سقراط - مشتاق قمر

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

اظہرالحق

محفلین
سقراط

مصنف کا تعارف : مشتاق قمر ، راولپنڈی کے ادبی حلقوں کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھے ، افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار اور ناول نگار اور اصل وجہ شہرت انکا انشایہ نگاری تھا ، اور ١٩٨٠ میں قائم ہونے والی بزم انشایہ کے بانی رکن تھے ، لکھنے کا آغاز مزاح نگار کی حثیت سے کیا اور ١٩٦٥ میں “لہو اور مٹی“ لکھ کر اپنا نام امر ادیبوں میں کر لیا ، انکا ناول “ایک دن کا آدمی“ بھی ادبی دنیا میں منفرد حثیت کا حامل ہے (میں کوشش کروں گا کہ اسکا کچھ حصہ پیش کر سکوں ) ، انشایہ نگاری انکا خاص وصف تھا ، اور اسکی تعریف ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی کی ہے جو خود انشایہ تحریک کے بانی ہیں ، رشید امجد ، عالم کوٹی ، سلیم کوثر اور اعجاز راہی کے ساتھ ملکر لکھنے والوں کی انجمن بنائی اور راولپنڈی میں ادبی سرگموں کا محور رہے ، اردو انگریزی اور پنجابی زبان میں انکے لکھے ہوئے ڈرامے بھی کافی مقبول ہوئے ، اسلام آباد ٹی وی کے لئے بھی لکھا ۔ ۔ تصنیفات میں لہو اور مٹی (افسانے) ، ہم ہیں مشتاق (انشائیے ) اور ایک دن کا آدمی (ناول) شامل ہیں ، اسکے علاوہ بھی مشتاق قمر کے ڈرامے جسے محمد وسیم انجم نے مرتب کیا اور بھی کچھ تصنیفات زیر طبع ہیں ، جن مکالمہ(تحقیقی و تنقیدی مضامین) ، سیاہ و سفید (طنزیہ مزاحیہ مضامین) اور اپنا گھر (افسانے اور انشائے ) شامل ہیں ، مشتاق قمر کا انتقال ١٩٨٩ میں ہوا ، اور راولپینڈی کی ادبی سنگت ان کو ہمیشہ یاد رکھے گی ، انکی یاد میں آصف ثاقب نے لکھا

فکر غالب میں اسے نثر کی توفیق ہوئی
شدت غم میں اگر میر تھا مشتاق قمر
وہ فسانوں مٰیں نئے شہر بسانے والا
سر بسر حسرت تعمیر تھا مشتاق قمر
یہ افسانہ محمد وسیم انجم کی مرتب کردہ کتاب “مشتاق قمر کے ڈرامے“ سے لیا گیا ہے

آپ کی آراء کا منتظر رہوں گا


----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
میں اس چھوٹے سے گاؤں مین پہنچا تو مجھے وہ گاؤں بالکل ایسا ہی لگا جیسا میں اسے بیس سال قبل چھوڑ آیا تھا ۔ وہی کچے سے مکان، بے ڈھنگے راستے ، گاؤں کے آخری سرے پر کنواں ، دو تین ہٹیاں (دوکانیں) بتدریج اوپر اٹھتے ہوئے کھیت ، ڈھور ڈنگر اور سیدھے سادھے کسان۔

ظاہری اعتبار سے گاؤں ویسے کا ویسا ہی تھا۔ اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔ پھر بھی سارے گاؤں کی فضا بدلی بدلی سی لگتی تھی جیسے کسی قدیم ، فرسودہ ڈھانچے میں نعئی تازہ روح پھونک دی گئی ہو۔

مجھے گاؤں کے عین وسط میں ایک اسیے مکان تک جانا تھا جہاں اب کوئی آباد نہیں تھا اور جو خود بھی شاید پیوند زمین ہو چکا تھا ، گھر کے سارے مکین یا تو انتقال کرچکے تھے یا شہروں میں منتقل ہو گئے تھے۔

اس گھر میں میرے بچپن اور لڑکپن کا بیشتر حصہ گزرا تھا ، یہ میرے والد مرحوم کے دوست کا گھر تھا ، جب بھی ان کا اس طرف گزر ہوتا ایک آدھ دن یہاں ضرور قیام کرتے ۔ میری انکے بیٹے کے ساتھ دوستی تھی ۔ میرے خیال میں دوستی نبھانے کے لئے ایک آدھ تو کیا دو چار ہفتے کا قیام بھی کچھ زیادہ کڑی آزمائیش نہیں ہوتی ۔ لہٰزہ اکثر و بیشتر موسم گرم کی ساری تعطیلات یہیں بسر ہوتیں ۔ میں نے اس گاؤں میں اور بھی بہت سے دوست بنا لئے تھے ۔ تاہم میرا “مرکزی نقطہ“ یہی گھر تھا ، تب بھی اور اب بھی ۔ پتہ نہیں کیوں اس گاؤں کے قریب سے گزرتے ہوئے میں ایک بے حد جزباتی انسان بن جاتا ہوں ۔ اس گھر کی ایک چھوٹی سی جھلک دیکھنے کے لئے بھی بڑے سے بڑے مالی فائدے سے دستبردار ہو جاتا ہوں ۔

مجھے اچھی طرح علم تھا یہ گھر اب کھنڈر بن چکا ہو گا، میں یہ بھی جانتا تھا اس کھنڈر میں سوا میں کسی دوسرے گھر میں پل بھر کے لئے بھی نہیں ٹہر سکوں گا میں نے جیب سے ٹکٹ نکال کر دیکھا ، مجھے ابھی تین سٹیشن آگے جانا تھا پھر میں اس سٹیشن پر اتر گیا ، ٹانگہ لیا اور ڈیڑھ دو گھنٹے میں گاؤں پہنچ گیا ، تانگے والا کوئی نیا آدمی تھا میری اس سے جان پہچان نہیں تھی اور نہ ہی وہ میری طرح جزباتی تھا اس نے پانچ روپے کے نوٹ میں سے تین روپے واپس کرنے کی بجائے میرا شکریہ ادا کیا اور تانگے کا رخ دوبارہ اسٹیشن کی طرف موڑ دیا۔

اس گاؤں کے وسط تک جاتے ہوئے عجیب سا احساس ہو رہا تھا ، جیسے میں آگے کی جانب نہیں سیڑھیاں اترتے ہوئے گہرائی میں جا رہا تھا ، مجھے راستے میں بہت سے آشنا و ناآشنا چہرئے دکھائی دئیے ۔ بعض مجھے دیکھتے ہی گلے لگا لیا ، بعض اپنی جگہ کھڑے مجھے دیکھتے رہے اس انتظار میں کہ علیک سلیک میری طرف سے ہو، بعض نے اجنبی جان کر محض اچٹکتی سی نگاہیں ڈالنے پر اکتفا کیا ۔ بیس سال قبل یہ صورت حال نہیں تھی ۔ اس گاؤں کا ایک کردار ایک رنگ ایک وطیرہ تھا اب بہت سے رنگ بہت سے وطیرے بہت سے کردار بن گئے تھے۔

پیپل کے درخت کے نیچے رنگ برنگی مٹی سے لپے ہوئے چبوترے پر پنچائیت لگی ہوئی تھی۔ بچپن میں ، گاؤں کی پنچائیت میرے لئے بے حد دلکش ہوتی تھی ، ایک انتہائی اہم اور دلچسپ واقعہ !!

میں نے اپنے ایک پرانے دوست سے خوش ہوتے ہوئے کہا ، شاید میں ٹھیک وقت پر پہنچا؟ کسی کے خلاف کوئی فیصلہ سنایا جانے والا ہے ؟ میں نے پوچھا
فیصلہ سنا دیا گیا ہے ، میرے دوست نے جواب دیا
اس نے چبوترے کی ایک طرف کرسی پر بیٹھے ہوئے ایک شخص کی جانب اشارہ کیا اسکے سامنے میز پر دو گلاس رکھے ہوئے تھے ، ہم باتیں کرتے کرتے اور قریب آ گئے ، میں دیکھا ایک گلاس پر “زہر“ اور دوسرے پر “کولڈ کافی“ کے الفاظ درج تھے ۔
میرے دوست نے بتایا “اسے زہر اور کولڈ کافی میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔“
عجیب سا فیصلہ ہے ، میں نے قدرے حیرت کا اظہار کیا ، پہلے تو پنچائیت میں اس قسم کے فیصلے نہیں دئیے جاتے تھے
یہ شخص غیر ملکی ہے ، اس لئے اس سے انتخاب میں رعایت برتی گئی ہے
یہ شخص کہاں کا رہنے والا ہے ؟ میں نے پوچھا
یونان کا
یونان کا ، میری حیرت میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا تھا ، اپنا نام کیا بتاتا ہے ؟
سقراط
سقراط! ۔ ۔ ۔ میری تقریباََ چیخ ہی نکل گئی ، مجھے لگا کہ میرا پاؤں پھسل گیا ہوا ور میں بہت سی سیڑھیوں پر سے پھسلتے ہوئے کسی بہت ہی گہری خندق میں جا گرا ہوں ، بڑی دیر بعد میرے حواس بجا ہوئے تو اپنے دوست کے بجائے خود اپنے آپ سے ہم کلام تھا
یونان ۔۔۔ سقراط ۔۔۔ زہر کا گلاس ۔۔۔ کولڈ کافی ۔ ۔۔ سوائے کولڈ کافی کے ۔ ۔۔ ۔ ۔۔
میرے دوست نے قطع کلامی کی ۔ ۔ ۔ اب یہاں کولڈ کافی بہت چلتی ہے ، اس شخص نے ہی اسے رواج دیا ہے۔
میں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اس شخص کے بالکل قریب ہو گیا ، وہ شخص سقراط کا ہم نام اور ہم وطن ہی نہیں اس سے بے حد مشابہ بھی تھا ، موٹا سا گنجا سر ، بڑاسا گو چہرا ، اندر کو دھنسی ہوئی ہمہ وقت گھورتی آنکھیں ۔ ۔ ہو بہو سقراط!!
یہ شخص واقعٰی ہی سقراط ہے
وقعٰی ہی کیا مطلب میرا دوست طنزیہ انداز میں ہنسا
یونان کا رہنے والا سقراط میں نے کہا
میرا دوست میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگا جیسے میرا دماغ چل گیا ہو ۔ ۔
اس نے جرم کیا کیا ہے ؟ میں نے اپنی حفت مٹانے کے لئے پوچھا
بڑی عجیب عجیب باتیں کرتا ہے ۔ ۔ ۔ میرا دوست بدستور طنزاََ مسکراتے ہوئے بولا ، کہتا ہے ہم لوگوں کے طور طریقے فرسودہ ہو چکے ہیں ، ہمیں اپنے اندر مکمل تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔
اس کے محض کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ میں نے کہا
بہت فرق پڑ رہا ہے ، بہت سے نوجوان اسکے ہمنوا بنتے جا رہے ہیں ۔ اب یہاں نوجوانوں میں لسی کی جگلہ کولڈ کافی چلتی ہے
جرم بھی وہی ۔ ۔ ۔ میں نے گہری سوچ میں مستغرق اپنے آپ سے کہا
کونسا جرم ؟ میرا دوست قدرے متفکر ہوتے ہوئے بولا ۔۔ لگتا ہے تم اس شخص کو پہلے سے جانتے ہو۔
میں نے کوئی جواب نہیں دیا ، میں کوئی جواب دے بھی نہیں سکتا تھا ، میں نے اس عمیق گہرائی سے جہان میں پھسل کر آ گرا تھا سارے گاؤں کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا تو مجھے لگا میں واقعی ہی دو ہزار تین سو قبل مسیح کے یونان میں آ نکلا ہوں۔ اگر میرا دوست میرے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے نہ کھڑا ہوتا تو میں یقنن غش کھا کر گر جاتا ۔

اب بہت سارے لوگ جمع ہو چکے تھے ، دم بخود ، اس سے قبل کبھی بھی مجھے پنچائیت کے کسی فیصلے کے وقت اتنے زیادہ لوگ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔

ہر شخص کے چہرے پر ایک سوال تھا ، ایک ایسا سوال جو خود اپنا جواب بھی تھا ، یہ شخص جو اپنے آپ کو سقراط کہتا تھا ، قطعی تور پر اپنی روائتی دل جمعی اور سکون سے عاری ہو چکا تھا ۔ کبھی ہاتھ زہر کے گلاس کی جانب دراز ہوتا کبھی وہ کولڈ کافی کو للچائی ہوئ نظروں سے دیکھتے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیرتا
اس پر عجیب اضطراری کیفیت طاری تھی
اس اضطراری کیفیت نے اسے انتہای مضحکہ خیز بنا دیا تھا

سقراط کے بارے میں میری بڑی اچھی رائے تھی ، وہ ایک درویش منش انسان تھا اسے کبھی آنے والے کل کی فکر نہیں رہی ، اگر کوئی شاگرد اسے کھانے کی دعوت دیتا تو کھا لیتا ورنہ بھوکا پیاسا ہی سو جاتا ۔ اس کا کوئی ذریعہ ووزگار نہیں تھا ، نہ ہی اسے کام کاج سے کوئی دلچسپی تھی ، یہی باعث تھا کہ اسے ہمیشہ اپنی بیوی کے غم و غصہ کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ مرنجان مرنج شخص تھا ، چپ چاپ جلی کٹی سنتا رہتا ایک بار جب اسکی بیوی بولتے بولتے تھک گئی وہ پھر بھی ٹس سے مس نہ ہوا تو اسنے پانی کا گھڑا اٹھا کر اسکے سر پر انڈیل دیا
سقراط کا رد عمل بھی ایک معمولی سا تبصرہ تھا ۔ “قدرتی بات ہے ، بادل گرجنے کے بعد برستے ہی ہیں “
یہ شخص شاید ہنسنا نہیں جانتا تھا ۔ ہنسنا جانتا ہوتا تو فقط ایک قہقہ لگا کر خاموش ہو جاتا ۔
ایسے بے ضرر شخص کے لئے موت کی سزا تجویز کرنا خودکشی کی ترغیب دینے کے مترادف ہے ۔ یہی بات ہے کہ میں نے ہمیشہ سقراط کی سزائے موت کو عدالتی قتل ہی گردانا ہے ۔ اگر چہ سقراط کو گزرے ہوئے ہزاروں برس ہو چکے ہیں پھر بھی کیوں مین جب اسکے بارے میں سوچتا تھا میرے اندر بس ایک ہی خواہش پیدا ہوتی تھی کاش وہ زہر کا پیالہ نہ پیتا ، ارسطو کی طرح بچ کہ نکل جاتا
لیکن اس گھڑی جس طرح وہ بار بار حریصانہ نگاہوں سے کولڈ کافی کی طرف دیکھتے ہوئے زبان ہونٹوں پر پھیر رہا تھا۔ مجھے اپنے اندر کسی بہت بڑی ٹوٹ پھوٹ کا احساس ہو رہتاھ میری شدید خواہش تھی کہ وہ زہر کا پیالہ اٹھا کر غٹا غٹ پی جائے ۔ سارا کا سارا ۔۔۔ آخری بوند بھی ۔ ۔
وہ متواتر تاخیر کیئے جا رہا تھا اسے تاخیر سے اسکے بارے مٰیں میری رائے بری طرح متاثر ہو رہی تھی ۔ شاید وقت کے ساتھ ساتھ انسان جسمانی ہی نہی ذہنی طورپر بھی بدل جاتا ہے ۔ میں بھاری دل کے ساتھ سوچنے لگتا۔

لیکن پھر میری سوچوں کارخ روائیتی انداز میں بدل جاتا ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ۔ ایسا شخص جس نے محض اپنی بات کی خاطر زہر کا پیالہ پی لیا ہو اسکے اندر کسی تبدیلی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ ایسے لوگ خود نہیں بدلتے دنیا کو بدل دیتے ہیں۔
سوچ کا یہ نیا رخ ٹوٹتے ہوئے اعتماد کو بحال کردیتا
جسمانی اعتبار سے سقراط میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی تھی ۔ اس سے میر کچھ ڈھارس سی بندھ گئی ۔ اسکا واضح مطلب تا اس کا ذہن ابھی تک کسی تبدیلی سے آشنا نہیں ہوا تھا ۔
قدرتی طور پر اس تمام واقعہ میں میری دلچسپی میں اضافہ ہو گیا ۔
جوں جوں وقت گزرتا جا رہاتھا سقراط کی اضطراری کیفیت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔ کبھی لگتا کہ وہ زہر کا گلاس غٹا غٹ پی جائے گا اور پنچائیت کے اراکین کی طرف استہزایہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہتے گا “بس اتنی سی بات تھی “

لیکن دوسرے ہی لمحے اسکی متزلزل ذہنی کیفیت دیکھ کر میرا سارا اعتماد زائل ہو جاتا لگتا تھا وہ کولڈ کافی کا گلاس ہاتھوں میں اٹھا کر ارسطو زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے کہے گا “ آپ لوگوں کا شکریہ ۔ میں گاؤں چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔ میری بیوی کا خیال رکھنا“
اس وقت میری کیفیت اس گول کیپر کی سی تھی جسے فیصلہ کن گول میں پیلنٹی اسٹروک کا سامنا ہو۔

میرا دوست میری بے چینی کو بھانپتے ہوئے بولا ۔ تمہارے خیال میں اسکا انتخاب کیا ہو گا؟ زہر یا کولڈ کافی ۔

زہر میری زبان میرے دل کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔۔۔ بلا شبہ زہر دیکھ لینا یہ شخص کولڈکافی کو ہاتھ تک نہیں لگائے گا۔
لیکن کولڈ کافی اسکا پسندیدہ مشروب ہے ۔ میرے دوست نے کہا
بات پسند ناپسند کی نہیں ۔ میں نے بڑے فخر سے کہا ۔ اس شخص کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سچائی کے خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے کی طرح ڈالی ہے ۔
مجمع میں ہلچل بڑھ رہی تھی ۔ اب انتظار کی مزید گنجائش نہیں تھی ۔ لوگ جلد از جلد نتیجہ معلوم کرنا چاہتے تھے ۔ لگتا تھا خود سقراط ایک طویل تکلیف دہ سوچ کے بعد اب کسی نتیجہ پر پہنچ چکا تھا ۔
وہ یک لخت اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا ۔ اسنے ایک ہاتھ میں زہر اور دوسرے میں کولڈ کافی کا گلاس اٹھایا ۔ مجمع پر سرسری نگاہ دوڑائی اور پھر پنچائیت کے طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔ حضرات میں آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے انتخاب کی آزادی دی ۔ میں اس آزادی کا استعمال کرتے ہوئے زہر پر کولڈ کافی کو ترجیع دیتا ہون۔
یہ کہتے ہوئے وہ بیٹھ گیا اور مزے لے لے کہ کولڈ کافی پینے لگا۔
اس کا انتخاب لوگوں کی نہ صرف توقعات بلکہ انکی خواہشات کے عین مطابق لگتا تھا۔ اس کا فیصلہ سن کہ لوگ خوشی کے مارے رقص کرنے لگے ۔ اسکے نوجوان شاگرد مسرت و انبساط کے نعرے لگاتے ہوئے چبوترے کی جانب بڑھنے لگے مگر انہیں قریب آنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ پھر آہستہ آہستہ لوگ وہاں سے چلے گئے ۔ ۔۔ سقراط تنہا کافی پیتا رہ گیا ۔
مجھے اپنے دل پر ایک عجیب سا بوجھ محسوس ہو رہا تھا ۔ میں اس کے قریب جاتے ہوئے کہا ۔ یار ہم تو تم پر فخر کیا کرتے تھے
میرا انتخاب درست ہے ۔ بالکل درست ۔ وہ اپنی اندر دھنسی ہوئی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے بولا۔
تو پھر تمہارا پہلا انتخاب درست نہیں تھا ۔ ۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ۔ اس شخص میں اب بھی ایک مدبرانہ وجاہت تھی جو دیکھنے والوں پر لرزہ طاری کر دیتی تھی
میرا پہلا انتخاب بھی درست تھا ۔ وہ پورے وثوق کے ساتھ بولا
میں کچھ سمجھا نہیں ۔۔ میں نے پھر ڈرتے ڈرتے پوچھا
وہ کولڈ کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے بولا ۔ ۔ زندگی بہت بڑی سچائی ہے ۔ اتنی بڑی سچائی کو ان چھوٹی چھوٹی سچائیوں پر قربان کرنا درست نہیں
پھر تمہارا پہلا انتخاب درست کیسے ہوا؟
اس وقت مجھے خود اس بات کا علم نہیں تھا
کس بات کا ؟ میں نے بدستور ڈرتے ڈرتے پوچھا
کہ زندگی بزات خود ایک بہت بڑی سچائی ہے ۔ اسے صرف کسی اس سے بھی بڑی سچائی پر ہی قربان کیا جا سکتا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے اس نے مجھے وہاں سے چلے جانے کا اشارہ کیا ۔
میں چپکے سے اٹھا اور اسے کولڈ کافی پیتے چھوڑ کر گاؤں کے عین وسط میں اپنے دوست کے مکان کے کھنڈر میں آ کر بیٹھ گیا ۔ ۔ اس گھڑی مجھے کولڈ کافی کی شدید ضرورت محسوس ہونے لگی ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top