روحانی اقوال

محمد فہد

محفلین
اس لڑی کا عنوان بھی بدل کر اب “عظیم اقوال” کر دینا چاہیئے
عظیم اللہ قریشی ماشاءاللہ بہت پیارا نام ہے، روحانی بابا بھائی، نے بہت عمدہ اور بہترین کام کیا اس نام کو منتخب کر کے اب جاننا یہ ہے کہ عظیم اللہ قریشی بھائی کا اپنا نام ہے یا پھر بیٹے کا ہے۔
 
عظیم اللہ قریشی ماشاءاللہ بہت پیارا نام ہے، روحانی بابا بھائی، نے بہت عمدہ اور بہترین کام کیا اس نام کو منتخب کر کے اب جاننا یہ ہے کہ عظیم اللہ قریشی بھائی کا اپنا نام ہے یا پھر بیٹے کا ہے۔
خاکسار عظیم اللہ قریشی کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ بیٹا ہے جس کا نام ہے فردان۔
 
حضرت غلام محمد صاحب المعروف امام جلوی رحمۃ اللہ علیہ جو کہ جلوانہ سمندری روذ فیصل آباد کے رہائشی تھے اپنے ڈیرے پر مؤجود تھے دورانِ مجلس (یہ واقعہ ہے 22 نومبر 1949 بروز منگل کا ہے)ایک شخص نے ایک روپیہ پیش کیا معاً ایک سائل آگیا اور عرض کی کہ حضور میراق ایک روپے کا سوال ہے ۔آپ نے وہی روپیہ اس سائل کو دے دیا اور شعر زبانِ پاک سے پڑھا ؔ

جو کچھ مورے پاس ہے وہ ہے سب کچھ تور
تورا تجھ کو دیتے ہیں،کیا لاگے ہے مور
 
ایک مسجد بازار کے کنارے تھی اس میں جمعہ کے دن بہت سارے لوگ نماز جمعہ کے لیئے حاضر تھے نمازیوں میں ایک فقیر بھی تھے اتنے میں ایک درویش نے باہر سے آکر فقیر کو جو کہ اس کامرشد تھا سجدہ تعظیم کیا ۔تمام لوگ اور مولوی صاحب گھبرائے اور فتویٰ تعزیرلکھ کر بادشاہ کے پاس بھیج دیا ۔سپاہیوں نے درویش کو گرفتار کرلیا ۔بادشاہ نے درویش سے پوچھا تو نے آدمی کو سجدہ کیا درویش نے کہا ہاں کیا ۔بادشاہ نے پوچھا کیو کیا۔درویش نے مولوی کی طرف اشارہ کرکے کہا ان کے بڑے بھائی سے ڈرتے ہیں سو سجدہ تعظیم کیا ۔بادشاہ نے پوچھا ان کا بڑا بھائی کون ہے درویش نے کہا شیطان۔ اُس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ تعظیم نہ کیا تھا اس لیئے اُس کے گلے میں طوق لعنت ڈالا گیا وہ کافرہوگیا ۔لہٰذا اسی وجہ سے سجدہ تعظیم کیا اور عقل مند وہی ہے جو دوسروں کی ذلت دیکھ کر عبرت پکڑے ۔بادشاہ یہ بات سن کر ہنسا اور کہا جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی ۔

حدیث مبارکہ :ان اللہ خلق آدم علی صورتہٖ
تحقیق اللہ نے پیدا کیا انسان کو صورت اپنی پر
لقد کرمنا بنی آدم علی صورتہٖ اس سے آگے کمال کیا ہے
صورت اللہ پر صورت آدم ،اس سے زیادہ جمال کیا ہے۔

ز ابلیس ہرگز نیائید سجود
نہ از گہر نیکوئی در وجود

حدیث مبارکہ: کل شئی یرجع الیٰ اصلہٖ
ہر ایک چیز اپنے اصل کی طرف لوٹ جاتی ہے
 

محمد فہد

محفلین
خاکسار عظیم اللہ قریشی کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ بیٹا ہے جس کا نام ہے فردان۔

ماشاء اللہ بہت پیارے نام، ہیں
اللہ سوہنا، آپ اور آپ کے پیاروں کو اپنے آمان میں رکھیں اور سارے جہاں کی خوشیاں عطاء فرماتے اپنے رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں ۔۔ آمین یارب ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ‘‘تذکرہ بابا تاج الدین ناگپوریؒ ‘’ میں اپنے نانا صاحبؒ کی ایک کرامت کی توجیہہ بیان کی ہے۔
‘‘ایک لنگڑا نوجوان شفا خانے میں آ کر ٹھہر گیا۔ یہ شفا خانہ بھی مسجد اور مدرسے کی طرح پھونس کی جھونپڑیوں پر مشتمل تھا۔ لنگڑا صبح کھا پی کر شفاخانے سے چلتا اور نانا تاج الدین کے سامنے آ بیٹھتا۔ سلام کر کے لنگڑی ٹانگ پھیلا کر اپنا ہاتھ پھیرنے لگتا اور ایسا منہ بناتا کہ جیسے بڑی تکلیف میں ہے۔ نانا ‘‘ہوں’’ کہہ کر چپ ہو جاتے۔ اس طرح دو مہینے گزر گئے۔ لنگڑا تھا بڑا اڑیل، اپنے معمول پر قائم رہا۔ ایک روز غصے میں بھرا ہوا آیا اور نانا کی طرف دیکھ کر بڑبڑانے لگا۔ ‘‘خدا نے مجھے لنگڑا کر دیا جن کی ٹانگیں ہیں ان کو کچھ احساس نہیں ہوتا۔ سنا تھا کہ خدا کے یہاں انصاف ہے۔ انصاف کو بھی جھنجوڑ کر دیکھ لیا۔ لوگ خدا خدا پکارتے ہیں لیکن خدا والوں کو بھی دیکھ لیا۔ یہ بھی سب گونگے بہرے ہیں۔ خدا اور خدا والوں سے تو میری بیساکھی اچھی ہے سہارا تو دیتی ہے۔’’
نانا اس کی باتیں سن کر جھنجلا گئے اور چیخ کر بولے ‘‘جا دفان ہو جا۔ بھلا چنگا ہو کر لنگڑا بنتا ہے۔ جھوٹا کہیں کا’’ اور یہ کہہ کر لنگڑے کو مارنے کے لئے دوڑے۔ لنگڑا بیساکھی چھوڑ کر بھاگا۔ اب اس کی لنگڑی ٹانگ بالکل ٹھیک ہو چکی تھی۔

انسان علی شاہ، نانا تاج الدینؒ کے فیض یافتہ تھے۔ ان کو روحانی علوم پر عبور تھا اور سوچنے کی طرزیں بھی نانا سے ملتی تھیں۔ انہوں نے نانا کی حیات میں ترک وطن کر کے شکر درہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ایک دن لنگڑے کا واقعہ زیر بحث آ گیا۔
انسان علی شاہ کہنے لگے۔ اس واقعہ کی توجیہہ مشکل نہیں۔ یہ سمجھنا کہ کائنات ارتقائی مراحل طے کر رہی ہے غلط ہے۔ یہاں ہر چیز صدوری طور پر ہوتی ہے۔ وقت صرف انسان کی اندرونی واردات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی شئے اندرونی واردات کی حد سے باہر نہیں۔ تغیر اور ارتقاء کے مرحلے اندرونی واردات ہی کے اجزاء ہیں۔ یہ واردات ہی نوعی سراپا کی نقلیں افراد کی شکل و صورت میں چھاپتی ہیں۔ چھپائی کی رفتار معین ہے۔ اسی رفتار کا نام وقت ہے۔ اگر اس رفتار میں کمی بیشی ہو جائے تو لنگڑا، لولا، اندھا چھپنے لگتا ہے۔ حوادث اس طرح رونما ہوتے ہیں۔ جب عارف کا ذہن ایک آن کے لئے صدوری کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے تو یہ بے اعتدالیاں دور ہو جاتی ہیں اور لولے لنگڑے بھلے چنگے ہو جاتے ہیں۔
محمد سعد
 
آخری تدوین:
حضرت علیؑ : سخاوت کیا ہے؟
حضرت حسنؑ : فراخی اور تنگ دستی دونوں حالتوں میں خرچ کرنا
حضرت علی ؑ: کمینگی کیا ہے؟
حضرت حسنؑ : مال کو بچانے کے لئے عزت گنوا بیٹھنا
حضرت علی ؑ : بزدلی کیا ہے؟
حضرت حسن ؑ : دوست کو بہادری دکھانا اور دشمن سے ڈرتے رہنا
حضرت علی ؑ : مالداری کیا ہے؟
حضرت حسن ؑ: اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہنا، خواہ مال تھوڑا ہی کیوں نہ ہو
حضرت علی ؑ: بردباری کیا ہے؟
حضرت حسن ؑ: غصے کو پی جانا اور نفس پر قابو رکھنا
حضرت علی ؑ: بے وقوفی کیا ہے؟
حضرت حسن ؑ : عزت دار لوگوں سے جھگڑا کرنا
حضرت علی ؑ : ذلت کیا ہے؟
حضرت حسن ؑ : مصیبت کے وقت جزع فزع کرنا
حضرت علی ؑ : تکلیف دہ چیز کیاہے؟
حضرت حسن ؑ : لایعنی اور فضول کلام میں مشغول ہونا
حضرت علی ؑ : بزرگی کیا ہے؟
حضرت حسن ؑ : لوگوں کے جرمانے ادا کرنا اور جرم کو معاف کرنا
حضرت علی ؑ: سرداری کس چیز کا نام ہے؟
حضرت حسن ؑ : اچھے کام کرنا اور برے امور ترک کردینا
حضرت علی ؑ : نادانی کیا ہے؟
حضرت حسنؑ : کمینے لوگوں کی اتباع کرنا اور سرکش لوگوں سے محبت کرنا
حضرت علی ؑ : غفلت کیا ہے؟
حضرت حسن ؑ : مسجد سے تعلق ختم کرلینا اور اہل فساد کی اطاعت کرنا
حلیۃ الأولیاء:۲/۳۶،
المعجم الکبیر:۳/۶۸
 
”کرم یافتہ لوگ“

جہاں تک میرا مشاھدہ ھے کہ میں نے جب بھی کوئی ایسا شخص دیکھا جس پر رب کا کرم تھا

اُسے عاجز پایا۔
پوری عقل کے باوجود بس سیدھا سا بندہ۔
بہت تیزی نہیں دکھائے گا۔
اُلجھائے گا نہیں۔ رستہ دے دے گا۔
بہت زیادہ غصّہ نہیں کرے گا۔
سِمپل بات کرے گا۔

میں نے ھر کرم ھُوئے شخص کو

مخلص دیکھا۔ اخلاص سے بھرا ھُوا
غلطی کو مان جاتا ھے
معذرت کر لیتا ھے
سرنڈر کر دیتا ھے۔

جس پر بھی کرم ھُوا ھے میں نے اُسے دوسروں کے لیے فائدہ مند دیکھا۔ اور یہ ھو ھی نہیں سکتا کہ آپ کی ذات سے کسی کو نفع ھو رھا ھو اور اللہ آپ کے لیے کشادگی کو روک دے۔ وہ اور زیادہ کرم کرے گا۔

میں نے ھر صاحبِ کرم کو احسان کرتے دیکھا ھے۔ حق سے زیادہ دیتا ھے۔ اُس کا درجن 13 کا ھوتا ھے، 12 کا نہیں۔ اللہ کے کرم کے پہیے کو چلانے کے لیے آپ بھی درجن 13 کا کرو اپنی زندگی میں اپنی کمٹمنٹ سے تھوڑا زیادہ احسان کر دیا کرو۔

نہیں تو کیا ھو گا؟

حساب پہ چلو گے تو حساب ھی چلے گا. دِل کے کنجُوس کے لیے کائنات بھی کنجوس ھو جاتی ھے۔ دل کے سخی کے لیے کائنات خزانہ ھے۔

آسانیاں دو ، آسانیاں ملیں گی.

”واصف علی واصف“
 
اپنے زنگ آلود قلب کو مثل آئینہ سیقل کرلو جو کہ ہر منظر کو منعکس کرتا ہے لیکن اس کو مستقل نہیں رکھتا ہے منظر یا مقام بدل جائے یعنی سوچ اور جذبہ کا طوفان گزر جائے تو کورے کاغذ کی طرح ایک دم صاف۔
پس آئینہ بنو سینما گھر میں پڑی بڑے سے فلیتے کی شکل میں پڑی فلم کا کوئی سین نہ بنو جس پر کسی بھی منظر کی عکس بندی ہوجائے تو پھر وہ کبھی نہیں مٹتی ہے۔
اگر معاشرے میں کوئی گالی دے یا برا بھلا کہے تو مثل آئینہ منظر تبدیل ہونے کے بعد مٹا دو فلم کے سین کی طرح محفوظ نہ کریں۔
کسی سے بھی طمع نہ کریں
طمع نہ کریں منع نہ کریں جمع نہ کریں
کوئی آئے تو طمع نہ کریں کوئی جائے تو منع نہ کریں اور دونوں صورتوں کو جمع نہ کریں۔
 
اپنی ذات کا عرفان ہی اصل علم ہے باقی سب فضول ہیں گو دنیاوی طور پر فائدہ پہنچاتے ہیں جس سے صرف دنیا ہی سنورتی ہے۔
جیسے کوئی کسی سبجیکٹ میں پی ایچ ڈی کرلے تو اس کو اچھی نوکری ملے گی اسی طرح دینی علم حاصل کرلیا تو مفتی تک پہنچ جائے گا۔
ایک کو دنیا مفتی صاحب اور دوسرے کو دنیا ڈاکٹر صاحب/پروفیسر صاحب کہتی پھرے گے۔
پس دونوں ہی اپنی ایگو و انا میں مارے جاتے ہیں جب کے ذات کا عارف کامیاب ہوجاتا ہے۔
تو علموں بس کر یار
العلم نقطہ الجہال
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
اتنا اچھا سلسلہ شروع کرنے پر میری طرف سے مبارکباد قبول فرمائیں عظیم اللہ قریشی بھائی
اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈال رہا ہوں۔

لوگوں کو ذلیل و رسوا کرنے والا بدترین انسان ہے (ارشاد رسولﷺ)
 
Top