی تھی کہ کب اسے تنہائی حاصل ہو اور وہ دونوں بیٹھ کر باتیں کریں۔

صرف اس وجہ سے ایلی چند ایک روز ہی میں شیخ مسعود کی مصاحبت سے اکتا گیا لیکن اس میں اتنی جرات نہ تھی کہ زبردستی اپنے آپ کو الگ کر سکے۔ بہانے تو وہ بناتا تھا یا چوری چوری سرک جانے کی کوشش کرتا۔ سب کوششیں بیکار ہو جاتیں چونکہ شیخ مسعود اسے ڈھونڈ نکالتا اور پھر شیخ سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

ساتھی

جاورا میں ایلی نے صرف چند ایک ساتھی بنائے اور وہ سب متفقہ طور پر شیخ کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ سکول کے اساتذہ بھی جہاں تک ممکن تھا اس سے دور رہنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ ایلی کو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر لوگ اس کے خلاف کیوں تھے۔ حالانکہ شیخ کی شخصیت کے کئی ایک روشن پہلو تھے۔ ممکن ہے دو ایک تاریک بھی ہوں۔ تاریک پہلو کس میں نہیں ہوتے۔

جاورا میں سکول کے قریب ہی ایلی اور افضل نے مل کر ایک مکان لے رکھا تھا اور کام کاج کے لیے ایک نوکر رکھ لیا تھا۔ افضل ڈاکخانے کا ایک کلرک تھا۔ وہ ایک دبلا پتلا قد آور نوجوان تھا۔ مسلسل فکر کی وجہ سے اس کا چہرہ لمبا ہو چکا تھا۔ منہ پر جھریاں پڑ گئی تھیں لیکن آنکھوں میں غم یا پریشانی کی بجائے شرارت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ یہ تضاد کئی بار ایلی کو چونکا دیتا۔

افضل نکما اور چپ چاپ بیٹھنے کا عادی نہ تھا۔ جب وہ بیٹھا ہوتا تو اضطراب کی وجہ سے اس کا پاؤں یا ٹانگ مسلسل حرکت کرتا جیسے مضطرب ہو۔ چہرے پر سوچ بچار اور فکر کے آثار چھائے رہتے اور وہ کوئی شعر گنگناتا رہتا۔ اسے اچھے شعروں سے والہانہ عشق تھا اور اسے سینکڑوں اچھے شعر یاد تھے۔

ایلی اسے پوچھتا۔

“ یار یہ کیا ماجرہ ہے؟ پیشانی سے تم فکر کرتے ہو۔ ٹانگیں اضطراب میں جلترنگ بجاتی ہیں۔ ہونٹوں پر گیت رہتا ہے اور آنکھیں نت نئی شرارت سے چمکتی ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟“

افضل مسکرا دیتا۔ “ بس دیکھ لو۔ جو موجود ہے حاضر ہے اور جو حاضر ہے اس میں حجت کیسی؟“

پھر ان کا پڑوسی شبیر تھا۔ شبیر سکول میں عربی اور فارسی پڑھانے اور چھوٹی سے داڑھی رکھنے کے باوجود مولوی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس کے خوبصورت چہرے پر محبوبیت کی جھلک نمایاں تھی۔ نگاہوں میں شوخی تھی۔

اسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے وہ فرانس یا اٹلی کا باشندہ ہو۔ شبیر کی زندگی بیوی کے مرکز کے گرد گھومتی تھی بلکہ یوں کہیے کہ اسے مجبور کر دیا گیا تھا کہ وہ اس مرکز کے گرد گھومے۔ ممکن ہے اسے بھی اس مرکز سے کچھ لگاؤ ہو لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ ایک بچہ ہو اور گھر والی اس کی دیکھ بھال کرنا اپنا فرض سمجھتی ہو۔ وقت پر اسےکھانا کھلاتی۔ وقت پر بستر پر لٹا کر سونے پر مجبور کر دیتی۔ مناسب لوگوں سے ملنے کی اجازت دیتی اور وہ بھی فقط مناسب وقت کے لیے۔ صرف ایسی جگہ جانے کی اجازت دیتی جہاں اسکے اخلاق پر برا اثر نہ پڑے۔

ایلی کو پہلے پہل اس کا احساس اس روز ہوا جب وہ شبیر سے ملنے اس کے گھر گیا۔ وہ دونوں بیٹھک میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ پھر دفعتاً اندر سے کسی نے چلا کر شبیر کو پکارا۔

“ کون ہے؟“ ایلی نے پوچھا۔

“ بیگم بلا رہی ہے۔“ شبیر نے مسکرا کر جواب دیا۔

“ تو جا سن آؤ اس کی بات۔“

“ پھر سہی۔“ وہ بولا۔ “ ہاں تو کیا کہہ رہا تھا میں۔“ وہ پھر باتوں میں مصروف ہو گئے۔

“ دھڑدڑ ررڑرڑڑام۔۔۔۔“ قریب ہی ایک دھماکہ ہوا۔“

“ارے۔“ ایلی ڈر کر اچھلا۔ “ یہ کیا تھا؟“

شبیر کا منہ زرد ہو رہا تھا۔

“ کچھ نہیں۔“ وہ زیر لب بولا۔ “ بیگم نے پتھر کی سل دروازے پر دے ماری ہے۔“

“ ارے۔“ ایلی چلایا۔ “ تم تو ایسے بات کر رہے ہو جیسے روزمرہ کی بات ہو۔“

“ ہاں۔“ ------ شبیر نے اثبات میں اشارہ کیا۔ “ ہے۔“

“ بیگم ہے یا پہلوان ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ دھڑم ------ “ دروازے پر پھر سل پڑی۔

ایلی اٹھ بیٹھا۔ “ میں جاتا ہوں۔“ وہ بولا۔ “ میرے شانوں پر تو صرف ایک ہی سر ہے یار۔“

اس کے بعد ایلی نے دیکھا کہ جب بھی شبیر ان کے ہاں آتا تو یوں دبے پاؤں داخل ہوتا جیسے چور ہو۔ ذرا سی آہٹ پر گھبرا جاتا۔

پھر ایک روز تو بالکل ہی بھانڈا پھوٹ گیا۔

ابھی شبیر کو آئے چند ہی منٹ ہوئے تھے کہ گلی کا ایک لڑکا آیا۔

“ شبیر صاحب کو گھر بلاتے ہیں۔“ وہ بولا۔

ایلی جواب میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ شبیر پھدک کر کونے میں جا چھپا اور اشارے سے ایلی کو کہنے کہنے لگا کہ کہدو شبیر یہاں نہیں آیا۔ لڑکے کے جانے کے بعد وہ کوٹھےپر چڑھ گیا اور دیوار پھلانگ کر ڈرائنگ ماسٹر کے گھر چلا گیا جس کے مکان کا دروازہ پرلی گلی میں کھلتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی چق کے پیچھے کھری ایلی کے مکان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس لیے دوسرے گلی سے گھوم کر گھر چلا گیا تاکہ بیگم یہ سمجھے کہ کسی اور جانب سے آیا ہے۔ اس روز ایلی کو اندازہ ہوا کہ وہ فرانسیسی مولوی واقعی سکول کا بچہ ہو جو گھر سے چوری چوری آوارہ گردی کرنے کا عادی ہے۔

پھر ان کا پڑوسی ڈرائنگ ماسٹر جو طبعاً لاہور کا بھاء ماجھا تھا۔

اور وہ انگلش ماسٹر احمد تھا جو کلاس میں اونگھنے کا عادی تھا۔

اور جب محفل میں کوئی دلچسپ بات ہو رہی ہوتی تو اس کے دوران سو جایا کرتا تھا اور آخرش اثر چودھری تھا۔

چودھری کی بوٹی بوٹی تھرکتی تھی۔ اس کی بات میں دھار تھی اور نگاہوں کی مسکراہٹ قینچی کی طرح کاٹ دیتی تھی۔ سیدھی بات میں الجھاؤ ڈالنا، دوسروں کو بنانا اور سنجیدہ ترین مسئلے کو ہنسی میں ٹال دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کرتب تھا۔

ایلی کے یہ ساتھی اس کا شیخ کے ساتھ زیادہ میل ملاپ رکھنے کے حق میں نہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ شیخ مسعود قابل اعتماد آدمی نہیں۔ ایلی سمجھتا تھا کہ شیخ کے متعلق ان کے اندازے درست نہ تھے۔ اس کے علاوہ ان سب کی خواہش تھی کہ مل بیٹھیں۔ گپیں ہانکیں۔ تاش کھیلیں یا گھومیں پھریں۔ شاید اس لیے وہ ایلی کا شیخ سے زیادہ میل جول رکھنے کے خلاف تھے۔

جاورا سکول میں آتے ہی ایلی کی حیثیت شیخ کے مصاحب کی طرح ہو گئی۔ وہ اس کا مشیر نہ بن سکتا تھا چونکہ شیخ اپنی مرضی کا مالک تھا اور کسی کے مشورے پر عمل کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اسے کسی پر اعتماد نہ تھا۔ اس کے علاوہ ایلی اپنے احساس کمتری کی وجہ سے کسی کا مشیر نہ بن سکتا تھا۔

سکول سے فارغ ہو کر شیخ ایلی کو اپنے گھر لے جاتا۔ کھانا کھا کر وہ ایلی سے کہتا۔

“ دو ایک خط لکھ لیں تو کیا حرج ہے۔“

اور پھر اٹھ کر کمرے کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرنا شروع کر دیتا۔ ساتھ ہی قہقہہ مار کر ہنستہ۔

“ بھئی آصفی! معلوم ہے میں دروازے کیوں بند کر رہا ہوں۔ جونہی مجھے خط لکھنے کا خیال آیا تو ساتھ ہی بے سوچے سمجھے میں نے دروازے بند کرنے شروع کر دیئے تاکہ خط لکھواؤں تو کوئی سن نہ لے۔“ وہ قہقہہ مار کر ہنسنے لگتا۔

“ تو کیا کانفی ڈنشل خط لکھوانے ہیں۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ نہیں تو۔“ وہ ہنسنے لگا۔ “ عام سرکاری خط ہیں لیکن میرے لیے ہر خط کانفی ڈنشل ہے۔ میری طبیعت ہی ایسی ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ساری دنیا میری دشمن ہے۔ سب میرا بھید جاننے کی کوشش میں لگے ہیں۔ رات کو جب میں کمرے میں سوتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کدھر سے مجھ پر وار کیا جا سکتا ہے۔ کھڑکیاں کھول کر نہیں سوتا چاہے کتنی گرمی ہو۔ چونکہ مجھے خیال آتا ہے کہ کوئی کھڑکی سے پستول چلائے گا خود بھاگ جائے گا۔“ شیخ مسعود ہنسنے لگا۔ “ میری طبیعت ہی ایسی ہے۔“

اس قسم کی باتیں سن کر ایلی کو شیخ پر ترس آتا اور ساتھ ہی ڈر بھی۔ اس حد تک شکی اور بداعتماد شخص پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سوچتا۔

پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے ایلی کی طبیعت میں‌ شیخ کے لیے نفرت پیدا ہو گئی اور شیخ ایلی پر شک کرنے لگا اور جاورا میں ایلی کی زندگی کا دھارا کسی اور رخ پر بہنے لگا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

پاگل مولوی

نہ جانے ایک روز بیٹھے بٹھائے شیخ کو کیا سوجی۔ ایلی سے کہنے لگا۔

“ آصفی۔ آؤ تمہیں تماشہ دکھائیں۔“

شیخ اسے دفتر میں لے گیا۔ پھر اس نے مولوی رحمت اللہ عربی ماسٹر کو بلا بھیجا۔ پہلے تو عربی ماسٹر سے اس نے چند ایک سوالات کیئے پھر جوش میں آ کر انہیں ڈانٹنے لگا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا۔ جیسے پٹاخے کو آگ دکھا دی گئی ہو ------ شیخ مسعود نے انہیں گالیاں دینا شروع کر دیں۔ غلیظ ننگی گالیاں۔

اس پر عربی ماسٹر کا رنگ فق ہو گیا۔ انہوں نے بولنے کی کوشش کی لیکن زبان سے مہمل آوازوں کے سوا کچھ نہ نکل سکا۔ ظاہر تھا کہ شدت و غصہ اور بے بسی کی وجہ سے مولوی صاحب کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔ جوں جوں ان کی حالت غیر ہوتی توں توں شیخ کا جوش بڑھتا۔

آخر مولوی صاحب کے لیے حالات ناقابلِ برداشت ہو گئے۔ ناقابلِ برداشت تو پہلے ہی تھے لیکن مولوی صاحب کو یہ خیال نہ آیا کہ مزید بے عزتی سے بچنے کے لیے وہ کمرے سے باہر چلے جائیں۔ یہ خیال آتے ہی وہ دروازے کی طرف بڑھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ دروازے کے باہر اساتذہ اور طلبہ کی بھیڑ لگی ہے تو انہیں مزید بے عزتی کا احساس ہوا اور اس قدر صدمہ ہوا کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔

مولوی رحمت اللہ جاورا کے ایک معزز شخص تھے۔ صوم و صلٰوۃ کے پابند تھے۔ اکثر جمعہ کے روز جامع مسجد میں خطبہ پڑھتے۔ کم گو تھے اور مدرسے کا کام بڑی محنت سے کرتے تھے۔

جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے غصے میں ڈویژنل انسپکٹر کر ایک پرائیویٹ خط لکھ دیا جس میں انہوں نے اس واقعہ اور شیخ کی زیادتی کا قصہ تفصیل سے بیان کر دیا۔

اس واقعہ پر ایلی بھی بھونچکا رہ گیا۔ کیا یہ تماشہ تھا؟ کیا یہ بات شیخ کے لیے مذاق کی حیثیت رکھتی تھی؟ وہ گہری سوچ میں پڑ گیا۔

اسے سوچ بچار میں کھوئے دیکھ کر شیخ بھی تاڑ گیا کہ ضرور مولوی کے واقعہ نے اس پر گہرا اثر کیا ہے۔ یہ محسوس کر کے شیخ نے ایلی کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے مولوی صاحب کا تذکرہ شروع کر دیا۔

“ یہ مولوی لوگ بھی عجیب لوگ ہیں۔ “ وہ بولا۔ “ انسان اتنا بھی مسئلے مسائل میں نہ کھو جائے کہ اسے یہ تمیز ہی نہ رہے کہ اس کے گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ مولوی خود تو بے حد شریف اور بے زبان ہے لیکن اس کی بیوی اس کی شرافت اور بے زبانی کا خاطر خواہ فائدہ حاصل کرتی ہے۔“ شیخ نے قہقہہ مارا۔ “ ادھیڑ عمر کی عورت خود کیا فائدہ حاصل کرئے گی لیکن اس کی بیٹیاں جو ------“ شیخ نے ایلی کو آنکھ ماری اور پھر قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔

ایلی کو اس کی ہنسی بری لگی لیکن اس میں اس قدر جرات نہ تھی کہ اعلانیہ احتجاج کرتا۔ بہرحال اس شام ایلی گھٹا گھٹا رہا اور شیخ ہر ممکن طریقے سے دلچسپ اور مزاحیہ باتیں سنا کر اسے خوش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔

جب ایلی بھر پہنچا تو وہاں تمام ساتھی بیٹھے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ سب غصے میں تھے۔ ایلی پر وہ یوں برس پڑے جیسے مولوی کی بےعزتی اسی کی وجہ سے ہوئی ہو۔ افضل غصے سے کانپ رہا تھا۔ شبیرکا رنگ زرد ہو رہا تھا اور اس روز وہ بھول گیا کہ اس کی بیوی دیکھ رہی تھی کہ وہ ایلی کے مکان میں بیٹھا ہے۔ سمیع شیخ کو گالیاں دے رہا تھا۔ احمد سر جھکائے بیٹھا تھا اور چودہری مسکرا مسکرا کر کہہ رہا تھا۔ “ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ یہ تمام شرارت الیاس آصفی کی ہے۔“

پانچ چھ روز کے بعد ڈویژنل انسپکٹر سے دو خط موصول ہوئے۔ ایک تو شیخ کے نام تھا جس میں لکھا تھا کہ جواب دے کہ اس نے ایسا سلوک مولوی سے کیوں روا رکھا اور دوسرا خط ہیڈ ماسٹر کے توسط سے مولوی صاحب کے نام تھا جس میں ان سے اس امر کی جواب طلبی کی گئی تھی کہ انہوں نے براہ راست انسپکٹر کو خط کیوں لکھا۔

شیخ نے اپنے نام کے خط کے متعلق تو کسی سے تذکرہ نہ کیا لیکن مولوی صاحب کے خط کی اس قدر تشہیر کی کہ بچے بچے کو علم ہو گیا کہ انسپکٹر نے الٹا مولوی صاحب کو ڈانٹا ہے۔

اس روز رات کو شیخ ایلی کو اپنے گھر لے گیا۔ کہنے لگا۔

“ بھئی آصفی۔ میں سمجھتا ہوں مولوی صاحب سے زیادتی ہوئی ہے۔ ایک تو اس روز میں نے انہیں بلا وجہ برا بھلا کہا حالانکہ وہ محض ایک مذاق تھا۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور اب انسپکٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top