غالب عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا . مرزا غالب

فرخ منظور

لائبریرین
عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا​
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا​
جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے​
ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا​
مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں​
شایانِ دست و خنجرِ قاتل نہیں رہا​
بر روئے شش جہت درِ آئینہ باز ہے​
یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا​
وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن​
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا​
گو میں رہا رہینِ ستمہاے روزگار​
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا​
دل سے ہوائے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں​
حاصل سواے حسرتِ حاصل نہیں رہا​
بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسد​
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا​
(مرزا اسد اللہ خان غالب)​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
غالب کا کلام اور مہدی حسن صاحب کی آواز۔ تعریف کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔ :)
بہت شکریہ سخنور! ہمیشہ کی طرح بہترین انتخاب :)

سخنور ذرا چیک کر لیں۔ غزل کے ٹائٹل میں ٹائپو ہے شاید۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
غالب کا کلام اور مہدی حسن صاحب کی آواز۔ تعریف کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔ :)
بہت شکریہ سخنور! ہمیشہ کی طرح بہترین انتخاب :)

سخنور ذرا چیک کر لیں۔ غزل کے ٹائٹل میں ٹائپو ہے شاید۔

بہت شکریہ فرحت! جی غزل کے ٹائٹل میں ٹائپو ہے اور اب یہ ٹائپو مدیران ہی درست کر سکتے ہیں۔
 
مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایانِ دست و خنجرِ قاتل نہیں رہا
اللہ اللہ خضرتِ غالبؒ

وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا
کیا کہنے اففففففففففففف واہ واہ واہ

دل سے ہوائے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل سواے حسرتِ حاصل نہیں رہا
کمال انتخاب کہا کہنے
 
Top