علی پور کا ایلی (426 - 448)

قیصرانی

لائبریرین
بیاہ نہیں کرے گامگراس وقت اپنی منگیترکی بے پروائی اوراظہارتحقیرکودیکھ کراسے تکلیف محسوس ہوئی اس نے محسوس کیاجیسے اس کی توہین کی گئی ہو۔اس خیال پراس کاوہاں رکنامشکل ہوگیااوروہ سیدھارضاکی دوکان پرپہنچااورچپکے سے دوکان کے عقب میں پڑی ہوئی چوکی پربیٹھ کرسوچنے لگا۔
اس روزوہ محسوس کررہاتھاکہ محلے کے سبھی لوگ اس سے شاکی تھے۔شہزادکی بات دوردورتک پہنچ چکی تھی۔نہ جانے بات کیوں نگل گئی تھی۔اس کاصرف یہی قصورتھاکہ ناکہ وہ سارادن گھرپربیٹھارہتاتھاکیااتنی سی بات پروہ سب اس سے بدظن ہوچکے تھے کیااتنی سی بات سے انہوں نے وہ سب کچھ اخذکرلیاتھا۔حیرانی کی بات تھی۔پھرا س کے دل میں شکوک پیداہونے لگتے نہیں نہیں اتنی سی بات سے سب کچھ اخذکرناممکن نہیں۔شایدکسی نے انہیں دیکھ لیاہو---توکیابیٹھک---؟اس خیال پراسے پسینہ آجاتا۔محبت کے رازکاکھل جانااوربات تھی۔مگراس کی شکست کی بات کاکھل جانا۔۔۔۔؟
”ارے ایلی تویہاں؟۔“۔۔۔کسی کی آوازسنائی دی۔
گھبراکی اس نے سراٹھایا۔سامنے صفدربازوپھیلائے کھڑاتھا۔اس کی آنکھوں میں وہی رم جھم کاعالم تھااورہونٹوں پرطنزتھی۔
”گھبراونہیں۔“وہ بولا۔”میں ہوں لیکن تم نے کبھی ہمیں جانابھی ہو،سمجھابھی ہو۔تمہاری آوازتواکثرسن لیتے ہیں بھئی لیکن ملناکبھی کبھارہوتاہے۔“
”جی۔جی۔“ایلی سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ کیاکہے۔
”میں آج کل نچلی بیٹھک میں ہوتاہوں نا۔“صفدربولا”اس کے چوبارے کے عین نیچے تمہاری آوازیں آتی رہتی ہیں ہم توبھئی آوازوں کے سہارے جی رہے ہیں۔“
اس کی آوازمیں مایوسی اورحسرت محسوس کرکے ایلی اوربھی گھبرایا۔
”مل لیاکروایلی۔“وہ بولا“کبھی ہم سے بھی مل لیاکرو۔ماناکہ آج کل اونچی فضاوں میں اڑتے ہو۔”اس کی آوازنمناک ہوگئی۔“خداقسم کی قسم مجھے خوشی ہوتی ہے اس بات پرمگرہم سے اتنااجتناب بھی ٹھیک نہیں۔ آیاکروگے نا۔“یہ کہہ کروہ بازوہلاتاہوایوں دوکان سے باہرنکل گیاجیسے سٹیج پراپناپارٹ اداکرکے جارہاہو۔
ابھی ایلی سنبھلنے نہ پایاتھاکہ رضالاٹھی ٹیکتاہوا آپہنچا۔”بیٹھے ہو۔“وہ باہرسے چلایا” آج تو ہم پرکرم ہورہاہے یااس نے مارکرگھرسے نکال دیاہے۔ آخرکب تک خاکسارسے بات چھپاوگے ارے وائی سے پیٹ چھپانا---اس مٹیارکے دام میں پھنسے ہوبیٹاجس کاکاٹاپانی نہیں مانگتا۔“
ایلی کوسمجھ میں نہ آتاتھاکہ کیاجواب دے۔ان دنوں اسے یہ معلوم نہ تھاکہ رازکومحفوظ کرنے کابہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے اہمیت نہ دی جائے جھٹلایانہ جائے۔وہ توسمجھتاتھاکہ رازکومحفوظ کرنے کے لیے شک کرنے والے کے روبروقسمیں کھاناضروری ہوتاہے اس لیے اس نے قسمیں کھاناشروع کردیا۔
”ایمان سے ایسی توکوئی بات نہیں تم سے کیاچھپاناہے۔“وہ کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا۔
”اچھاتویہ بات ہے۔“رضانے لنگڑی تانگ جھلاکرکہا۔“پریارچاہے کتناہی رنگ وروغن کیوں نہ ہواندھیرے میں سب مٹیالی دکھائی دیتی ہیں اورسب سے پسینے کی بو آتی ہے۔“
”بکونہیں۔“ایلی نے بات مذاق میں ٹالنے کی کوشش کی۔
”جوجی چاہے کہوپربات سوچنے کی ہے پلے باندھ کیایادکروگے کہ رضانے نسخہ بتایاتھاپریارکسی اورچھوکری سے لگاتے توہم بھی ساتھ دیتے تم کہتے توسالی کواٹھاکرلے آتے یہ کیاگڑبڑڈال دی تم نے ہماری پروازاتنی اونچی نہیں اورپھربعدمیں نہ حاصل نہ حصول وہ توبڑوں بڑوں کے کان کترتی ہے توبہ اک قیامت ہے سمٹی ہوئی۔“اس نے کہا”بڑااونچاہاتھ ماراہے میرے یارنے۔“
ایلی خاموش ہوگیا۔رضاکے سامنے قسمیں کھانابے کارتھا۔بالکل بے کار۔رضاکے پاس وہ دو ایک گھنٹے بیٹھاوہ بھی بادل ناخواستہ،پھروہ واپس گھر آگیا۔کئی مرتبہ اسے خیال آیاکہ رضاسے ساری بات کہہ دے لیکن شہزادکی عزت کاسوال تھا۔اگروہ شادی شدہ نہ ہوتی توہ رضاسے دل کی بات کہہ سکتاتھایااگراس کامقصدمحض تفریح ہوتاتوبھی تھا۔محبت کی بات کرناتواس قدردشوارنہ تھالیکن وہ اس خفت کاتذکرہ کیسے کرسکتاتھاجس کی وجہ سے ایلی تباہ حال محسوس کررہاتھا۔انہیں وجوہات کی بناپرایلی نے رضاسے بات نہ کی۔اس کے باوجوداس کاجی چاہتاتھاکہ وہ رضاسے ساری بات کہہ دے اوردل کارازکہہ کراس گھٹن سے نجات حاصل کرے جس کی وجہ سے وہ مضطرب تھا۔جواس کے بندبندمیں رچی ہوئی تھی۔وہ رازاس کے دل میں پھوڑابن چکاتھا۔
اس کشمکش سے مخلصی پانے کے لیے وہ اٹھ بیٹھا۔”میں اب جاتاہوں۔“
”ہاں بھائی۔“رضانے مسکراکرکہا”اب تومیرے پاس کیوں بیٹھنے لگا۔“
”رضاخداکے لیے ایسی باتیں نہ کرو۔“ایلی نے منت سے کہا۔“تیرے منہ سے ایسی بات مجھے اچھی نہیں لگتی۔“
”میرے منہ سے تجھے کوئی بات اب اچھی لگے گی گیا۔“رضانے بناوٹی سنجیدگی سے کہا۔
”پھروہی بات۔“ایلی چلایا۔”تم سے توبات کرنابھی مشکل ہوگیاہے ۔اچھامیں جاتاہوں۔“یہ کہہ کروہ چل پڑا۔
”جانے کے لیے بہانہ مل گیانا۔“رضانے چلاکرکہا۔لیکن ایلی نے اس کی بات کی کچھ پروانہ کی---
ماں اوربیٹا
بڑی ڈیوڑھی میں ارجمندکودیکھ کروہ خوشی سے چلایا۔”ارے تم کب آئے؟“
لیکن ارجمندکودیکھ کراسے تعجب ہوا۔اس کارنگ زردہورہاتھا۔گال پچکے ہوئے تھے چہرے پرمرونی چھائی ہوئی تھی۔
ایلی کی آوازسن کرارجمند نے شورمچانے کی کوشش کی۔”اماں کیاسمجھاہے تم نے ۔“لیکن کھانسی کی وجہ سے وہ پوری بات نہ کرسکا۔
چھاتی لزررہی تھی۔ آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ایلی اسے دیکھ کرگھبراگیا۔”کیابات ہے؟“اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔“بیمارتونہیں ہو؟“
ارجمندکی آنکھیں پرنم تھیں۔اس نے مسکرانے کی شدیدکوشش کی ”اپن کھانسی وانسی کی پروانئیں کرتے ۔“وہ بولاکھانسی کاکیاہے۔اوربیماری ۔نہ بھئی اس خاکسارکولگ بھی جائے توسالی کوحاصل کیاہوگا۔واہ یار۔“
لیکن ایلی نے اس کی بات کاٹ کرکہا۔”تمہاری یہ حالت کیاہورہی ہے۔“
”ہاں بھئی یہ توہے۔“ارجمندبولا۔”وہ بولا۔“وہ کہاہے نااستادنے ہمارے متلچ کہتاہے۔فراق یارمیں گھل گھل کے بن گئے ہاتھی۔استادکی بات عین صادق آتی ہے اپن پر۔پرتم فکرنہ کروایلی۔
چاہے دق کیوں نہ ہوجائے۔مرنے کے ہم بھی نہیں۔ہمارامرناکچھ ایسا آسان بھی نہیں۔کہوکپ کیپ کیاحال ہے۔رپورٹ دو۔ساری کیس ہسٹری سنیں گے اپن توکس حال میں ہیں یاران وطن--مثلاً اس نے اشارہ کیا۔لیکن کھانسی کادورہ پھرشروع ہوگیا۔پہلے تووہ دیوارکاسہارالے کرکھڑارہالیکن دورے کی شدت کی وجہ سے اسے بیٹھناپڑاجب دورہ ختم ہواتوارجمندنے ایک بارپھرمسکرانے کی شدیدکوشش کی۔
”یہ کھانسی بھی اپن سے مذاق کرتی ہے۔اپناساراکھیل غارت کرکے رکھ دیاسالی نے۔ادھرہم نے پریم سندیس سے لڑکی پرجادوکیاادھراس کمبخت نے سرنکالا۔اپناجادوٹونے کاکھیل مکمل کریں یابیٹھ کرکھانسیں۔۔۔سب ملیامیٹ کردیا۔اپنے گاوں میں ایک ایسی مٹیار آئی ہے ارے رے کیابتاوں کیاچیزہے۔سمجھ لوگھی کی مٹکی ہے اورگھی بھی وہ جیسے کچی گری ہو۔کچی گری کیاپھبن ہے کیابانکپن ہے۔اورپھرچال ۔یوں چلتی ہے جیسے ناگ رانی ہو۔“اس کی آنکھوں میں پھرسے وہی چمک لہرانے لگی چہرے پروہی انبساط دہکنے لگی۔
دفعتاً گلی سے ارجمندکی ماں نے سرنکلاجیسے وہ وہاں کھڑی اس کی راہ دیکھ رہی ہو۔ماں کودیکھ کرارجمندنے پنتیرابدلا۔”ارے یار۔“وہ بولا”سنائیں گے کسی وقت تمہیں یہ قصہ ارے کبھی وہاں آوتودکھائیں تمہیں سارے گاوں کومریدبنارکھاہے۔تمہارے اس خاکسارنے۔نام جپتے ہیں لوگ۔“پھروہ ماں کی طرف متوجہ ہوکربولا۔”اماں توکیوںیہاں کھڑی ہے۔کوئی کام ہے توحکم کرکسی سے ملناہے تومیں ڈھونڈکرلے آوں۔“
”میں توتجھے دیکھ رہی تھی۔“ماں نے کہا۔اس کی آوازبھرائی ہوئی تھی۔ آنکھیں پرنم تھیں۔
”مجھے دیکھ رہی تھی۔کیوں۔میرے لائق کیاحکم ہے ماں۔“وہ چلانے لگا۔
”کام توکوئی نہیں۔“وہ بولی“ویسے ہی دیکھ رہی تھی تجھے ۔“
”اچھاتوصرف دیکھناہے۔تودیکھ لو۔دیکھ لو۔ادھرسے اورادھرسے بھی۔“اس نے اپناچہرہ گھماتے ہوئے کہا۔
ماں ہنس پڑی۔”توتومذاخ کررہاہے۔“وہ بولی۔”چل اب گھرچل آرام سے لیٹ تیری طبعیت اچھی نہیں۔“”لوماں۔“وہ ہنسنے لگا۔”ہٹاکٹاتوہوں۔دیکھ تومیری طرف ۔“یہ کہتے ہوئے ارجمندکوپھرکھانسی کادورہ پڑگیا۔اس نے اسے روکنے کی شدیدکوشش کی لیکن بے سودوہ بے بس ہوکردیوارکاسہارالے کرکھانسنے لگا۔اس کی حالت دیکھ کرماں کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوگرنے لگے۔
”کسی کادوش نہیں۔“وہ بولی۔”میرے نصیب ؟“اس نے ماتھے پرزورسے ہاتھ مارا۔
”میرے نصیب وہ اس سے بڑالڑکاتھانا۔“اس نے ایلی سے مخاطب ہوکرکہا۔”کیسی بھرپورجوانی آئی تھی اس پربیٹے آنکھ نئیں ٹکتی تھی۔اورقدیوں نکلاتھاجیسے سرسوں کابوٹانکلتاہے بس نظرکھاگئی اسے۔کہتے تھے دق ہوگیاہے۔اونہوں دق نہیںاسے تونظرکھاگئی۔اوراب یہ۔“اس نے ارجمندکی طرف اشارہ کی اوردوپٹے کے پلوسے آنکھیں پونچھنے لگی۔
ارجمندکودورہ ختم ہواتواس نے بڑھ کرماں کو آغوش میں لے لیا۔”اونہوں ماں مجھے نظرنہیں لگے گی۔میں تونظربٹوہوں۔اوردق میں توسینکڑوں دق ہضم کرجاوں۔اپن مرنے والے نہیں۔موت کی کیامجال ہے جوادھرہماری اور آنکھ اٹھاکردیکھ۔تم توویسی ہی جی براکررہی ہواپنا۔“ارجمندنے یہ کہہ کرماں کو آغوش میں اٹھالیااورایلی سے بولا۔”ملوگے ناشام کوباہر سیرکرنے چلیں گے۔“اورخودگھرکی طرف چل پڑا۔
اس کی ماں چیخ رہی تھی ”اب مجھے چھوڑدے۔چھوڑبھی دے۔“اوروہ ہنسے جارہاتھا۔
”کیسے چھوڑدوں بڑی مشکل سے قابومیں آئی ہے تو۔“
یہ دن وہ دن
ارجمندکے جانے کے بعدایلی نے محسوس کیاجیسے وہ محلہ ایک ویرانہ ہو۔ایک بھیانک ویرانہ ہو۔ایک بھیانک ویرانہ۔سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ کہاں جائے کیاکرے۔گھرجاناتواس کے لیے قطعی طورپرناممکن ہوچکاتھا۔فرحت اورہاجرہ کیاکہیں گی شہزادتواب خیراب ان کے ہاں کبھی نہ آئے گی۔لیکن اس کانہ آنابھی توبذات خودایک واضح اشارہ ہوگا۔اورفرحت کوطعنے دینے کی عادت ہوئی۔بڑی معصومیت سے کہے گی۔
”نہ جانے اب شہزادکیوں نہیں آتی ادھر۔کیوں ایلی کیابات ہے؟“اوراس کے اندازمیں بلاکاتمسخرہوگا۔شہزادکے گھرجانے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتاتھااس کی نگاہ میں کس قدرتحقیرہوگی۔” آگئے تم۔بڑی مردانگی کازعم لئے پھرتے تھے۔میری بات ہی نہیں سنتے تھے اتنی منتیں کیں میںنے کہ نہ یہ خیال نکال دواپنے دل سے لیکن سرپھربھوت سوارتھا۔“
ایلی نے جھرجھری لی ۔”توبہ ہے۔“وہ بولااورپھرسوچنے لگا۔”کہاں جاوں میں کیاکروں؟“
”ارے تم یہاں ایلی۔“صفدرکی آوازسن کرایلی چونکا۔“یہاں کیاکررہے ہوتم،تمہیں باہرنکلنے کی فرصت مل گئی کیا۔لیکن یار۔”اس نے پنتیرابدلا“بڑے خوش نصیب ہوتم،خداکی قسم تمہیں دیکھ کرمجھے بے حدخوشی ہوتی ہے۔بس صرف یہ التجاہے کہ کبھی ہمیں بھی ملاقات کاشرف حاصل ہوجائے۔تمہیں نہیں معلوم ایلی۔“صفدراپنے مخصوص اندازمیں یوں کہنے لگاجیسے سٹیج پرڈرامہ کھیل رہاہو۔“زندگی میں مجھے بڑے بڑے موقعے ملے ہیں۔ایسے موقعے کہ لوگ میری طرف دیکھاکرتے تھے۔سراٹھااٹھاکردیکھاکرتے تھے جیسے آج میں تمہاری طرف دیکھ رہاہوںلیکن ان دنوں ہم ہوکے گھوڑے پرسوارتھے۔ایک عجیب شان تھی اپنی کسی کی آنھ کاتارابننے میں عجیب شان ہوتی ہے۔اورپھراس کی آنکھ کاتاراجوخودزمانے بھرکی آنکھ کاتاراہو،جسے دنیا آنکھوں پربٹھائے،اس کی آنکھوں کاتاراتم جانتے ہی ہولیکن اس زمانے میں مجھے یہ معلوم نہ تھاکبھی آنکھ سے گرکردنیاکے پاوں میں رونداجاوں۔سو آج ہم توپاوں میں روندے جانے کے قابل رہ گئے ہیں۔تم بھی روندلو۔”لیکن بھائی ہرکسی کو۔“صفدر آہ بھرکربولا”وہ دن بھی میسر آتے ہیں اوریہ دن بھی دیکھنے پڑے ہیں۔“اس نے پرمعنی اندازسے کہا۔
پھردفعتاً چونک کربولا۔”یہاں کیوں کھڑے ہو۔انتظارکررہے ہوکیا۔فرصت ملے تو آجاناکبھی میرے پاس اسی چوبارے کے قدموں میں پڑارہتاہوں۔“یہ کہہ کروہ یوں چل پڑاجیسے مکالمہ اداکرکے سٹیج سے جارہاہو۔
صفدرکے جانے کے بعددنیاایلی کی نگاہ میں اوربھی تاریک ہوگئی۔
وہ چپ چاپ محلے سے باہرنکل گیااورشہرکی فصیل سے نکل کرکھیتوں کی طرف چل پڑا۔اسے سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ کہاں جارہاہے۔کس مقصدکے لئے جارہاہے۔اسے صرف ایک دھن تھی کہ شہزادسے دوراس محلے سے دورکہیں جنگل میں چلاجائے لیکن وہاں جاکرکیاکرے یہ اسے معلوم نہ تھا۔
کوٹلی پہنچ کروہ ایک پتھرپربیٹھ گیااورکنکراٹھاکرتالاب میں پھینکنے لگا۔دیرتک وہ وہاں بیٹھارہا۔حتیٰ کہ سائے ڈھل گے اور آسمان پرشفق کی سرخ دھاریاں دوڑگئیں۔پھربھی اس میں گھرجانے کی ہمت نہیں پڑی تھی۔گلی کی عورتیں اسے دیکھ کرکیاکہیں گی۔وہ اس سے پوچھیں گی ”ہے ایلی آج توسارادن باہرکیسے رہا۔“
کاش کہ---
پھرجب شفق کی شنگرنی دھاریاں سیاہی مائل ہوگئیں تووہ اٹھااورمحلے کی طرف چل پڑا۔چھتی گلی کے پاس جاکروہ رک گیا۔شایدوہ چھتی گلی میں بیٹھی ہوں۔لیکن چھتی گلی ویران پڑی تھی۔شہزادکے مکان کی نچلی منزل سے آوازیں آرہی تھیں۔وہ رک کرسننے لگا۔
دفعتاً اسے خیال آیاکہ کہیں وہ باہرنہ نکل آئیں اس خیال پروہ ڈرکربھاگا۔
اندھیری ڈیوڑھی میں وہ دھم سے کسی چیزسے ٹکرایا۔
”ہائے۔“کسی نے چیخ سی ماری۔
اس کادل ڈوب گیا۔
”کون ہے کون؟“اس نے چلاکرکہا مگراس اندھیری ڈیوڑھی پرخاموشی طاری رہی ۔پھراس نے محسوس کیاجیسے کوئی دھندلی شکل اس کے قریب ہی کھڑی ہو۔
”کون ہے کون ہے۔“وہ پھرچلایا۔اس نے اپنے آپ کومحفوظ کرنے کے لیے ہاتھ چلایا۔نرم وگرم لمس سے گھبراکراس نے وہ لٹکی ہوئی چیزتھام لی۔اس کے سامنے شہزادکی ڈولتی ہوئی کشتی نما آنکھیںابھر آئیں۔
”اوہ۔“---اس نے گھبراکرشہزادکابازوچھوڑدیا۔اوربھاگنے لگا۔
”ایلی ۔“----شہزادکی آوازمیں منت تھی۔”ایلی افسوس ہے تم پر۔“اس نے اس کاکوٹ پکڑلیاوہ تڑپ کرمڑااورسمجھے سوچے بغیروہ اس کے قدموں میں ڈھیرہوگیا۔وہ ہچکیاں لینے لگا۔“میں نے جرم کیاہے شہزاد۔میں نے چاندپر---وہ بات پوری نہ کرسکاشہزادخاموشی سے بت بنی کھڑی رہی۔”میں تمہارے قابل نہیں ہوں شہزادنہیں ہوں۔کاش کہ میں تم سے کبھی نہ ملتا۔میری نگاہ تم پرکبھی نہ پڑتی۔مجھے زمین جگہ دے دیتی اورمیں اس میں سماجاتا۔“
”ایلی ۔“وہ چلائی”یہ کیاکہہ رہاہے تو؟“
لیکن ایلی اس کی بات سنے بغیربچے کی طرف روتااورچلاتارہا۔”شہزادتم اپنے دل میں کیاکہتی ہوگی۔تم کیاسمجھتی ہوگی۔کاش میں اس قابل ہوتاکہ کہ تمہیں اپنی بناسکتا۔میں نے تمہیں اپنی ملکہ بنایاتھا۔میں نے تمہیں اپنی دیوی بنایاتھامگرمیں تمہاری پوجانہ کرسکا۔میرے پاس ہے ہی کیاجوتمہیں اپنی دیوی بنایاتھامگرمیں تمہاری پوجانہ کرسکا۔میرے پاس ہے ہی کیاجوتمہیں ملکہ بناوں ۔مجھے معاف کردوشہزادشہزاد۔“
”ایلی ۔“وہ مسکرائی اس کی آنکھیں گویاجھیلوں میں تیررہی تھیں۔”یہ تمہیں کیاہوگیاہے؟“
”نہیں نہیں۔“وہ چلانے لگا۔”میں۔میں تمہیںکبھی تنگ نہیں کروں گا۔میرے غلیظ ہاتھ تمہارے پاکیزہ جسم کوچھونے کے قابل نہیں۔“ایلی نے شہزادکاہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔”میں اپنے وجودسے تمہاری زندگی کوویران نہیں کروں گا۔صرف ایک بار،ایک بارمجھے معاف کردو۔میری حماقت کومعاف کردواکی بارکہہ دو کہ تم نے مجھے معاف کردیاپھرمیں چپ چاپ چلاجاوں گا۔چپ چاپ اورچاہے میری زندگی تاریک ہی کیوں نہ ہوجائے میں کبھی بھول کر بھی---“
”ایلی ۔“وہ چلائی ۔”تم نے مجھے کیاسمجھاہے۔“
”نہیں نہیں۔“وہ ازسرنومنتیں کرنے لگا۔”مجھ سے غلطی ہوئی میں تسلیم کرتاہوں۔“
”یہ تم کیاکہہ رہے ہو۔“وہ بولی۔”ایلی میری طرف دیکھو۔“اس کی آنکھوں میں آنسوتیررہے تھے۔
”تم مجھے کیاسمجھتے ہو۔کس قسم کی عورت سمجھتے ہومجھے کیامیں ---؟“
”نہیں نہیںمجھ سے غلطی ہوئی۔“وہ ازسرنوگھبراگیا۔
شہزادنے بڑھ کراس کے بازوپکڑلیے۔”تم سمجھتے ہوکہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔مجھے خواہش ۔“وہ رک گئی اوراس کی آنکھوں سے آنسوگرا۔وہ گھبراگیا۔وہ کیوں رو رہی تھی۔کیوں رو رہی تھی وہ۔
”کاش تم اس قسم کی غلطی نہ کرتے۔“وہ بولی۔”کاش تم میرے لیے صرف ایلی ہی رہتے پھرتمہیں معلوم ہوتاکہ مجھے صرف تم پیارے ہومجھے تم سے کوئی غرض نہیں۔“وہ پھررونے لگی۔
اگرچہ ایلی نے کبھی اس بات کوواضح طورپرتسلیم نہ کیاتھاکہ اسے شہزادکے جسم کی ہوس تھی۔اگرچہ وہ اس کی خوبصورتی سے بے حدمتاثرہواتھامگریہ تاثراس قسم کانہ تھاجسے عشق کہاجاسکتا۔خوب صورت عورتیں تواس نے کئی دیکھی تھیں لیکن اسے ان سے عشق پیدانہ ہواتھا۔یہ تاثرعملی طورپراس حدتک صرف اس لیے بڑھ گیاتھاکیونکہ اسے شہزادکاقرب حاصل تھاکیونکہ اسے شہزادکے قریب رہنے کے موقع حاصل تھے۔شایددل ہی دل میں سوچاہوکہ وہ شہزادسے تفریح کے چندلمحات حاصل کرسکتاتھاکیونکہ ایک توشہزادمحلے والیوں کی طرح پتھردل نہ تھی۔اوراس لیے اس سے دل کی بات کہی جاسکتی تھی اوردوسرے چونکہ وہ محلے کے تمام نوجوانوں کی نگاہوں کامرکزتھی شایداس کاخیال ہوکہ شہزاداس کی جرات اورجسارت کابرانہ مانے گی۔
”کاش کہ تم مجھے سمجھ سکتے۔“شہزادنے بمشکل کہا۔”کاش کہ تم جاتنے۔“یہ کہہ کروہ چل پڑی اوروہ چپ چاپ حیران وہیں کھڑارہا۔
دیرتک وہ وہیں کھڑارہا۔وہ محسوس کررہاتھاجیسے اس کی بے عزتی کی گئی ہو۔شایداس کاخیال تھاجب وہ شہزادسے معافی مانگے گاتوشہزاداسے تھپک کرکہے گی اب تومعاف کرتی ہوں مگر آئندہ سے کبھی ایسی حرکت نہ کرنااوربات آئی گئی ہوجائے گی۔مگرشہزادکے برتاوسے توظاہرہوتاتھاجیسے وہ کسی بات پردکھ محسوس کررہی ہو۔
کچھ دیرتک وہ وہاں اس اعتبارپرکھڑارہاکہ وہ دونوں اس اندھیری ڈیوڑھی میں بچوں کی طرح آنکھ مچولی کھیل رہے تھے اس کاخیال تھاکہ شہزادوہیں کہیں چھپی کھڑی ہے اورچوری چوری اسے دیکھ رہی ہے۔اس صورت میں تواسے فوراً جانانہیں چاہئے آخروہ کیاسمجھے گی کہ ایلی کاجذبہ اس قدرکمزورہے کہ گرنے کہ بعدفوراًہی سنبھل جاتاہے۔اس میں اورکوئی خوبی نہ تھی بس ایک محبت ہی تھی ناصرف محبت اس لیے اس کے محبت کے جذبے میں تواس قدرکمزوری نہیں ہوناچاہئے۔
لیکن جلدہی اسے احساس ہواکہ اندھیری ڈیوڑھی میں اندھیرے کے سوااورکچھ نہیں اوراندھیرابھی وہ جس میں نہ جانے کیسے کیسے کیڑے مکوڑے رینگ رہے تھے اس خیال کے آتے ہی وہ گھبراگیااور آخری مرتبہ ڈیوڑھی کاجائزہ لے کرسیڑھیاں چڑھنے لگا۔
گھرجاکردیرتک وہ چارپائی پرپڑاسوچتارہا۔کیاواقعی شہزادکواس سے شکایت تھی۔مگراس کے اندازمیں غصے کی نسبت دکھ کی جھلک تھی۔اس نے اسے دکھ تونہیں پہنچایاتھا۔پھراس کی آنکھوں میں آنسوکیوں تھے،وہ رو کیوں رہی تھی کیاوہ ایلی کی خفت پررورہی تھی مگرایلی کی خفت پراسے رونے کی کیاضرورت تھی۔کیاوہ اس لیے رو رہی تھی کہ ایلی سے اسے وہ بات میسرنہ ہوسکتی تھی۔
دراصل شہزادکے متعلق ایلی کے خیالات اورجذبات متضادقسم کے تھے ایک طرف تو وہ اسے ایک بلندوبالاہستی سمجھتاتھا۔ایسی ہستی جواس قابل تھی کہ اسے دیوی بناکرپوجاجائے۔دوسری طرف وہ سمجھتاتھاکہ وہ ایک مشتاق کھلاڑی تھی ورنہ وہ کبھی اس رات اس کاہاتھ تھامنے کی جرات نہ کرتااگرچہ اس خیال کواس نے شعوری طورپرکبھی نہ اپنایاتھاوہ سمجھتاتھاکہ شہزادکاتبسم دیکھنے والے شہہ دینے کی غرض سے ہونٹوں پر آتاہے اس کی چال اس کاہراندازاس کی گفتاراس کی ہرچھوٹی جنبش دعوت تھی،صدائے عام تھی۔اسے کبھی یہ خیال بھی نہ آیاتھاکہ شہزادکسی کی ایسی لغزش پردکھ محسوس کرسکتی ہے۔اس کاواضح ثبوت یہ تھاکہ محلے کے تمام نوجوان شہزادکے گردپروانوں کی طرح گھوماکرتے تھے اوروہ ہرایک سے ہنس ہنس کربات کرنے کی عادی تھی۔رفیق ریشمیں رومال ہلاتاہوااورجھجھکتاہواپوچھتا۔”میں نے کہاپوچھ آوں شایدکوئی سودامنگواناہومیں نے کہاپوچھ آوں۔“
”ہوں تو آگئے تم۔میں بھی کہتی تھی۔“میں نے کہاپوچھ آوں ”صج سے نہیں آیا۔اچھاتو۔“میں نے کہاپوچھ آوں۔”ذرابیٹھ جاو۔“پھروہ اپنی سیاہ آنکھیں گھماگھماکراس کی طرف دیکھتی اورمسکراتی۔اس وقت ایلی محسوس کرتاجیسے اس کے پوچھنے کی عادت پرمذاق اڑارہی ہو۔اوراسے تلقین کررہی ہوکہ پوچھنے کی عادت چھوڑدے اوربناپوچھنے کی جرات پیداکرے۔
یاجب کبھی صفدراس کی نظرپڑجاتا۔تووہ کھڑکی میں کھڑی ہوکرچلاتی۔
”میں نے کہاکس خیال میں کھڑاہے تو۔وہ پارسن نہیں بھولی ابھی تک لیکن میں کہتی ہوں اب آہیں بھرنے سے کیاحاصل ہے۔جب موقعہ تھاتب کھودیانا۔“
جب شہزاداس قسم کی بے تکلف باتیں کرتی توایلی محسوس کرتاجیسے وہ لوگوں کواکسارہی ہو--متوجہ کررہی ہو۔اس وقت وہ محسوس کرتاکہ وہ ایک کھلاڑی ہے۔لیکن جب وہ پرنم آنکھوں سے ایلی کی طرف دیکھتی اورکہتی ”ہے ایلی تم کیاکہہ رہے ہو۔تم نے مجھے کیاسمجھاہے۔“اس وقت وہ محسوس کرتاکہ اس کی بظاہرشوخی محض ایک دکھلاواہے اوردرحقیقت وہ ایک عظیم شخصیت کی مالکہ ہے۔
شہزادکے دل کی گہرائیوں کومحسوس کرکے ایلی اس سے محبت کرتاتھا۔ایسی محبت جس میں دیوانگی کاعنصرتھا۔اس وقت ایلی کی نگاہ میںشہزاددیوی کاروپ دھارلیتی تھی وہ پجاری بن کراس کے قدموں میں گرجاتا۔
لیکن جب شہزادمیں شوخی کاعنصربیدارہوتااوروہ دوسروں سے چمک کربات کرتی توایلی آتش رقابت میں جلتا۔اس کادل یوں سلگنے لگتاجیسے کسی نے بھس میں آگ لگادی ہو۔اورشہزاداس کی نگاہ میں قلوپطرہ کی حیثیت اختیارکرلیتی اوروہ سمجھتاکہ شہزادکواس سے کوئی لگاونہیں وہ صرف اس سے کھیل رہی ہے جیسے وہ اک کھلوناہو۔وقتی تفریح کاسامان۔
اس روزاندھیری گلی میں شہزادکابرتاودیکھ کرایلی کوبے حدتعجب ہوا آخرایلی کے رویے پراس قدرپریشان کیوں تھی۔اسے دکھ کیوں ہورہاتھا۔ایلی کے خیال کے مطابق اول تواسے فرحت کے گھر آناہی نہیں چاہئے تھا۔اوراگر آتی بھی تواس کے اندازمیں تمسخراورتحقیرکاعنصرہوناچاہئے تھا۔
ایلی گھر پہنچاتوفرحت نے اسے دیکھ کرکہا۔”تم کہاں رہا آج سارادن ایلی شہزادسارا دن تجھے تلاش کرتی رہی آج۔توبہ ہے صبح سے اب تک بیسیوں مرتبہ آئی ہوگی ادھر۔“
”کہاں چلاگیاتھاتو۔“ہاجرہ دبی زبان سے بولی ۔”میں توڈرگئی۔”کیوں خیرتوہے ۔“اس نے پوچھا۔”بولتاکیوں نہیں۔“
”ویسے ہی باہرچلاگیاتھا۔“ایلی نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
”توتوکبھی نہیں نکلاباہر۔“فرحت نے کہا۔”ہروقت وہیں گھسارہتاہے شہزادکے پاس۔“
”اے ہے کیاکہہ رہی ہے تو۔“ہاجرہ نے فرحت کوٹوکا۔”چاہے کہیں رہ بیٹالیکن یوں گھرسے باہرنکل جانابتائے بغیر۔تیری توعادت ایسی تونہیں۔“
”لڑائی تونہیں ہوگی تمہاری آپس میں۔“فرحت بولی”بیچاری صبح سے سرگردان پھررہی تھی۔“
”جاجاکراسے مل آ۔اسے معلوم ہوکہ تو آگیاہے۔“ہاجرہ نے کہا۔
”نہ اس وقت میں تھکاہواہوں۔“ایلی نے کہا۔”میں نہیں جاوں گا۔“
”اے ہے وہ بیچاری۔“ہاجرہ نے اس کی منت کی ۔
”چھوڑبھی ماں۔“فرحت بات کاٹ کربولی۔”زبردستی کیوں کرتی ہے۔اس کاجی نہیںچاہتاتونہ سہی ۔خواہ مخواہ ایسابھی کیاہے صبح ہو آئے گا۔“
رات کودیرتک وہ چارپائی پرپڑاسوچتارہا۔”نہیں نہیں وہ مجھے کبھی اچھانہیں سمجھ سکتی۔اورمحبت محبت کس برتے پرکی جاتی ہے زبانی دعوے کون خاطرمیں لاتاہے۔بے کارکی باتیں۔“اس وقت رات کے اندھیرے میں دورنگیں بازواس کی طرف بڑھتے۔”ایلی۔“قریب سے آواز آتی۔”یہ توکیاکہہ رہاہے۔“ایلی کوپسینہ آجاتااوروہ چونک کراٹھ بیٹھتا۔وہ پھرسے سوچنے لگا۔” آخروہ عورت ہے اورعورت کوصرف مردسے محبت ہوسکتی ہے ۔مردسے۔“پھردوڈولتی ہوئی پرنم آنکھیں اس کی طرف تمسخربھری نگاہوں سے دیکھتیں۔”ایلی تم مجھے کیاسمجھتے ہو۔کیاسمجھاہے تم نے مجھے۔“نہ جانے کب تک وہ یونہی پڑاسوچتارہا۔پھراس کی آنکھ لگ گئی۔
جادوکاکھیل
صبح سویرے ناشتہ کیے بغیروہ باہر نکل گیاتاکہ ہاجرہ یافرحت اسے کچھ کہہ نہ سکیں۔ وہ سیدھاارجمندکے ہاں پہنچا۔
”ارے تم۔اتنی سویرے۔“ارجمنداسے دیکھ کرچلایا۔”کہیں تم نمازی تونہیں بن گئے اپنے اپدیش کاالٹااثرتونہیں ہوگیا۔ آو آواماں رک کیوں گئے۔بیٹھ جاو آج وہ چیزدکھائیں گے تمہیں کہ قسم ہے عمربھرنہ دیکھی ہوکبھی۔کیایادکروگے کوئی دوست تھااپنا۔یہ کھڑکی کھولناذرا۔یہ جوسرہانے کی طرف ہے۔“
”ارے رے رے۔“وہ چلایا۔”تم نے بالکل ہی کھول دی۔“اس نے ہاتھ بڑھاکرکھڑکی کے پٹ بندکرتے ہوئے کہا۔”اماں کوئی ہواتھوڑی کھانی ہے کہ پٹ کھول دیں۔اپن نے تومحض دیوی درشن کرتے ہیں اورچوپٹ کھلی ہوتودیویاں چوکنی ہوجاتی ہیں اورپھردرشن میں وہ بات نہیں رہتی۔یہ اتنی درزکافی ہے اب دیکھو۔اونہوں گھبراونہیں۔“ارجمندبولا۔
”ماں ادھرنمازکے بعدوظیفہ پڑھ رہی ہے اورباقی سب سورہے ہیں بے تکلف دیکھو۔سامنے چوبارے میں ساری ہکوریاں اورڈکورے باری باری جاگیں گے اورپھرجاگتے ہی ہرکوئی پہلے آئینے کے سامنے آکھڑی ہوگی یہ ان کی ریت ہے ۔جاگتے ہی پہلے آئینے میں اپنا آپ دیکھتی ہیں۔کہ جوبن رات کوچوری تونہیں کرلیاکسی نے آنکھیںملیں گی۔انگڑائیاں لیں گی۔ آہاہا۔“وہ چلایا۔”عورت کودیکھناہوتوصبح سویرے دیکھو۔ آہاہاہاہا۔کیاجوبن ہوتاہے۔جب وہ سوکراٹھتی ہے ۔ آنکھوں میں خماربال الجھے ہوئے۔جسم گدرایاہوا۔اورپھرانگڑائیاں۔وہ کہاہے نااستادنے ہاتھ انگڑائی کی صورت آنکھ شرمائی ہوئی۔ آہاہاکیاکیفیت ہوئی ہے۔واہ واہ واہ---ارے۔“ارجمندچلایا۔”وہ گئی۔ارے دیکھوبھی۔میرے منہ کی طرف کیادیکھتاہے یار۔یہاں توکچھ نہیںوہ توادھرہے سامنے چوبارے میں آیا۔کیاچال ہے کیااندازہے۔ہے میری جان میں تجھ پرقربان۔بولو۔وہ انگڑائی شروع ہوئی واہ واہ واہ۔کیاانگڑائی لینے کاسلیقہ آتاہے ان کوجسم کی بوٹی بوٹی تھرک جاتی ہے سبحان اللہ۔“
اوروہ دیرتک کھڑکی کی درزسے مقابل کے چوبارے کی عورتوں اورلڑکیوں کودیکھتے رہے۔حتی ٰ کہ سورج چڑھ آیاگھرکے سب لوگ بیدارہوگئے۔لیکن ارجمندان باتوں میں بہت تاک تھا۔وہ کب آڑے آنے والاتھا۔اس نے اٹھ کرکمرے کادروازہ اندرسے بندکرلیااورچلاکرکہنے لگا۔”ماں ادھرکوئی نہ آئے۔میں ایلی کوجادوکاکھیل دکھانے لگاہوں۔“پھروہ دبی آوازمیں بولا۔”ابے دیکھ بے جادوکاکھیل واہ واہ کیاجادوگرنی ہے موسیٰ کوپاگل نہ بنادے تواپناذمہ۔“اورپھربا آوازبلندکہنے لگا۔”دیکھو بھئی ایلی انڈاہے انڈا۔عام مرغی کاانڈااس میں نہ توبجلی لگی ہے اورنہ اس کے اندرکوئی گیس چھپاہے اب میں اس کو روشن کرتاہوں۔انڈایوں چمکنے لگے گاجیسے اندھیرے میں جگنوچمکتاہے۔ہے ہے۔“پھروہ زیرلب چلایا۔”ارے ادھردیکھونا آہاہاہاہاکیاجگنوچمک رہے ہیں اندھیرے میں۔“
مرلیاباجی رے
”چاچی۔“۔۔۔نیچے سے شہزادکی آوازسن کرایلی کادل ڈوب گیا۔”میں نے کہاچاچی گھرپرہی ناتو۔“وہ پھرچلائی۔
وہی ہے ایلی کے دل میںکسی نے کہا۔شہزادکی آوازمحلے بھرسے الگ تھی اس میں لوچ تھا۔ایک شوخی تھی۔
”ارے ۔“ارجمندچلایا۔”مرلیاکہاں باجی رے۔“
باہرارجمندکی ماں کہہ رہی تھی۔”توشہزاد۔توادھرکیسے آنکلی ۔کہیں راستہ تونہیں بھول گئی۔شکرہے کہ تومیرے گھر آئی ہے کتنی خوشی ہوئی ہے مجھے ۔“
”ویسے ہی جارہی تھی ادھرغفورکی طرف تومیں نے کہاچاچی کودیکھ آوں۔سناہے ارجمند آیاہواہے۔“
”رام رام رام رام۔“ارجمندبولا۔”دیوی کے منہ پرداس کانام آیا۔ارے بے وقوف بھاگ کردروازے کی کنڈی کھل دے کیامعلوم نام جواپنالیاہے توشایددرشن بھی ہوجائے۔
ارے دیکھتاکیاہے۔“ایلی کوچپ بیٹھے دیکھ کرارجمندنے چھلانگ لگائی اوردروازہ کھول کرپھربسترکی طرف لپکا۔اس نے کھڑکی بندکردی۔”یہ مٹی کے دیئے جھاڑفانوس کے روبروکیاحیثیت رکھتے ہیں۔“
ایلی چپ چاپ بیٹھاتھا۔وہ جانتاتھاکہ شہزاداس کے لیے وہاں آئی ہے۔لیکن اسے یقین نہیں آتاتھا۔اس کے لئے شہزاداتنی دورچل کرارجمندکے گھر آئے۔جہاں پہلے وہ کبھی نہ آئی تھی۔نہیں نہیں یہ کیسے ہوسکتاہے وہ اس کشمکش میں کھویاہواتھا۔
”ارے اوتجھے کیاہوگیاہے۔زبان کیوں بندہو گئی تیری۔دیکھتانہیں باہرگوگل کے کنہیا آئے ہیں واہ واہ اس کنہیاکی ہربات نیاری ہے۔بولتے میں جیسے تان اڑی ہو،چلنے میں جیسے راس رچائی ہواوربات ۔ہے ہے کیابات کرتے ہیں۔“
شہزادکودروازے میں کھڑی دیکھ کروہ خاموش ہوگیااورگویابھیڑئے کی کھال اتارکربھیڑکے روپ میں آگیا۔”سلام کہتاہوں۔“وہ ادب سے بولا۔
”کب آیاتو۔“شہزادنے ایلی پرایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال کرکہا۔
”چارروزکی چھٹی پر آیاہوں جی۔“وہ بولا۔
”تویہاں ہے ایلی۔“وہ ایلی کے قریب آکھڑی ہوئی۔“اوروہاں گھرمیں تیری تلاش ہورہی ہے میں نے توکہاتھاڈھنڈوراپٹوادوایسے نہیں ملے گا۔“
شہزادکے کمرے میں داخل ہوتے ہی خوشبوکاایک ریلا آیااورایلی اسے محسوس کرکے مدہوش ہوگیا۔نہ جانے شہزادسے وہ خصوصی خوشبوکیوں وابستہ تھ۔حالانکہ اس نے کبھی خوشبواستعمال نہ کی تھی۔اوروہ خوشبوبھی عجیب سی تھی جیسے سحرکے وقت فضاسے باس آتی ہے جسے نہ توبوکہاجاسکتاہے اورنہ خوشبو۔
پھردفعتاً شہزادنے بڑھ کرایلی کامنہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔”کیاہے تجھے جواب کیوں نہیں دیتا۔“وہ بولی دباہوا آتش فشاں پھٹ گیا۔ایلی کاسرہوائی بن کراڑگیا۔اوروہ خودلٹو کی طرف گھومنے لگااس نے جھپٹ کرشہزادکے بازوپکڑلیے۔اورپھرمڑکرشہزادکی طرف دیکھااس کیاابلی ہوئی آنکھوں میں منت تھی، آہ وزاری تھی۔
شہزادنے ایک رنگین قہقہہ لگایا۔”اوہو۔“وہ بولی“یہاں توحالات بہت بگڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔“وہ ہنستی ہوئی باہر نکل گئی۔
کمرے پرکچھ دیرتک خاموشی چھائی رہی۔
پھرسیڑھیوں میں وہی چوکڑی بھرنے کی آوازسنائی دی چھن چھن چھن کوئی سیڑھیاں اتررہاتھا۔
”ارے ارے۔“ارجمندچلایا۔”ہاہاہا۔مندرمیں گھنٹیاں بجیں دیوی آئی اورچلی گئی اورتوابے اوحرامی تجھ سے کہہ رہاہوں۔سالے تواندھاہے۔بدنصیب ہے۔گدھاہے قسم ہے اگرایک باروہ اپن کامنہ سہلادے تودنیاتیاگ کریوگی بن جاوں۔ارے دیوی سی دیوی ہے۔اس کے روبروسب ہیچ ہیں۔ایساچاندہے جوچمک کرسب تاروں کوماندکردیتاہے ۔واہ واکیاچیزہے۔اورتو۔تووہاں رہتاہے اس کے پڑوس میں۔اوروہ تیرے منہ کوہاتھو ں سے سہلاتی ہے۔اورتجھ سے اشاروں میں باتیں کرتی ہے۔اورپھراتنی قریب۔رام رام رام۔ارے یارہمیں دھوکے ہی میں رکھا آج تک۔“
”کیافضول بک رہاہے تو۔“ایلی نے چیخ کرکہا۔”چھوڑ---“ارے کس طرح چھوڑوں بھنورپھول کوچھوڑدے چکورچاندکوچھوڑدے پراپن دیوی پوجانہیں چھوڑسکتے۔اورپھردیوی بھی وہ جس کے چرنوں میں سکھ ہے شانتی ہے۔گودنہیں چرنوں میں۔گودوالی دیویاں توبیسیوں پھرتی ہیں۔ان کی بات اورہے۔“
شہزادکوگئے ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ہاجرہ آگئی ۔“ہے ایلی تویہاں بیٹھاہے اورہم سب وہاں ڈھونڈکرپاگل ہورہے ہیں۔“وہ چلانے لگی۔”کسی کوبتاکر آیاہوتایہاں۔لو ہم نے کوئی بندش لگارکھی ہے تیرے آنے جانے پر۔نہ کھایانہ پیانہ کسی کوبتایاکہ میں ارجمندکی طرف جارہاہوں۔یہ بھی کوئی بات ہے بہن ناحق پریشان ہورہی ہے وہ تواللہ بھلاکرے شہزادکاکہ اس نے ڈھونڈنکالاتجھے۔“
”ارے۔“ارجمندزیرلب بولا۔”توتجھے ڈھونڈنے آئی تھی۔اپن سمجھے اپن کی تقدیرجاگ پڑی ۔“
”اوردیکھ بہن ویسے تویہ اپناہی گھرہے جس وقت چاہے آئے جائے لیکن بہن بتاکرتو آتا۔“پھرکمرے میں آو داخل ہوئی۔”کیاکررہاہے توچل اب گھرچل پھر آجائے گاتیرے پاس ارجمند۔“
”سلام عرض کرتاہوں۔“ارجمنداٹھ بیٹھا۔
”کب آیاہے تو۔نوکری کامعاملہ توٹھیک ہے نا۔“ہاجرہ نے پوچھااورجواب سنے بغیرایلی سے مخاطب ہوکربولی۔چل بھی نافرحت تیراانتظارکررہی ہے تیراچل اٹھ پھر آجانا۔“
مہادیو
جب وہ گھرپہنچاتوچھن سے شہزاداس کے روبرو آکھڑی ہوئی۔”ماں کے کہنے پر آگیاتو۔اورجب میں گئی تھی اس وقت تویوں چپ چاپ بیٹھارہاتھاجیسے منہ میں زبان ہی نہ ہو۔جیسے جسم میں جان نہ ہو۔“
” آگیاایلی۔“فرحت اسے دیکھ کربھاگی آئی۔“اے ہے۔چائے توپی کرجاتا۔کب سے رکھی ہے اب توٹھنڈی بھی ہوگئی ہوگی۔گرم کردوں یاپھرسے بنادوں۔“
”مجھے توبھوک نہیں۔“ایلی نے بے پروائی سے کہا۔
”توچائے ہی پی لے ۔“ہاجرہ بولی۔
”میراجی نہیں چاہتا۔“وہ روکھی آوازمیں بولا۔
شہزادنے بڑھ کراس کی کلائی پکڑلی۔اوراسے کھینچتے ہوئے بولی۔”چل جوتیراجی چاہتاہے وہ کھلاوں تجھے چل۔“
فرحت نے شرارت بھری مسکراہٹ سے ان کی طرف دیکھا۔“تم ہی جانوکیاجی چاہتاہے اس کا۔اپنے بس کی بات تونہیں۔“
”جبھی تولیے جارہی ہوں اسے۔“شہزادنے ہنس کرکہا۔”تم بیچاری کیاجانو۔“
”ہاں ہاں۔“ہاجرہ بولی۔”لے جااسے لے جابس خوش رہے میں تویہی چاہتی ہوں۔تیری بڑی مہربانی ہوگی۔“
پہلے توایلی نے بازوچھڑانے کی خفیف سی کوشش کی لیکن شہزادسے بازوچھڑانایہ اس کے بس کی بات نہ تھی۔پھروہ اس کے پیچھے پیچھے گیندکی طرح لڑھکتاچل پڑا۔
”توبہ ہے۔“وہ اکیلے میں کہنے لگی”بڑے نخرے آگئے ہیں تجھے ۔مانتاہی نہیں کسی صورت۔دوروزسے پاگل کررکھاہے مجھے ۔“
”لے بیٹھ یہاں۔“شہزادنے اپنے کمرے میں پہنچ کراسی کرسی پربٹھاتے ہوئے کہا۔”توبہ ہے دوروزسے کیاحال کردیاہے ۔میری طرف دیکھ۔“اس نے ایلی کاسراپنے ہاتھوں میں تھام لیاشہزادکی آنکھوں میں آنسوتھے۔”میں نے تیراکیابگاڑاتھاایلی۔“اس نے پوچھا۔
شہزادکی آنکھوں میں آنسودیکھ کرایلی کاضبط پاش پاش ہوگیا۔وہ دھم سے اس کے پاوں پرگرپڑا۔“میں تمہارے قابل نہیں ہوں شہزاد۔“وہ بولا۔”میں تمہارے قابل نہیں ہوں۔میں نااہل ہوں نیچ ہوں نیچ۔“اس کی گھگھی بندھ گئی۔شہزادنے اس کاسراپنے جسم سے لگالیااورتھپکنے لگی۔
”ایسی باتیں نہیں کرتے ۔تم کیاہو یہ مجھ سے پوچھو۔یہ حالت میری ہوئی ہے تمہارے بغیرمیں ہی جانتی ہوں۔“
”میں کچھ کھاکرمرجاوں گا۔“زندگی بے کارہے اب۔“ایلی نے کہا۔
”چپ ایسی باتیں نہیں کیاکرتے۔تم مرجاوگے تومیراکیاہوگا۔مجھے تمہاری ضرورت ہے ایلی۔مجھے تمہاری لگن ہے صر ف تمہاری تم سے کچھ نہیںچاہئے۔بس تم میرے پاس رہو۔میرے سامنے رہواورکچھ نہیں مانگتی میں۔“
”نہیں نہیں۔“وہ چلایا“میں اپنی زندگی ختم کروں گا۔اگرتم سے محبت نہیں کرسکتاتودنیاہیچ ہے ہیچ ہے۔“
”محبت اسے نہیں کہتے پگلے۔“وہ بولی۔”مجھے اس کی پروانہیں۔مجھے کسی چیز کی پروانہیں مجھے صرف ایلی چاہئے۔صرف ایلی۔“اس کی آنکھوں سے ایک آنسوگرا۔
ایلی سسکیاں بھرنے لگا۔”تم اتنی حسین ہوتم اتنی پیاری ہو۔دنیاتمہارے روبروہیچ ہے۔
شہزادتم اتنی رنگین ہو کہ تمہیں دیکھ کرمیں نشے میں جھومنے لگتاہوں۔تمہیں محسوس کرکے میری کائنات بدل جاتی ہے اورمیںایک ذلیل نااہل شخص ہوں۔ہیچ ہوں۔“
”تمہیں کیامعلوم۔“وہ بولی۔“تم کیاہو۔چھوڑواب ۔معاف کردومجھے۔“وہ ہاتھ جوڑکرسامنے کھڑی ہوگئی۔اسے یوں ہاتھ جوڑے دیکھ کروہ دیوانہ واراٹھااورشہزادکابندبندچومنے لگا۔جانوکے پاوں کی چاپ سن کروہ الگ ہوگئی۔اورکھڑکی میں یوں کھڑی ہوگئی جیسے روزازل سے وہاں کھڑی ہو۔پھرجانو آئی توشہزادبولی۔”کیاکررہی ہے توجانوکچھ خبربھی ہے تجھے کتنی محنت سے ایلی کوتلاش کرکے لائی ہوں اب اگرتونے اس مہادیوکی خاطرتواضح نہ کی تویہ پھرروٹھ کرچلاجائے گا۔“
”بڑامہادیوہے منہ تودیکھو۔“جانونے کہا۔“نخرے کرتاپھرتاہے اول توگھرسے باہرنہیں نکلتاباہرنکل جائے توپھراس کاپتہ ہی نہیں چلتا۔دیکھ توچوہے کی صورت۔“
”اونہوں ایسی باتیں نہ کر۔“شہزادنے جانوسے کہا۔“تیری ایسی باتوں کی وجہ سے ناراض ہواتھایہ۔“
”ہونہہ میری باتوں سے۔“جانوچلائی“میری باتوں سے جوناراض ہوتاہے توپڑاہومیں توسچی بات کرنے سے نہیں چوکوں گی۔“
”اچھاباباتونہ چوک سچی بات کرنے پراب توجاکرچائے بنالاساتھ کچھ کھلابھی دے۔کیایادکریں گے تجھے ۔کیاکھائے گاایلی۔ آج جومانگے گاملے گا۔پرچیزکھانے والی ہو۔“اس نے اعلانیہ طورپر آنکھیں مٹکاکرکہا۔”کیوں جانو۔ہے نا۔“شہزادہنسی۔
نہ میں نہیں سمجھتی تمہارے یہ اشارے ماری آنکھوں آنکھوں میں بات کہہ جاتی ہومجھے نہیں پتہ چلتاکچھ۔توجانے اورتیراایلی جانے۔“
”کیوں ایلی کیاجانے ہے تو۔“شہزادنے اس سے پوچھا۔“اورجانومیں توکچھ جانتی ہی نہیں جانتی توتوہے۔جبھی توتیرانام جانوہے۔“وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگی۔
جانوہنستی اورچلاتی ہوئی سیڑھیاں اترنے لگی۔
جانوکے جانے کے بعدشہزادپھراسی طرح ایلی سے دوربے نیازبے خبرہوکربیٹھ گئی اورسلائیوں کے کام میں مصروف ہوگئی۔اورایلی دیوانوں کی طرح اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کردیکھنے لگا۔
جوش رقابت
اگلے روزجب وہ دونوں بظاہر ایک دوسرے کے قریب لیکن حقیتاً ایک دوسرے سے بہت دوربیٹھے تھے توشریف آگیا۔شریف کودیکھ کرایلی کے ہاتھ پاوں پھول گئے اس نے یوں محسوس کیاجیسے وہ پکڑاگیاہواوروہ گھبراکراٹھا۔بات کرنے کے لیے الفاظ نہیں ملتے تھے زبان میں گویاقوت گویائی مفقودہوچکی تھی۔سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ اپنے بازووں کوکیسے سنبھالے جولٹک لٹک کرگویازمین سے جالگے تھے اس نے خوشی کااظہارکرنے کے لیے ہنسنے کی کوشش کی لیکن اس کی باچھوں پرگویاتالے لگے ہوئے تھے۔ آنکھیں اس حدتک کھل گئی تھیں کہ کوشش کے باوجودوہ انہیں قابومیں نہیں رکھ سکتاتھا۔
”میں میں ایں۔ آپ آپ ۔یعنی میں۔“اس نے شریف کے آنے پرخوشی کااظہارکرنے کے لیے کچھ کہناچاہا۔
شہزاداطمینان سے بیٹھی اپنی کام میں یوں مصروف رہی جیسے کچھ ہواہی نہ ہو۔جیسے شریف کا آنایانہ آنا۔ایلی کااس قدرقریب بیٹھے ہونایانہ ہوناسب برابرہو۔
”کیوں ایلی۔“شریف نے کہا۔”خوش ہوتم بڑی مشکل سے چھٹی ملی ہے مجھے۔جانوذراحقہ توبھرنا۔“
”چائے بھی بنادوجانو۔“شہزادبولی۔“اورکھانابھی توکھائیں گے۔“
شریف بیک وقت متبسم اورمغموم نگاہوں سے شہزادکی طرف دیکھا۔لیکن شہزاداپنے کام میں مصروف تھی ۔ایلی نے محسوس کیااسے وہاں سے کھسک جاناچاہئے اس نے پہلی مرتبہ شہزادکے گھر میں محسوس کیاجیسے اس کی حیثیت جملہ معترضہ کی ہو۔کچھ دیروہ وہاں بادل ناخواستہ بیٹھارہاپھراٹھا۔”ابھی آوں گا۔“وہ وبولا“ذراگھرسے ہو آوں۔“
”اچھا۔“شریف نے جواب دیا۔”لیکن آناضرورتم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔“ایلی نے سوچا۔اس نے محسوس کیاجیسے شریف صورت حالات سے پورے طورپرواقف ہے جیسے اسے علم ہے کہ ایلی وہاں کیوں آتاہے اوراس نے اسی بارے میں باتیں کرنی ہیں۔
گھرپہنچ کروہ دھڑام سے چارپائی پرگرپڑا۔
”کیوں کیاہوا؟“ہاجرہ دوڑتی ہوئی آئی۔“خیرتوہے ۔پھرکوئی بات تونہیں ہوگئی۔“
”بات کیاہوئی ہے۔“فرحت نے ہنس کرکہا۔”گھر والے اپنے گھر آگئے اورکیا۔“
”کیامطلب ہے تیرافرحت؟“ہاجرہ نے پوچھا۔
”شریف چھٹی لے کر آیاہے اورکیا۔“فرحت بولی۔
”ہائیں شریف آیاہے۔“ہاجرہ نے حیرانی سے دہرایا۔“لیکن اس میں کیاہے۔“
”پوچھوایلی سے۔“وہ بولی۔” آخراس نے توگھر آناہی ہوا۔“
اس وقت ایلی اس قدرگھبرایاہواتھاکہ اس نے فرحت کی بات کابرانہ مانااس وقت کی عجیب کیفیت تھی۔اسے سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ شریف کی آمدپراسے دکھ کیوں محسوس ہورہاہے۔شریف کوتووہ بہت اچھاسمجھتاتھاوہ ایلی کاپیارادوست تھاپھراس کی آمداس قدرناگوارکیوں ہورہی تھی خواہ مخواہ غصہ کیوں آرہاتھا۔وہ رنگین دنیادفعتاً ویران کیوں ہوگئی تھی۔
دیرتک وہ چارپائی پرپڑاکروٹیں لیتارہا۔پھرسیڑھیوں میں چھن چھن کی آوازسن کرچونکا۔
”ایلی کہاں ہے۔“شہزادمجسم تبسم بنی ہوئی سامنے کھڑی تھی۔
اسے اکیلادیکھ کروہ بولی”تم بھاگ کیوں آئے۔خواہ مخواہ چلے آئے۔واہ یوں کسی کواکیلانہیں چھوڑاکرتے۔چل اٹھ۔“
”میں نہیں جاتا۔“وہ منہ بناکربولا۔
”کیسے نہیں جاتے۔“اس نے اس کے گال سہلاتے ہوئے کہا۔
”نہیںجاتا۔“وہ غصے میں اس کاہاتھ جھٹک کربولا۔”تم جاواپنے میاں کے کادل بہلاوجاکرمیں آوں یانہ آوں تمہیں کیاپڑی ہے۔“
”اوہو۔“وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے بولی۔“تم نہ جاوگے تومیں بھی نہیں جاوں گی۔میراوہاں کیاکام۔کوئی آئے یاجائے مجھے کیا۔“
”پاگل ہوگئی ہو۔“وہ تڑپ کراٹھ بیٹھا۔”یہ سب لوگ کیاکہیں گے۔“
”پڑے کہیں۔“وہ بولی“مجھے نہیں پروا۔“
”میاں سے پٹوگی تم۔“ایلی نے مصنوعی غصے سے کہااگرچہ شہزادکی باتیں سن کراسے ایک ان جانی خوشی محسوس ہورہی تھی۔اس کی خاطرشہزادسبھی کچھ کرنے کے لیے تیارتھی۔دنیابھرسے جنگ کرنے کے لیے تیارتھی۔
”پٹونگی۔“وہ چلائی۔“مجھے کون پیٹ سکتاہے جی۔“وہ تمسخرسے بولی۔”وہ بیچاراکیاکرے گا۔اس کی کیامجال ہے۔چلواٹھو---ورنہ ----“
”ورنہ کیا؟“ایلی نے پوچھا۔
”ورنہ میں بھی لیٹ جاوں گی تمہارے ساتھ۔“
ایلی گھبراکراٹھ بیٹھا۔”پاگل ہوگئی ہو۔“ایلی نے کہا۔
”ہاں ہوگئی ہوں۔“وہ بولی۔
”کون ہوگیاہے پاگل۔“فرحت نے داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
”میں اورکون۔“شہزادنے جواب دیا۔”تم سب توسیانیاں ہو۔پاگل توایک میں ہی ہوں نا۔“
”کیوں ہوتی ہوپاگل۔“فرحت بولی”حکیم نے کہاہے کیا۔“
”حکیم نے تونہیں کہا۔“وہ اٹھ کربولی۔البتہ تم ایسے سیانوں کودیکھ کرجی چاہتاہے پاگل ہوکرکہیں نکل جاوں۔“
شہزادکے اندازتکلم میں غضب کی دھارتھی۔لیکن اس کے ہونٹوں پرایک معصوم تبسم تھا۔”اب آوگے بھی یانہیں۔“وہ ایلی سے مخاطب ہوکربولی۔”اب آبھی جاو۔وہ انتظارکررہے ہیں چائے سامنے رکھی ہے ٹھنڈی ہوجائے گی۔“
ایلی وہاں پہنچاتوشریف چائے کاپیالہ سامنے رکھے اسی طرح چھت کی طرف ٹکٹکی باندھے بیٹھاتھا۔ایلی کودیکھ کراس نے اپنی مخصوص حسرت زدہ مسکراہٹ سے کہا۔”نہ جانے کیابات ہے جسے چاہووہی دوربھاگتاہے۔اب یہ ایلی بھی محبوب سے نخرے کرنے لگا۔اپنی قسمت ہی ایسی ہے۔“
”نہیں نہیں۔ایلی چلایا”میں تووہاں---“
انوکھے اظہار
”اب چھوڑوان بہانوں کو۔“شریف نے کہا۔”یہ بہانے اپنے لیے نئی چیزنہیں تم سے کچھ طبیعت ملی تھی سوچاتھاخوب گزرے گی جومل بیٹھیں گے لیکن اب تم بھی کنی کترانے لگے۔ہاں یاد آیا۔یہ توبتاوامرتسروالی کاکیاحال ہے کچھ بات بنی یانہیں۔اسے علم ہوایانہیں۔کیوں نہ ہوگاعلم محبت اثرکیے بغیررہ سکتی ہے کیایہ نہیں ہوسکتا۔محبت میں بڑی طاقت ہے۔اس بڑھ کراورکوئی طاقت نہیں۔توبتاوناہمیں۔کیاوہ بھی مضطرب ہے۔کیااسے بھی خیال ہے۔ضرورہوگا۔لیکن اس کااظہاربھی ہوایانہیں۔تمہارے جذبے کی آزمائش ہے ایلی۔دیکھیں تمہارے جذبے میں کتنااثرہے۔“ایلی کوخاموش دیکھ کرشریف نے کبوترکی سی آنکھیں بناتے ہوئے کہا۔”کیوں تمہیں تومعلوم ہے کچھ۔“اس نے شہزادسے مخاطب ہوکرپوچھا۔
”سارے محلے میں چرچاہے۔“شہزادبولی”سناہے حسن میں بھی جواب نہیں اس کاجبھی تواس کی یہ حالت ہورہی ہے۔دیکھوتواس کی طرف مجھ سے کہتاتھا۔“وہ ہنسی بے تحاشہ ہنستی چلی گئی۔”مجھ سے کہتاتھاکہ کہ زہرکھالوں گا۔“ایلی نے غصے سے شہزادکی طرف دیکھا۔
”اب دیکھ لیجئے دیکھ رہاہے میری طرف پرایمان سے کہناایلی تم نے کہانہیں تھامجھ سے میں زہرکھالوں گا۔
ایلی حیرانی سے شہزادکی طرف دیکھ رہاتھا۔اس کی شوخی اوربے باکی دیکھ کروہ گویاسکتے میں آگیاتھا۔
”اونہوں۔“شریف مسکرایا۔”زہرکھانامردوں کاکام نہیں۔“
”یہی میں نے اس سے کہاتھا۔“شہزادقہقہہ مارکر--ہنسی ”لیکن یہ کہتاہے میں مردنہیں۔کوئی پوچھے کیسے نہیں۔میں تومردسمجھتی ہوں اسے۔“
”زہرکھانایامرجانامردکاکام نہیں۔“شریف بولا۔”میری طرف دیکھوجی رہاہوں۔اتناکچھ جھیل کربھی جی رہاہوں ۔تم یہ بتاواس کوبھی خیال ہے تمہارایانہیں۔“
شہزادنے پھرقہقہہ لگایا۔”وہ تومرتی ہے۔“وہ بولی ”اسی کویقین نہیں آتایہ سمجھتاہے کہ اسے ذرابھی پروانہیں ۔اب وہ بیچاری کیاکرے۔“
”کیوں ایلی۔“شریف نے پوچھا۔
ایلی شہزادکی دودھاری باتوں پرطیش میں آرہاتھا۔لیکن ان باتوں میں جوکنایہ کی مددسے ایلی سے کی جارہی تھیں ایک عجیب سی لذت تھی۔
”کیوں مذاق کررہی ہیں آپ ۔“ایلی نے شہزادکوگھورا۔
”مذاق ۔“وہ بولی۔”اب میں تمہیں کیسے یقین دلاوں کہ میں نے زندگی بھرمیںکبھی اس قدرسنجیدگی سے بات نہیں کی۔مشکل تویہ ہے کہ تمہیں یقین نہیں آتااب میں کیاکروں۔“
شہزادکی آنکھوںمیں آنسوبھرے تھے۔ایلی گھبراگیا۔وہ شریف کی موجودگی میں براہ راست اس سے وہ وہ باتیں کررہی تھیں جو اس نے ایلی سے کبھی تخلیئے میں بھی نہ کی تھی۔
اورشریف بھولابھالاشریف مسکرارہاتھا۔”ٹھیک کہتی ہے یہ۔“شہزادکی طرف اشارہ کرکے کہہ رہاتھا۔”ابتداءمیں ایساہی ہوتاہے۔دوسرے کی بات کایقین نہیں آتا۔”بس ایلی کویقین ہی نہیں آتا۔“شہزادبولی ”اب میںکیسے یقین دلاوں اسے۔“
”ہاں ہاں۔“شریف نے کہا---پھرا س نے آہ بھری لیکن بولا”جب عشق پراناہوجاتاہے توپھردنیاہی بدل جاتی ہے نہ شکوک نہ گلہ نہ بے یقینی ۔“
”نہ جانے وہ دن کب آئے گا۔“شہزادنے حسرت ناک آوازمیں کہا۔
”کب آئے گا؟“شریف چونک پڑا۔پھر آپ ہی آپ ہنس کربولا۔”اچھاتوتم ایلی کے متعلق کہہ رہی ہو۔میں سمجھا--“وہ خاموش ہوگیا۔
”اورکیا آپ کے متعلق کہہ رہی ہوں۔“شہزادقہقہہ مارکربولی۔اس کی بات اوراندازدونوں میں بلاکی تحقیرتھی۔ایلی کانپ گیا۔
شہزاداس کے نزدیک ایک معمہ تھی۔اس میں بلاکی جرات تھی اوروہ بات اعلانیہ کرنے سے ہچکچاتی نہ تھی اورسب سے عجیب ترین بات یہ تھی کہ کسی تیسرے آدمی کی موجودگی میں وہ ایلی سے اس قدرقریب ہوجاتی تھی جیسے اس کی گودمیں بیٹھی ہو۔اس کے اشارات کس قدرواضح اوررنگین ہوتے تھے اس کی حرکات سے محبت آمیزشرارت یاشرارت آمیزمحبت ٹپکتی تھی لیکن تنہائی میں اس کااندازاقطعی طورپربدل جاتاتھاجیسے وہ ای
 
Top