شفیق خلش شفیق خلش ::::: ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزلِ

ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس
روزِ رحلت پہ کہَیں سب مِرے غمخوار کہ بس

خُوگرِ غم ہُوا اِتنا، کہ بُلانے پر بھی !
خود کہَیں مجھ سے اب اِس دہر کے آزار کہ بس

حالِ دِل کِس کو سُناؤں، کہ شُروعات ہی میں
کہہ اُٹھیں جو بھی بظاہر ہیں مِرے یار کہ بس

کیا زمانہ تھا دھڑکتے تھے بیک رنگ یہ جب
درمیاں دِل کے اُٹھی یُوں کوئی دیوار کہ بس

بارہا، در سے اُٹھانے پہ دوبارہ تھا وہیں !
میں رہا دِل سے خود اپنے ہی یُوں ناچار کہ بس

اِک خوشی کی بھی نہیں بات سُنانے کو خلِش
گُذرے ایسے ہیں مِری زیست کے ادوار کہ بس

شفیق خلش
 
Top