سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی سے انتخاب

حضرت سیِّدُنامحمد بن زَکَریا غَلابی علیہ رحمۃُ اللّٰہِ الہادی فرماتے ہیں : میں ایک رات حضرت سیِّدُناابن عائشہ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہکے پاس حاضر ہوا ہم نمازِمغرب کے بعد مسجد سے نکلے ، اچانک نشے میں مدہوش ایک نوجوان آپ کے راستے میں آیا جو ایک عورت کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ رہا تھا ، عورت نے مدد کے لئے پکارا تو لوگ اُس نوجوان کو مارنے کے لئے جمع ہو گئے ۔
حضرتِ سیِّدُنا ابن عائشہ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے اُس نوجوان کو دیکھ کرپہچان لیا اور لوگوں سے کہا : میرے بھتیجے کو چھوڑ دو ! پھر آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: اے میرے بھتیجے ! میرے پاس آؤ !تو وہ نوجوان شرمندہ ہونے لگا ، تب آپ نے آگے بڑھ کر اُسے سینے سے لگا یا پھر اُس سے فرمایا : میرے ساتھ چلو ! چنانچہ وہ آپ کے ساتھ آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ کے گھر پہنچ گیا ۔
آپ نے اپنے ایک غلام سے فرمایا : آج رات اسے اپنے پاس سلاؤ ! ، جب اس کا نشہ دور ہو تو جو کچھ اس نے کیا ہے وہ اسے بتا دینااور اسے میرے پاس لانے سے پہلے جانے مت دینا ۔ چنانچہ جب اس کانشہ دورہوا تو خادِم نے اسے سارا ماجرا بیان کیا جس کی وجہ سے وہ بہت شرمندہ ہوا اور رونے لگا اور واپس جانے کا ارادہ کیا تو غلام نے کہا : حضرت کا حکم ہے کہ تم ان سے مل لو ۔
چنانچہ وہ اس نوجوان کو آپ کے پاس لے آیا ، آپ نے اُس نوجوان سےفرمایا : کیا تمہیں اپنے آپ سے شرم نہیں آئی ؟ اپنی شرافت سے حیا نہ آئی ؟ کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارا والد کون ہے ؟ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ! اور جن کاموں میں لگے ہوئے ہو انہیں چھوڑ دو ۔
وہ نوجوان اپنا سر جھکا کر رونے لگا پھر اس نے اپنا سر اٹھا کر کہا : میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے عہدکرتاہوں جس کے بارے میں قیامت کے دن مجھ سے سوال ہو گاکہ آیندہ کبھی میں نشہ نہیں پیوں گا اور نہ ہی کسی عورت پر دست درازی کروں گا اور میں ربّ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ۔
آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے فرمایا : میرے قریب آؤ ۔ پھر آپ نے اُس کے سر پر بوسہ دے کر فرمایا : اے میرے بیٹے ! تو نے توبہ کر کے بہت اچھا کیا ۔ اس کے بعد وہ نوجوان آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی مجلسوں میں شریک ہونے لگا اور آپ سے حدیث شریف لکھنے لگا ۔ یہ آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی نرمی کی برکت تھی ۔
پھر آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے فرمایا : لوگ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں حالانکہ ان کا نیکی برائی بن جاتا ہے لہٰذا تم اپنے تمام اُمور میں نرمی کواختیار کروکہ اس سے تم اپنے مقاصد کو پا لو گے ۔
(احیاء علوم الدین ، کتاب الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر ،۲/۴۱۱)

اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔۔۔ آمین۔
 
امام فخر الدین رازی رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ کی نزع کا جب وقت آیا ،شیطان آیا کہ اس وقت شیطان پوری جان توڑ کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح اس کا اِیمان سلب ہوجائے ،(یعنی چھین لیا جائے) اگر اس وقت پھر گیا تو پھر کبھی نہ لوٹے گا۔

اُس نے اِن سے پوچھا کہ تم نے عمر بھر مُناظروں مُباحثوں میں گزاری ،خدا کو بھی پہچانا؟ آپ نے فرمایا :بیشک خدا ایک ہے ۔اس نے کہا اس پر کیا دلیل؟آپ نے ایک دلیل قائم فرمائی، وہ خبیث مُعَلِّمُ الْمَلَکُوت(یعنی فرشتوں کا استاد)رہ چکا ہے اس نے وہ دلیل توڑ دی۔

اُنہوں نے دوسری دلیل قائم کی اُس نے وہ بھی توڑ دی۔ یہاں تک کہ 360 دلیلیں حضرت نے قائم کیں اور اس نے سب توڑ دیں۔

اب یہ سخت پریشا نی میں اور نہایت مایوس۔ آپ کے پیر حضرت نجم الدین کبریٰ رضی ا ﷲ تعالیٰ عنہ کہیں دُور دراز مقام پر وُضو فرمارہے تھے، وہاں سے آپ نے آواز د ی: ’’ کہہ کیوں نہیں دیتا کہ میں نے خدا کو بے دلیل ایک مانا ۔‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت ، ص ؛ 494)
 
حضرت امام مستغفری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ثقات (مستند راویوں ) سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ تین آدمی ایک ساتھ یمن جارہے تھے ہمارا ایک ساتھی جو کوفی تھا وہ حضرت ابوبکر صدیق وحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شان میں بدزبانی کر رہا تھا ، ہم لوگ اس کو بار بار منع کرتے تھے مگر وہ اپنی اس حرکت سے باز نہیں آتا تھا .
جب ہم لوگ یمن کے قریب پہنچ گئے اور ہم نے اس کو نماز فجر کے لیے جگایا ،تو وہ کہنے لگا کہ میں نے ابھی ابھی یہ خواب دیکھا ہے کہ رسول اللہ عزوجل و ﷺ میرے سرہانے تشریف فرما ہوئے اورمجھے فرمایا کہ ’’اے فاسق!خداوند تعالیٰ نے تجھ کو ذلیل وخوار فرمادیا اورتو اسی منزل میں مسخ ہوجائے گا۔‘‘

اس کے بعد فوراً ہی اس کے دونوں پاؤں بندر جیسے ہوگئے اورتھوڑی دیر میں اس کی صورت بالکل ہی بندرجیسی ہوگئی ۔ ہم لوگوں نے نماز فجر کے بعد اس کو پکڑ کر اونٹ کے پالان کے اوپر رسیوں سے جکڑ کر باندھ دیا اوروہاں سے روانہ ہوئے ۔
غروب آفتاب کے وقت جب ہم ایک جنگل میں پہنچے تو چند بندروہاں جمع تھے۔ جب اس نے بندروں کے غول کو دیکھا تو رسی تڑوا کر یہ اونٹ کے پالان سے کود پڑا اوربندروں کے غول میں شامل ہوگیا۔

ہم لوگ حیران ہوکر تھوڑی دیر وہاں ٹھہر گئے تاکہ ہم یہ دیکھ سکیں کہ بندروں کا غول اس کے ساتھ کس طرح پیش آتاہے تو ہم نے یہ دیکھا کہ یہ بندروں کے پاس بیٹھا ہوا ہم لوگوں کی طرف بڑی حسرت سے دیکھتا تھا اوراس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ گھڑی بھر کے بعد جب سب بندروہاں سے دوسری طرف جانے لگے تویہ بھی ان بندروں کے ساتھ چلاگیا۔

(شواہد النبوۃ، رکن سادس دربیان شواھد ودلایلی...الخ، ص۲۰۳)
 
Top