رمضان کی سوغات ہیں یہ یار پکوڑے

امین شارق

محفلین
عزیزان من، آداب! ایک مزاحیہ غزل پیشِ خدمت ہے۔۔۔
رمضان کی سوغات ہیں یہ یار پکوڑے
ہر گھر میں مِلیں گے تمہیں تیار پکوڑے

یہ چاٹ سموسے بھی تمہارے ہی لئے ہیں
پہلے ذرا حلقُوم سے اُتار پکوڑے

شوقینِ پکوڑا کی ہے بس ایک ہی خُواہش
اِفطار میں مِل جائیں مزیدار پکوڑے

لگتا ہے کوئی مِرچ ہے دانتوں میں دب گئی
کیوں بن گئے ہیں آپ کے رُخسار پکوڑے

رش لگ گیا ہے ڈاکٹر کے پاس تو دیکھو
اچھے بھلے کو کرتے ہیں بِیمار پکوڑے

مانا کہ پھل بھی اپنی جگہ خُوب ہیں لیکن
حسرت سے دیکھتے ہیں روزہ دار پکوڑے

بڑھتی ہے طلب بُھوک کی کچھ اور بھی زیادہ
آنکھیں ترا جب کرتی ہیں دِیدار پکوڑے

جب بُھوک کی حالت میں تجھے دیکھتے ہیں ہم
آتا ہے بہت تم پہ ہمیں پیار پکوڑے

اُن کے لئے کھانے کے کئی خوان سجے ہیں
اور ہم کو میسر نہیں دو چار پکوڑے

آ جائے مزا زِیست اگر ایسے بسر ہو
سحری میں سِویاں ہوں تو اِفطار پکوڑے

جِن کو نہیں تمیز ِسُخن بزم میں شارؔق
اُن لوگوں کے ہیں اصل میں کِردار پکوڑے
 
Top