ام اویس

محفلین
وہ عربی نہیں جانتا تھا نہ ہی اسے عربی کے کسی لفظ کا مطلب معلوم تھا۔ اس کے باوجود جب کبھی دورانِ سفر محمد المصری قرآن مجید کی کسی سورة کی تلاوت کرتا تو سکپ کان لگا کر سننے لگتا، اگر وہ جلدی پڑھتا تو اسے کہتا: “رکو! اسے ذرا ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔” سنتے ہوئے اس کی کیفیات بھی بدلتی رہتیں، سمجھ نہ آنے کے باوجود کبھی اسے ان آیات کو سن کر رونا آتا اور کبھی خوشی کا احساس ہوتا۔
دن گزرتے گئے۔ ایک دن پیٹر جیکب ایک بار پھر محمد کے ہمراہ مسجد چلا گیا۔ صبح سے شام ہوگئی، وہ دونوں واپس نہیں آئے یہانتک کہ چاروں طرف اندھیرا چھانے لگا۔ اسکپ اور اس کے والد پریشان تھے ، نہ جانے ان دونوں کے ساتھ کیا ہوا ہے، شاید کوئی حادثہ پیش آیا ہے یا شاید پادری بیمار ہوگیا ہے۔
اسکپ ان کو ڈھونڈنے کے ارادے سے باہر نکلا تو اسے دور سے محمد آتا دکھائی دیا اس کے ساتھ ایک اور شخص تھا جس نے سفید لمبا عربی چوغہ پہن رکھا تھا اور سر پر سفید ٹوپی تھی۔ جونہی وہ قریب آئے اسکپ اسے پہچان کر چلا اٹھا: پیٹ ! کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ہے؟
اس نے جواب دیا: “میں گواہی دیتا ہوں کہ الله ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی الله علیہ و آلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔”
سکپ اس کے فیصلے پر حیران و ششدر تھا۔ وہ محمد المصری کواپنا ہم مذہب بنانا چاہتا تھا اور یہاں معاملہ ہی اُلٹ چکا تھا۔
انہیں پریشان کن سوچوں میں ڈوبا وہ گھر میں داخل ہوا اور سیڑھیاں چڑھ کر اپنی خواب گاہ میں آ گیا۔ بیڈ کے کنارے پر بیٹھا ہی تھا کہ اس کی بیوی بولی “ سکپ میں تم سے طلاق چاہتی ہوں”
واٹ! سکپ چیخا، پھر اپنی حیرت اور آواز پر قابو پاتے ہوئے کہنے لگا: میں نے اسلام قبول نہیں کیا، بلکہ پیٹر مسلمان ہوا ہے۔”
اس کی بیوی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ٹھوس لہجے میں کہا: “ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے، اس لیے اب میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔”
سکپ ایسٹس کے لیے یہ خبر کسی دھماکے سے کم نہ تھی، وہ حواس باختہ ہو کر یک لخت اٹھا اور بیڈ سے نیچے گر گیا۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔
وہ نیچے آگیا اور اس نے محمد کو بلایا۔ وہ آخری بار اس سے اسلام کے متعلق بات کرنا چاہتا تھا۔ ساری رات وہ گھر کے صحن میں چکر لگاتے رہے۔ وہ اس سے اسلام اور عیسائیت کے متعلق بحث و مباحثہ کرتا رہا۔ اپنی بیوی ، بچے، خاندان، کاروبار،مذہبی خدمات، دوستوں، رشتہ داروں کے متعلق، بائبل کے متعلق، قرآن اور اسلام کے متعلق غرض دنیا کے ہر موضوع پر اس نے بےشمار سوالات کیے۔ درحقیقت وہ چاہتا تھا کہ محمد اس سے کہے: “تم اسلام قبول کر لو۔” محمد اس معاملے میں اس کی راہنمائی کرے، لیکن محمد نے نہایت مدبرانہ انداز میں سکپ سے کہا: یہ تمہارا اور تمہارے خاندان کا معاملہ نہیں، اس سے تمہاری بیوی یا بچوں کا کوئی تعلق نہیں، نہ ہی کسی کاروبار یا دنیا کے کسی بھی معاملے کا اس سے تعلق ہے، یہ تمہارا اور تمہارے رب کا معاملہ ہے۔”
محمد نے اسے بتایا: میں ہر روز، ہر نماز کے بعد تم سب کے الله تعالی سے ہدایت کی دعا کرتا ہوں، مجھے یقین ہے وہ حق کی طرف تمہاری رہنمائی کرے گا اور تمہارا سینہ ایمان کے نور سے بھر دے گا۔”
اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے سکپ سے کہا: “ میری نماز کا وقت ہوگیا ہے، اور یا الله یا ھادی کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔”
محمد کے جانے کے بعد سکپ وہیں صحن میں سجدے میں گر گیا اور اپنا ماتھا زمین پر ٹکاتے ہوئے، دل ہی دل میں الله کو پکار کر کہا: “اے خدا اگر تو ہے تو میری راہنمائی فرما۔ “
جب اس نے زمین سے سر اٹھایا تو اس پر یہ سچائی کُھل چکی تھی کہ اسلام ہی سچا دین ہے، الله ایک ہے اور محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم اس کے آخری نبی ہیں۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ اسلام کی حقانیت سے انکار کرنا ممکن نہیں، اس کا دل تشکر کے احساس سے بھر گیا۔ اب وہ کلمہ شھادت پڑھنےاور اسلام کو دل وجان سے قبول کرنے کے لیے تیار تھا۔ وہ سکپ ایسٹس نہیں رہا تھا بلکہ ایک پکا اور سچا مسلمان یوسف ایسٹس تھا۔ اب وہ عیسائیت کا مبلغ نہیں رہا تھا بلکہ الله نے اسے اسلام کے لیے چُن لیا تھا۔
 

سیما علی

لائبریرین
جب اس نے زمین سے سر اٹھایا تو اس پر یہ سچائی کُھل چکی تھی کہ اسلام ہی سچا دین ہے، الله ایک ہے اور محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم اس کے آخری نبی ہیں۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ اسلام کی حقانیت سے انکار کرنا ممکن نہیں، اس کا دل تشکر کے احساس سے بھر گیا۔ اب وہ کلمہ شھادت پڑھنےاور اسلام کو دل وجان سے قبول کرنے کے لیے تیار تھا۔
سبحان اللّہ سبحان اللّہ
اسلام کی یہی عظمت و حقانیت دراصل اسلام دشمنوں کی حزیمت کا سبب بنتی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔
 
Top