شفیق خلش ::: راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے:::shafiq khalish

طارق شاہ

محفلین
1.jpg


راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے
جب کیفیت ایسی ہو، تو کیا ہوگا دُعا سے


کب راس رہا اُن کو جُداگانہ تشخّص!
رافِل رہے ہر اِک کو وہ، گفتار و ادا سے

تقدیر و مُکافات پہ ایمان نہیں کُچھ
جائز کریں ہر بات وہ آئینِ وَفا سے

ہر نعمتِ قُدرت کو رہا اُن سے علاقہ!
کب زُلف پریشاں نہ ہُوئی دستِ صبا سے

حاصِل تِری قُربت کا ، نہ کم تُجھ سے عزیز اب
اِک یاد، جو مِٹ پائی نہ کوشِش، نہ سزا سے

ہر چند کہ واقِف ہُوں، نہیں میرا مُقدّر!
تھکتے ہیں اُٹھے ہاتھ بَھلا اُس کی دُعا سے

یُوں اُن کی محبّت پہ کُچھ احباب تھے دُشمن!
تھے اپنے کئے ظلم جنھیں ہم پہ رَوا سے

ہنگامِ قیامت ہے جَھلک تک مجھے جس کی
مُشتاق ہُوں مِلنے کا اُسی ہوش رُبا سے

افراطِ غَمِ ہجر سے برسِیں بہت آنکھیں!
یاد آئی خلش جب کوئی گنگھور گھٹا سے

شفیق خلش
11 ستمبر۔ 2021
 
Top