شفیق خلش :::::رغبت ِ دِل کوزمانے سے چُھپایا تھا بہت :::::Shafiq -Khalish

طارق شاہ

محفلین


1.jpg

غزل
رغبت ِ دِل کوزمانے سے چُھپایا تھا بہت
لیکن اُس ضبطِ محبّت نے رُلایا تھا بہت

دسترس نے بھی تو مٹّی میں مِلایا تھا بہت
جب تماشا دِلی خواہش نے بنایا تھا بہت

بے بسی نے بھی شب و روز رُلایا تھا بہت
خواہشِ ماہ میں جی اپنا جلایا تھا بہت

کُچھ تو کم مایَگی رکھّے رہی آزردہ ہَمَیں!
کُچھ ہَمَیں اُس کی اداؤں نے ستایا تھابہت

ہجر و فُرقت سے رہا مُجھ پہ زمانہ وہ کہاں!
در بَدر سے، تِری قُربت نے بچایا تھا بہت

رازداری بھی مُصیبت سے کہاں کم تھی خلش ؔ
لاحق اندیشوں نے کب دِل نہ ہِلایا تھا بہت

یاد کرتا ہُوں وہ ایّامِ لطافت ،کہ خلشؔ!
جب تصوّر سےبھی اِس دل کو لُبھایا تھا بہت

شفیق خلشؔ

 
Top