شاعری، موسیقی اور علمِ عَروض

کافی وقت ہوا یہ سوچتے ہوئے کے کوئی ایسا مضمون لکھوں جس میں عصرِ حاضر کے شعراء، موسیقی، شاعری، علمِ عَروض اور اوزان کی اہمیت اور انکی آپس میں ایک دوسرے میں مداخلت وغیرہ کے حوالے سے تھوڑی بحث ہو جائے اور اس بات کی طرف بھی نظر ہو جائے کہ اس وقت شاعری کے معاملے میں ہر خاص و عام کی کیا سوچ ہے۔
(اس مضمون کا مقصد اور موضوع در حقیقت علمِ عَروض کی پریشانیوں کو آسان کرنا ہے اس لئے علمِ عَروض کے حوالے سے ہی زیادہ تر بات کی جائےگی)
اس حوالے سے میں اپنا وہ مشاہدہ لکھنے جا رہا ہوں جس کا کلیدی جز وہی ہے جو ناچیز کی عقلِ ناقص اور دماغ میں سما سکا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ مضمون میں طریقہء بیان کا اکثر حصہ غیر اصطلاحی اور غیر مانوس محسوس ہو لیکن امید ہے کہ آپ کی توجہ بجائے اغلاط کے خلاصہء بیان کی طرف رہے گی ۔
والسلام

مزمل شیخ بسمؔل
 


شاعری، موسیقی اور علمِ عَروض

شاعری کی تعریف بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتا کہ پہلے ہی وقت کے بڑے بڑے اساتذہ اور اس فن کے امام حضرات نے اس پر بہت باریک بینی سے بہت کچھ لکھا ہے اور ہم سب میں شاید ہی کوئی ہوگا جس نے اس بارے میں کچھ نہ پڑھایا سنا ہو۔
دورِ حاضر میں شاعری کا جو ایک تصور ہے اس میں دو گروہ بن گئے ہیں پہلا تو وہ جو شاعری اور نثر کی شناخت تک کر پانے سے محروم ہے۔ یعنی ایسے حضرات جن کے نزدیک شعر میں وزن کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی شاعری کے معیار کا کچھ پتا۔ جو ہے تو بس یہ کے اشعار کو چبایا جاتا ۔ اس گروہ کے بہت اچھے درجے کے لوگ زیادہ سے زیادہ ایک عدد نسخہء دیوانِ غالب اور ایک کلیاتِ اقبال رکھ کر چند غزلیات اور ان کی تشریح یاد کر لیا کرتے ہیں جو انکی کل معلومات ہوتی شاعری سے متعلق۔
دوسرا گروہ وہ جنہیں ہم عام طور پر ’موزوں طبع‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور شاید انہیں ہی با ذوق بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ گروہ بہر حال پہلے گروہ سے بہتر ہے۔ موزوں طبع حضرات شاعری کے بیان فصاحت و بلاغت سے واقف نہ سہی لیکن کم از کم کسی درجہ نثر اور شاعری میں فرق کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں بلکہ یہی وہ گروہ ہے جس کے اونچے درجے کے لوگ اکثر شعرا کی شکل میں ابھرتے نظر آتے ہیں ۔

موسیقی کے بارے میں عموماً یہ کہا جاتا ہے کے موسیقی اور شاعری کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو صحیح بھی ہے کسی حد تک۔ لیکن کیا دورِ حاضر میں بھی موسیقی اور شاعری کا چولی دامن کا ساتھ ہے؟؟
میرا تجزیہ اس میں یہ ہے کہ موسیقی کے الفاظ کی بنیاد ’ترنم‘ ہے جب کہ شاعری کے الفاظ کی بنیاد علمِ عَروض کے قوانین پر پورا اترنا ہے۔ موسیقی میں کسی لفظ کو کھینچا تانی کرکے مترنم بنایا جا سکتا ہے حالانکہ شاعری میں اس کی اجازت نہیں۔
شعر در اصل ایک بحر کے ارکان پر پورا اترنے والے دو مصرعوں کا نام ہے۔ ان ارکان میں کہیں کہیں تھوڑا فرق کرنے کی بھی اجازت ہوتی ہے لیکن یہ فرق وزن اور روانی کو متاثر نہیں کرتا بلکہ شعر کہنے میں آسانیاں اور خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔
یہ تو حال تھا شاعری اور موسیقی کے آپس میں تعلق کا۔

علمِ عَروض کی طرف ذہن کریں تو سامنے ایک ایسی آبادی دکھائی دیگی جس میں بہت پتلی پتلی بھول بھلیاں کے مانند گلیاں ہونگی جہاں رستہ کم اور لوگ زیادہ ہونگے۔ اور ذہن میں آئے گا کے بس کسی طرح اس بستی سے دور بھاگا جائے۔جی ہاں! یہی حقیقت ہے علمِ عَروض کی۔ علمِ عَروض کا تعارف بھی سبھی جانتے ہیں۔ جو نہیں جانتے ان کے لئے بس یہ لکھونگا کہ یہ وہ علم ہے جس کے ذریعہ شعر کا وزن میں ہونا معلوم ہوتا ہے۔ ایک ایسا پیمانہ (Scale) ہے جس کی بنیاد پر شاعری کو با وزن مصرعوں کی قید میں رکھا جاتا ہے۔ اس علم کو عربی، فارسی اور اردو کے بڑے سے بڑے معروف و غیر معروف شعرا اور اہل فن حضرات نے سمجھا، سیکھا اور سکھایا۔ اور انہی حضرات کی بنیاد پر آج کے اہلِ زبان اپنی زبان کی شاعری کے سرمایہء انمول پر جتنا فخر کریں بجا ہے۔ اسی دور میں پھر عَروض میں الگ الگ بحور رائج ہوئیں، کچھ پہلے نہیں تھیں بعد میں دریافت ہوئیں۔ کچھ پہلے تھیں بعد میں ترک کردی گئیں۔ لیکن اسی قانون اور ضابطے کو سیکھ کر ان میں اشعار کہے جاتے۔ شعراء اپنی زبان دانی ثابت کرنے کے لئے آسان اور مترنم بحور سے لیکر دقیق اور غیر مترنم بحور میں عمدہ سے عمدہ ترین اشعار کہا کرتے اور علمِ عَروض سے نہ صرف اپنی واقفیت کا ثبوت دیتے بلکہ اس علم میں ماہر بھی تھے۔
لیکن اب وہ دور کہاں؟ وہ لوگ کہاں؟ اور علمِ عَروض جیسے خشک علم پر مہارت حاصل کرنے کی لگن اور اتنا تحمل کس میں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ شاعری کرنے والے ہر پانچ میں سے ایک دو نکل آتے ہیں اور علمِ عَروض کے صرف نام کو ہی جاننے والے شاید ایک سو شاعروں میں ایک دو ہونگے۔
جو شعرا ہیں انھوں نے چند مانوس لگے بندھے اوزان اپنا لئے ہیں بس اسی میں طبع آزمائی کر لیا کرتے ہیں ان اوزان کے علاوہ کسی پرانے شاعر کا کوئی کلام پڑھنے کو مل جائے تو پڑھنا ہی دشوار ہو جاتا ہے۔
دیگر حضرات جو کے موزوں طبع نہیں ہیں وہ تو با وزن اشعار کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ آخر اس کا حل کیا ہے؟
علمِ عَروض اتنا مشکل ہے تو اس کو کس طرح آسان کیا جائے؟

(جاری ہے)
 
علمِ عَروض پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں کئی رسالے منظرِ عام پر آئے ہیں ۔ پرانے طریقوں کے خلاف نئے طریقے بھی اکثر حضرات نے پیش کیے، کچھ اہلِ علم حضرات نے ریاضی کا سہارا لیکر کافی مشکلات کو حل کرنے کوششیں بھی کی ہیں لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان حضرات سے بھی جہاں کچھ نہ بن سکا وہاں اسی دیسی طریقے کو اپنانا پڑا جو صدیوں سے چلا آ رہا تھا۔
اب بات جب یہاں تک پہنچ ہی چکی ہے کہ پرانے اور روایتی طریقے کو ترک کرنا ممکن نہیں تو اس کا حل یہی سمجھ آتا ہے کے اسی طریقے کو ایسے آسان کیا جائے کہ سمجھنے میں دشواری کے جتنے اسباب ہیں انہیں اپنی دانست میں ختم ہی کردیا جائے۔ اب یہ بات کس طرح معلوم ہو کے سمجھنے میں دشواری کن چیزوں سے پیدا ہوتی ہے؟
عروض کے موضوع میں سب سے زیادہ مشکلات کسی معاملے میں اگر پیش آتی ہیں تو وہ ہیں عروض کی دقیق اصطلاحات اور زحافات کے بے ترتیب اور نا مکمل اسباق۔
اس تحریر کا مقصد روایتی قصے کہانیاں اور عروض کی بے شمار تحاریر پر ایک اور تحریر کا اضافہ کرنا نہیں بلکہ یہ مبتدی سے منتہی، اور لا علم لوگوں سے لیکر اہل علم حضرات تک سب کے لئے ایک مواد فراہم کرنا ہے جسے اس صدی کی کئی مستند کتابوں سے میں نے جمع کیا، پھر اپنی عقل کے مطابق ان کتابوں میں جو باتیں منطقی طور پر غلط تھیں یا عقلی طور پر غیر اصولی تھیں ان کو ترک کیا اور صحیح باتوں کو جمع کیا۔ میں ان سب کتابوں اور ان کے مصنفین (خصوصاً بحر الفصاحت از حکیم نجمؔ الغنی، چراغِ سخن از مرزا یاسؔ عظیم آبادی اور سب سے زیادہ آہنگ اور عروض از کمالؔ احمد صدیقی) کا تہہء دل سے شکر گذار ہوں جن کتابوں سے فیض کے نتیجے میں میں نے یہ قدم اٹھایا۔
 
اصطلاحات
علمِ عروض کی اصطلاحات سے لوگوں کا اکثر حصہ جن میں اس وقت کے اچھے اور بڑے شعرا بھی شامل ہیں پریشان اور بیزار نظر آتا ہے۔ اور کیوں نہ پریشان ہو کے یہ سلسلہ ہی ایسا ہے ۔ لیکن بہر حال ان اصطلاحات کو صدیوں سے یونہی نبھایا گیا ہے اور آج کے عروضی حضرات بھی ان اصطلاحات میں کوئی کمی بیشی کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ بس جو جیسا چل رہا ویسا ہی چلنے دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اس علم کو حاصل کرنے کی لگن لوگوں میں اب نا یاب نہیں تو اتنی کمیاب ہو گئی ہے کچھ عرصے بعد اللہ جانے کیا حال ہو۔ لیکن اگر عروض کی ترویج کے لئے کوئی ایسی تبدیلی کی جائے عروضیوں کے کامل اتفاق سے تو اس علم کو سیکھنے والوں کی تعداد اور اشتیاق کو بڑھایا جاسکتا ہے جس سے اردو ادب کو بھی کافی فائدہ ہوگا انشااللہ تعالیٰ۔
لیکن اس طریقے کو بدلنے یا ترمیم کرنے کی ہمت کس میں ہے؟ باوجود علم کے خاموشی اختیار کی جاتی۔ اکثر اصطلاحات تو ایسی ہیں جن کا سرے سے کوئی تک ہی نہیں بنتا اور بے وجہ ہی رسمی طور پر شامل کرلی گئی ہیں جیسے: لفظ ’مثمن‘ یعنی آٹھ۔ مثلاً اگر کوئی مجھ سے اس شعر کی بحر کا نام اور ارکان پوچھ لے

اسد بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
تو مشقِ ناز کر،خونِ دو عالم میری گردن پر
تو میں یہی کہوں گا کہ میاں یہ ’’بحرِ ہزج مثمن سالم‘‘ ہے۔
ارکان: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
اب سوال ہے کہ بھئی مثمن کا مطلب آٹھ ہے یعنی آٹھ ارکان۔ اور وزن بتایا جائے تو صرف چار ارکان یعنی ایک مصرعے کا؟
چلیں یہ تو ایک سالم بحر ہوئی کسی طرح اسے مثمن ہی کہہ لیں لیکن اگر شعر ایسے ہو توَ؟

عریانیِ آشفتہ کہاں جائے پس از مرگ
کُشتہ ہے ترا اور یہی بے کفَنی ہے

پھر تو پہلا نام بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف مقصور۔ دوسرا بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف۔
اب نہ تو پہلے مصرعے کا وزن لفظ ’’مثمن‘‘ کے لئے ٹھیک ہے نہ دوسرے کے لئے۔ یہ دو الگ الگ اوزان ہیں جو چار چار ارکان پر مشتمل ہیں۔ جب یہی بات ہے تو مثمن کی اصطلاح شنازدہ رکنی بحور کے لئے تو قابلِ فہم ہیں لیکن یہاں بے مقصد۔
اسی طرح کی اور پیچیدہ باتیں اور اصطلاحات مثلاً زحافات کی طرف رخ کریں تو ایک زحاف ’’خرم‘‘ ملے گا جس کا کام ہے کے وتد مجموع سے شروع ہونے والے رکن میں سے پہلے وتد مجموع کا پہلا متحرک ساقط کردے۔ لیکن کہانی یہاں ختم ہوجاتی تو سکون تھا۔ مگر یہ اصول صرف ایک ہی رکن پر کارآمد ہے جو ’’مفاعیلن‘‘ ہے یعنی میم گر کر فاعیلن بوزن مفعولن بنے گا۔
اب فعولن بھی وتدمجموع سے شروع ہوتا ہے تو اسکے لئے ایک الگ زحاف بنا ڈالا جسے ثلم کہا جاتا ہے۔ کام اسکا بھی وتد مجموع سے پہلا متحرک ساقط کرنا ہے یعنی فعولن سے ’’ف‘‘ گرا اور عولن بوزن فعلن رہا۔
اسی طرح مفاعلتن بھی وتدِ مجموع سے شروع ہوتا ہے لیکن اس کے لئے بھی ایک الگ زحاف جو عضب کے نام سے جانا جاتا ہے، بنایا گیا جس سے میم کو گرا کر فاعلتن بوزن مفتعلن حاصل کیا جاتا ہے۔
اور مزے کی بات یہ کے عروض کی کتابیں ان بعد کے دو زحافوں کو بھی خرم کرنا کہتی ہیں۔
جب ایک خرم سے کام چل سکتا تھا تو ثلم اور عضب کس لئے؟ اس پر عروضی حضرات کو نہ صرف غور کی بلکہ کوئی قابلِ ذکر عمل کی ضرورت ہے۔





(جاری)
 
بہت سی اصطلاحات کو بدلنے کی، کچھ کو مکمل طور پر ترک کرنے کی اور کچھ کو آسانی کی خاطر دوسری اصطلاحات میں مخلوط ہونے کی ضرورت ہے جیسے اوپر زحافات میں خرم کے بارے میں بتایا گیا۔
دوسرا یہ کے زحافات کے استعمال میں بھی اصول اور ضابطوں کو اکثر نہیں دیکھا جاتا۔ بحرالفصاحت سمیت عروض کی دیگر کتابیں بھی زحافات کے استعمال میں اکثر غلطی پر ہیں۔
اس بات کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں بحرالفصاحت میں تیسرا شہر زحافوں کا بیان پڑھ رہا تھا اور ’مس تفع لن‘ (منفصل) کا ایک مزاحف مخبون مذال ’مفاعلان‘ نظر سے گزرا۔ وہاں کتاب میں یہ بات مرقوم ہے:
’’ ’مس تفع لن‘ سے بوجہ خبن (پہلے سبب خفیف سے دوسرا حرف ساقط کرنے) سے ’مفاعلن‘ حاصل ہوا، اور جب بوجہ اذالہ کے آخری وتدِ مجموع میں ساکن سے ما قبل ایک الف بڑھایا تو ’مفاعلان‘ ہو گیا۔‘‘
یہ بات پڑھی تو ذہن میں رکن ’مفاعیلن‘ کی ایک فرع آئی جسے قبض (پانچواں حرفِ ساکن جو سبب خفیف میں ہو گرانا) سے مفاعلن بنایا گیا تھا۔ اور اس مفاعلن میں الف کے اضافے سے مفاعلان بنانے کو تسبیغ کہا گیا تھا۔ یعنی فرع مقبوض مسبغ ہوئی۔
یہاں اس کتاب کا اپنے بتائے ہوئے اصولوں سے ہی منکر ہونا محسوس ہوا۔ تسبیغ کا زحاف اس وقت استعمال ہوتا ہے جب سبب خفیف رکنِ سالم کے آخر میں ہو۔ اور وتدِ مجموع ہونے کی صورت میں اذالہ استعمال ہوگا۔
ایک سے زائد زحافات یا مرکب زحافات کا استعمال رکنِ سالم پر ایک ہی مرتبہ کردیا جاتا ہے یعنی اگر دو زحافات ہوں تو ایک کے بعد دوسرا زحاف نہیں بلکہ ایک ساتھ سالم رکن پر اسکا اثر ہوگا یہی اصول ہے۔ اسی اصول سے مفاعیلن پر (جس کے آخر میں سببِ خفیف ہے) تسبیغ کا زحاف لگا اور اسی وقت میں قبض کا زحاف بھی لگا، تسبیغ سے الف زیادہ ہوا اور پانچواں رکن ساکن جو ’ی‘ ہے ساقط ہوا، یوں ’مفاعلان‘ وجود میں آیا۔
دوسری طرف بحرالفصاحت میں مس تفع لن پر دو زحافات کو باری باری لگایا جو کہ غلط ہے، یعنی پہلے مس تفع لن پر خبن لگا کر ’م تفع لن‘ بو زن مفاعلن حاصل کر لیا۔ اور پھر مفاعلن کے دوسرے یعنی آخری وتدِ مجموع پر اذالہ کا زحاف لگا کر مفاعلان بنایا۔ جبکہ مفاعیلن کی طرح مس تفع لن پر بھی زحافات کو ایک ہی وقت میں لگائیں جو کہ اصول بھی ہے تو اذالہ کی جگہ یہاں بھی تسبیغ کا زحاف استعمال ہوگا۔ اور فرع ’’مخبون مسبغ‘‘ ہوگی۔
ابھی اسی تردد میں تھا تو سوچا عروض کے موضوع پر اتنی کتابیں لکھی جا چکی ہیں کہیں اس بات کی نشاندہی نہیں کی گئی کے آخر یہ اختلاف اپنے ہی بنائے گئے اصولوں سے کیوں چلا آرہا ہے؟
کیوں ایک جگہ زحافات کا استعمال ایک ساتھ ہوتا ہے تو دوسری جگہ الگ الگ؟ اتنی بڑی اور مستند کتاب بحرالفصاحت سے اختلاف کرنا کوئی عام بات تو نہ تھی۔
اسی تردد میں میں عروض کے موضوع پر اور کتابیں دیکھنے بازار گیا کہ شاید کوئی کتاب اس کا حل پیش کردے۔ اگر میں صحیح ہوں تو تصدیق کرے اگر غلط ہوں تو جواب ملے کہ کیسےغلط ہوں؟ اپنی منطقی سوچ میں آخر کار میں ایک کتاب تک پہنچا جس نے میری بات کے صحیح ہونے کی تصدیق کی۔ وہ کتاب کمال احمد صدیقی صاحب کی تصنیف ہے جس سے مجھے بہت حوصلہ حاصل ہوا۔ میں نے کل دو ماہ میں عروض کو اتنی گہری نظر سے پڑھا ہے کے میں ہی جانتا ہوں اور پھر یہ تردد جو ختم نہیں ہو رہا تھا وہ الگ کہانی تھی۔ بہر حال اس کتاب نے میرے صحیح ہونے کی گواہی دی کہ میں نے غلطی کو صحیح پکڑا تھا۔
میں آگے عروض کے ان حصوں پر زیادہ بات کروں گا جن پر خود اس وقت کے جانے مانے عروضی اور اہلِ فن حضرات تردد کا شکار ہیں اور میری کوشش یہی ہے کہ میرے اختلافات سے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو بلکہ علمِ عروض پر جن حضرات نے محنتیں کی ہیں انکی کوتاہیوں کو خاتمہ ہو جائے اور اس علم میں ایسی باتیں جو عقلی اور منطقی طور پر قابلِ تسلیم نہیں ہیں انہیں نکال کر یا تو تبدیلی کی صورت پیدا کی جائے یا کوئی حل تلاش کیا جائے۔

(جاری)
 
Top