سر سید احمد خاں کے قلم سے

محمد وارث

لائبریرین
اوپر والی کتب کے علاوہ، سرسید کی دیگر تصانیف:

جامِ جم (فارسی) 1840ء۔ سلاطین تیمیوریہ کا امیر تیمور سے لیکر بہادر شاہ تک تذکرہ ہے۔

تحفۂ حسن، 1844ء۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی کی کتاب "تحفۂ اثنا عشریہ" کے ایک باب کا ترجمہ ہے، اور اسی کتاب کی تائید میں ہے۔

تسہیل فی جر الثقیل، 1844ء

کلمۃ الحق، 1849ء

راہِ سنت و ردِ بدعت، 1850ء۔ بدعت اور اہلِ بدعت کے خلاف ہے۔

نمیقہ در بیانِ مسئلہ تصورِ شیخ، 1852ء

سلسلۃ الملوک، 1852ء۔ راجہ یدہشٹر سے ملکہ وکٹوریہ تک، دہلی کے بادشاہوں کا تذکرہ ہے۔

قولِ متین در ابطالِ حرکتِ زمین۔

فوائد الافکار فی اعمال الفرجار، ترجمہ 1864ء

سیرتِ فریدیہ۔ اپنے نانا کی حیات و سیرت کے متعلق لکھی ہے اور اپنے ابتدائی حالات بھی بیان فرمائے ہیں۔

تاریخِ ضلع بجنور۔ 1857 میں تلف ہوگئی۔

تصیح آئینِ اکبری۔

تاریخِ سرکشی بجنور۔

رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند۔ مشہور و معروف و متنازعہ ہے۔

لائل محمڈنز آف انڈیا، 1860 اور 1861۔ سلسلہ وار تھی، صرف تین نمبروں تک جاری رہی۔

تحقیق لفظ نصاریٰ۔

تصیح تاریخِ فیروز شاہی، 1862۔ ضیاءالدین برنی کی مشہور تصنیف کی سرسید نے تصیح کی۔

تبئین الکلام، 1862

علاج ہومیو پیتھک، 1867

احکامِ طعام اہلِ کتاب۔

سفر نامۂ لندن۔

خطبات احمدیہ، 1870۔ شاید سرسید کی سب سے اہم تصنیف ہے۔ سیرتِ رسولِ اکرم (ص) پر جو نازیبا حملے مغربی عالم اور پادری کرتے تھے انکا علمی و ادبی جواب ہے۔ اور سیرتِ رسول (ص) کا دل آویز مرقع پیش کیا۔ انگلینڈ میں مرتب کی اور پہلے وہیں انگریزی میں چھپی تھی، اردو ترجمہ بعد میں شائع ہوا۔

رسالہ ابطالِ غلامی۔ جو مسلمان علما اسلام میں غلامی کو جائز سمجھتے تھے، انکو قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیا۔

تفسیر القرآن۔ خطباتِ احمدیہ اور آثار الصنادید کے بعد یہ سب سے اہم لیکن متنازعہ تصنیف ہے، اس میں سرسید نے تمام معجزات اور جنوں اور شیاطین کے خارجی وجود سے انکار کیا ہے، جس کو بہت سارے مسلمان "کفر" اور دیگر "اجتہادی غلطی" سمجھتے ہیں۔

النظر فی بعض المسائل۔

سفر نامۂ پنجاب، 1884

جواب امہات المومنین۔

ان کتب کے علاوہ، "خطوط سر سید"، "مجموعۂ لیکچرز و اسپیچز"، اور "مضامینِ تہذیب الاخلاق" بھی مستقل تصانیف کا درجہ رکھتے ہیں۔



(بحوالہ، "انتخاب مضامینِ سرسید مع سوانح و تنقیدی تعارف" شائع کردہ اردو اکیڈمی سندھ، کراچی۔ سنِ اشاعت 1960ء)


۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اوپر والی کتب کے علاوہ، سرسید کی دیگر تصانیف:

جامِ جم (فارسی) 1840ء۔ سلاطین تیمیوریہ کا امیر تیمور سے لیکر بہادر شاہ تک تذکرہ ہے۔

تحفۂ حسن، 1844ء۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی کی کتاب "تحفۂ اثنا عشریہ" کے ایک باب کا ترجمہ ہے، اور اسی کتاب کی تائید میں ہے۔

تسہیل فی جر الثقیل، 1844ء

کلمۃ الحق، 1849ء

راہِ سنت و ردِ بدعت، 1850ء۔ بدعت اور اہلِ بدعت کے خلاف ہے۔

نمیقہ در بیانِ مسئلہ تصورِ شیخ، 1852ء

سلسلۃ الملوک، 1852ء۔ راجہ یدہشٹر سے ملکہ وکٹوریہ تک، دہلی کے بادشاہوں کا تذکرہ ہے۔

قولِ متین در ابطالِ حرکتِ زمین۔

فوائد الافکار فی اعمال الفرجار، ترجمہ 1864ء

سیرتِ فریدیہ۔ اپنے نانا کی حیات و سیرت کے متعلق لکھی ہے اور اپنے ابتدائی حالات بھی بیان فرمائے ہیں۔

تاریخِ ضلع بجنور۔ 1857 میں تلف ہوگئی۔

تصیح آئینِ اکبری۔

تاریخِ سرکشی بجنور۔

رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند۔ مشہور و معروف و متنازعہ ہے۔

لائل محمڈنز آف انڈیا، 1860 اور 1861۔ سلسلہ وار تھی، صرف تین نمبروں تک جاری رہی۔

تحقیق لفظ نصاریٰ۔

تصیح تاریخِ فیروز شاہی، 1862۔ ضیاءالدین برنی کی مشہور تصنیف کی سرسید نے تصیح کی۔

تبئین الکلام، 1862

علاج ہومیو پیتھک، 1867

احکامِ طعام اہلِ کتاب۔

سفر نامۂ لندن۔

خطبات احمدیہ، 1870۔ شاید سرسید کی سب سے اہم تصنیف ہے۔ سیرتِ رسولِ اکرم (ص) پر جو نازیبا حملے مغربی عالم اور پادری کرتے تھے انکا علمی و ادبی جواب ہے۔ اور سیرتِ رسول (ص) کا دل آویز مرقع پیش کیا۔ انگلینڈ میں مرتب کی اور پہلے وہیں انگریزی میں چھپی تھی، اردو ترجمہ بعد میں شائع ہوا۔

رسالہ ابطالِ غلامی۔ جو مسلمان علما اسلام میں غلامی کو جائز سمجھتے تھے، انکو قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیا۔

تفسیر القرآن۔ خطباتِ احمدیہ اور آثار الصنادید کے بعد یہ سب سے اہم لیکن متنازعہ تصنیف ہے، اس میں سرسید نے تمام معجزات اور جنوں اور شیاطین کے خارجی وجود سے انکار کیا ہے، جس کو بہت سارے مسلمان "کفر" اور دیگر "اجتہادی غلطی" سمجھتے ہیں۔

النظر فی بعض المسائل۔

سفر نامۂ پنجاب، 1884

جواب امہات المومنین۔

ان کتب کے علاوہ، "خطوط سر سید"، "مجموعۂ لیکچرز و اسپیچز"، اور "مضامینِ تہذیب الاخلاق" بھی مستقل تصانیف کا درجہ رکھتے ہیں۔



(بحوالہ، "انتخاب مضامینِ سرسید مع سوانح و تنقیدی تعارف" شائع کردہ اردو اکیڈمی سندھ، کراچی۔ سنِ اشاعت 1960ء)


۔
خطبات احمدیہ کے بارے میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی کہ پھر محفل کا پتہ مل گیا۔ اب مجھے یہ کتاب بھی ڈھونڈنی پڑے گی۔
 
Top