غزل
کہاں کی عاشقی یاں کون عاشقانہ ہے
جسے بھی جانچ کے دیکھا وہ سوقیانہ ہے
ہے جو بھی عرض تمہیں عشق ہی جٙتٙانا ہے
زبان شاکی ہے دل پھر بھی عاشقانہ ہے
گھرے ہوئے ہو جفا جُو تماش بینوں میں
نہیں ہے فائدہ پھر بھی تمہیں بتانا ہے
وفا کے پیشِ نظر اب تلک نہ توڑا ہے
وہ سلسلہ جو جفائوں کا شاخسانہ ہے
ہیں دل میں چھید ہزاروں نظر کے تیروں سے
میں تیرا صید تُو صیّاد دلبرانہ ہے
جہاں جہاں سے نظر آر پار ہو گزری
ہویدا نور کا اک بحرِ بیکرانہ ہے
جو راہِ عشق سے گزرا صراط سے گزرا
یہی مقام ہے جس کے لئے زمانہ ہے
نہ جانے لوگ کہاں سے کہاں چلے ہیں رشک
نشانِ راہ نہ منزل کا کچھ نشانہ ہے

سید افتخار احمد رشک
 
Top